غلام علی اوکاڑوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
غلام علی اوکاڑوی
Ghulam Ali Okarvi

معلومات شخصیت
پیدائش 11 جون 1920ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گجرات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 مئی 2000ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جمیعت علمائے پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد کوکب نورانی اوکاڑوی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر أبو البركات أحمد، نعيم الدين مرادآبادي
متاثر محمد شفیع اوکاڑوی حضور گنج عنایت سرکار
غلام علی اوکاڑوی کا مزار

ابوالفضل شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی اہلسنت کے اکابر مشائخ اور اہلسنت کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہزاروں نامور علما شامل ہیں جن میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت پیر محمد عنایت احمد نقشبندی حضور گنج عنایت سرکار لاہور

مولانا محفوظ الحق شاہ صاحب و دیگر شامل ہیں

نام و نسب[ترمیم]

غلام علی اشرفی قادری ولدیت : سلطان احمد چوہدری : گوجر گوت کھٹانہ رضا آباد گجرات

ولادت[ترمیم]

تاریخ پیدائش : 11جون 1920ء(جمعتہ المبارک رمضان 1338ھ)

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک عمر سے پرائمری تک حاصل کی اور پھر " جوڑا کرنانہ "مڈل اسکول میں داخل ہوئے ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز مناظر اسلام فاتح مرزائیت مفتی شیخ محمد عبد اللہ سے کیا بعد میں حزب الاحناف لاہور کی شاخ جالندھر سے مولانا حافظ عبد المجید گورداسپوری سے گلستان، بوستان، مالابُد پڑھی اور کافیہ تک صرف و نحو علامہ عبد القادر کاشمیری سے پڑھیں اور پھر استاذ العلماء علامہ عبد الجلیل ہزاروی کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام کتب درسیہ متد اولہ پڑھیں ہزاروی صاحب کی نظر نے جلد ہی آپکو کندن بنادیا یہاں تک آپ 1938ء میں موقوف علیہ سے فارغ ہو گئے آپ 1935ء کے اوائل میں یہاں داخل ہوئے تھے ہوشیار پور کے مولانا غلام یاسین کے کہنے پر کچھ عرصہ کے لیے صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی کی خدمت رہ کر تقریر اور مناظرے میں مہارت تامہ حاصل کی

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کو جامع شریعت و طریقت علامہ مفتی ابوالبرکات سید احمد صاحب الوری سے شرف بیعت حاصل تھاان کے علاوہ سیدنا پیر طاہر علاؤ الدین الدین گیلانی بغدادی سے سلسلہ قادریہ و اعمال مشائخ کی خصوصی اجازت عطا کی قطب مدینہ شیخ ضیاء الدین مدنی نے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا کی قاہرہ کے شیخ سید حسین قادری شاذلی سے سلسلہ شاذلیہ کی اجازت و خلافت عطا کی شام کے مشہور شیخ محمد رمضان بوطی کردی خالدی نقشبندی نے بالخصوص سلسلہ خالدیہ کی اجازت عطا کی اور آپ سے بھی اجازت طلب کی

القابات[ترمیم]

غلام علی اوکاڑوی کو اہلسنت کے علما کی طرف سے انھیں شیخ الاسلام و المسلمین، شیخ القرآن والتفسیر، شیخ الحدیث، شیخ الفقہ، شیخ الادب، شیخ العلوم، شیخ العرب والعجم، شیخ العلماء والفضلاء ،شیخ المشائخ، شیخ الشریعہ ،شیخ الطریقہ، جیسے خطابات دیے گئے۔[1]

علمی خدمات[ترمیم]

شیخ القرآن کا مشغلہ دینی مدارس کے طلبہ کو درسی کتب کی تعلیم دینا تھا، ساری زندگی اسی شغف میں لگے رہے، اس کے ساتھ آپ دورہ تفسیر قرآن کورس کے نام سے دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات میں اہتمام کرتے جو بڑی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ کیونکہ اس میں برسوں کی ریاضت کا نچوڑ ہوا کرتا۔ اس میں اعتقادی ،علمی اور فقہی مسائل آسان طریقے سے سمجھائے جاتے۔

بانی اشرف المدارس[ترمیم]

شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی کی کاوش سے 1954ء میں جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ کا قیام ہوا جو علم کا ایک روشن مینار ہے۔ اس سے قبل آپ سیالکوٹ میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے جب آپ اوکاڑہ تشریف لائے تو آپ کے شاگرد خطیبِ پاکستان حضرت مولانا علامہ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حضرت علامہ پیر محمد عنایت احمد نقشبندی المعروف حضور گنج عنایت ہمراہ موجود تھے ۔۔

اس وقت اشرف المدارس اوکاڑہ اپنی دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے

خدمات[ترمیم]

سیاسی و مسلکی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے تحریک پاکستان سے تحریک نظام مصطفے ٰ تک ہر پلیٹ فارم پر نمایاں خدمات ہیں سنی کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ عالمی سنی کانفرنس ملتان اور میلاد مصطفے ٰ کانفرنس رائے ونڈ ان کے کا رہائے نمایاں میں شامل ہیں۔[2]

شیخ القرآن کا شمار ان معدودے چند علماءکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت ‘ تقوی وطہارت اور عظمت کردار کے اپنے پرائے سب معترف تھے۔

وفات[ترمیم]

11صفر المظفر 1421ھ بروز منگل بمطابق 16مئی 2000ء کو عالم ربانی نے جناح ہسپتال لاہور میں وصال فرمایا

حوالہ جات[ترمیم]