فاطمہ حسن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فاطمہ حسن
پیدائش23 جنوری 1953(1953-01-23)
کراچی ، پاکستان
پیشہادب، تدریس
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے ابلاغیات ، پی ایچ ڈی
مادر علمیجامعہ کراچی
اصنافنقاد ، شاعری
نمایاں کامادب ، سماجیات

ڈاکٹر فاطمہ حسن پاکستان کی نامور شاعرہ، محقق، نقاد اور ادیبہ ہیں۔انھوں نے انجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمد اعزازی کی حیثیت سے بھی 2014ء سے مارچ 2019ء تک بہت فعال کردار ادا کیا۔

حالاتِ زندگی[ترمیم]

فاطمہ حسن 24؍ جنوری 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ اصل نام سیدہ انیس فاطمہ زیدی اور قلمی و ادبی نام فاطمہ حسن ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

فاط،ہ حسن کو کم عمری ہی میں کراچی شہر کو چھوڑ کر والدین کے ساتھ ڈھاکا جا کر سکونت اختیار کرنا پڑی۔ لہذا ابتدائی تعلیمی دور وہیں گذرا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد ڈھاکا یونی ورسٹی میں ابھی وہ بی اے آنرز (اردو) کر رہی تھیں کہ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا، لہذا 1973ء میں وہ کراچی واپس آگئیں اور یہاں بی اے کا امتحان پرائیوٹ دیا۔ اس کے بعد جامعہ کراچی سے ایم اے (جرنلزم) اور پی ایچ ڈی کیا۔

کیرئیر کا آغاز[ترمیم]

فاطمہ حسن 1977ء میں حکومتِ سندھ سے وابستہ ہوئیں اور 2012ء میں سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن سے ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ تربیت و تحقیق کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ اسی اثنا میں انھوں نے جامعہ کراچی کے شعبۂ اِبلاغِ عامہ میں جُز وقتی تدریس کی خدمات انجام دینا شروع کیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد محمد علی جناح یونی ورسٹی سے بحیثیت پروفیسر وابستہ ہوگئیں۔


شعر و نثر[ترمیم]

ڈاکٹر فاطمہ حسن کا شعری سفر نوجوانی سے ہی باقاعدہ مجموعوں کی اشاعت کی صورت پا چکا تھا۔ ان کے چارشعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ادبہ دنیا میں بہے وقعت و پزیرائی حاصل کرچکے ہیں۔

’’بہتے ہوئے پھول‘‘ (1977ء)،

’’دستک سے در کا فاصلہ‘‘ (1993ء)[1]

’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ (2004ء)[2]

’’ یاد کی بارشیں(2005 )[3]

’’فاصلوں سے ماورا (2019ء )

ابتدائی تین مجموعوں پر مشتمل کتاب ’’یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ روش پبلشرز لاہورنے شائع کی ہے۔ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ہندوستان پاکستان کے علاوہ متعدد ممالک میں عالمی سطح کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کی اور وقیع مقالے پیش کیے ہیں۔

’’ کہانیاں گم ہو جاتی ہیں (2000 ) ‘‘ [4]

’’ اردو شاعرات اور نسائی شعور (2022 ) ‘‘[5]

کتاب دوستاں 2011 [6]

مرتب کردہ کتب[ترمیم]

’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ (2006ء)

فیمنزم اور ہم 2005 [7]

قمر جمیل ایک عہد ساز شخصیت 2022 [8]

دیگر نثری و تحقیقی خدمات[ترمیم]

1۔ فاطمہ حسن نے محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ کے لیے شیخ ایاز کے اُردو میں ترجمہ کردہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘ کی ادارت کی اور نیشنل بک فائونڈیشن کے لیے اس میں سے انتخاب بھی کیا جو 2016ء میں شائع ہوا۔

2۔ محکمۂ ثقافت سندھ کے لیے ہی شیخ ایاز کی نثری نظموں کی دو سندھی کتابوں کے تراجم پر نظرِ ثانی کرکے مجموعہ ’’اے آہو چشم کدھر‘‘ مرتب کیا۔

3۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ورثہ سیریز کے لیے مختلف شعرا زاہدہ خاتون شروانیہ، پروین شاکر، منیر نیازی، ادا جعفری اور جمیل الدین عالی کے کلام کا انتخاب بھی تعارف کے ساتھ مرتب کیا۔

3۔ فاطمہ کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں‘‘ (2000ء) میں شائع ہوا۔ اس کی دوسری اشاعت جس میں بعد میں لکھی جانے والی کہانیوں کا اضافہ کیا گیا ہے، 2018ء میں ہوئی۔

4 ۔ مطالعاتی مضامین کا مجموعہ بھی ’’کتابِ دوستاں‘‘ (2011ء)کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

5۔ نسائی تنقید پر تین تالیفات ’’خاموشی کی آواز‘‘ (2004ء) ، ’’فیمینزم اور ہم‘‘ (2005ء) اور ’’بلوچستان کا ادب اور خواتین‘‘ (2006ء)[9]میں شائع ہوئیں اور پسندیدگی کی سند حاصل کی۔

6۔ اقبالیات پر اُن کی مرتب کردہ کتاب ’’مطالعۂ اقبال کی جہتیں‘‘ (2018ء) میں شائع ہوئی۔

7۔ ان کی ایک اور بے حد اہم تحقیقی کتاب" اردو شاعرات اور نسائی شعور سو برس کا سفر(1920-2020)’’ کے عنوان سے 2021 ء میں شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کی اشاعت انجمن ترقی ارد و ہند سے بھی ہوئی ہے۔

8۔ ان کی ایک نظم ’’آگہی‘‘ 1991ء میں بچوں کے عالمی سال پر یونیسف نے اپنے پوسٹرپر شائع کی اور ڈراما ’’حوّا کی بیٹی‘‘ کا تھیم سانگ بھی تھی۔

پی ایچ ڈی کا مقالہ[ترمیم]

فاطمہ حسن نے اُردو رسائل میں شائع ہونے والی اوّلین نہایت اہم شاعرہ زخ ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کی حیات و شاعری پر معیاری مقالہ لکھ کر جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ا یہ مقالہ انجمن ترقی اردو کے زیراہتمام کتابی شکل میں دو ایڈیشن میں شائع ہو چکا ہے۔اس طرح فاطمہ حسن نے اردو ادب کی تاریخ میں فراموش کردہ ایک اہم شاعرہ کو تاریخ کا حصہ بنادیا ۔

فاطمہ حسن کی ترجمہ نگاری[ترمیم]

ڈاکٹر فابمہ حسن نے بہت سے منظوم تراجم بھہ کیے ہیں ۔ لعل شہباز قلندر کے ہچھ منتخب کردہ عارفانہ کلام کو بھی اردو میں نظم کیا ہے۔[10]

فاطمہ حسن کی ادبی خدمات کے تراجم[ترمیم]

فاطمہ حسن کے ادبی کام کی اہمیت کے پیشِ نظران کی شاعری کاانگریزی ترجمہ معروف دانشور ڈاکٹر ستیہ پال آنند (امریکا) اسٹیل ڈرائی لینڈ (آسٹریلیا) اور ڈیوڈ میتھیوز (برطانیہ) نے کیا ہے۔ انگریزی تراجم کا ایک انتخاب Strange was the Dream، 2016ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا اجرا نومبر 2016ء میں ڈھاکا (بنگلہ دیش) کے عالمی ادبی میلے میں کیا گیا۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کی نظامت و خدمات[ترمیم]

ان کی انتظامی صلاحیتوں اور ادبی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جناب جمیل الدین عالی نے 19 مارچ 2014ء کو انھیں انجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمد اعزازی کا عہدہ سپرد کیا۔بابائے اردو سے وابستہ یہ انجمن جو بہت اہم اور فعال ادارے کی حیثیت سے پچھلے سو سال سے اُردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں نمایاں خدمات انجام دے چکی ہے۔ انجمن کے رسالے ’’قومی زبان‘‘ کی ادارت بھی وہ خود کر تی رہیں۔سہ ماہی ’’اردو‘‘ جو اب شش ماہی ہے اس مجلے کو ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق شائع کرنا شروع کرنا بھی ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ان کے دیگر رفقائے کار کی کاوشوں سے ممکن ہوا۔

اُن کا ایک بہت اہم کام انجمن کی نئی عمارت ’اردو باغ‘ کی تعمیر کا آغاز اور متعینہ وقت میں اُس کی تکمیل، یہاں دفتر، کتب خانے اور مخطوطات کی منتقلی ہے۔ یہ مخطوطات 1973ء میں قومی عجائب گھر، کراچی میں امانتاً رکھوائے گئے تھے اب یہ اردو باغ میں منتقل ہوکر ڈیجلائز ہو رہے ہیں۔

دیگر کلیدی عہدے اور رکنیت[ترمیم]

اگرچہ ڈاکٹر فاطمہ حسن 1977ء سے مختلف سرکاری عہدوں پر بطور آفیسر اور شعبۂ تدریس سے بھی وابستہ تہیں تاہم انجمن کی مصروفیات کی وجہ سے اُنھوں نے جامعات میں تدریس کا سلسلہ منقطع کر دیا،

  1. وفاقی جامعہ اردو کی سینیٹ کی رکن رہی ہیں اور یہاں انھوں نے دفتری اردو مراسلت کا ایک کورس انجمن کے تعاون سے شروع کیا۔
  2. علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی، اسلام آباد کی ایگزیکٹیو کونسل کی رکن رہی ہیں۔
  3. اقبال اکیڈمی، لاہور کی گورننگ باڈی کی بھی رکن رہیں۔

اعزازات[ترمیم]

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کی مقتدر ادبی تنظیموں نے اعزازات سے نوازا ہے۔

انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2012ء میں صدارتی ’’تمغۂ امتیاز‘‘ بھی ملا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]