قرآن اور طب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قرآن اور طب (Medicine) دراصل قرآن میں جدید طب کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کی ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف طب کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود طب کے متعلق حقائق، جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔[1][2]

شہد : نوع انسانی کے لیے شفا[ترمیم]

شہد کی مکھی کئی طرح کے پھلوں اور پھولوں کا رس چوستی ہے اور اسے اپنے ہی جسم کے اندر شہد میں تبدیل کرتی ہے۔ اس شہد کو وہ اپنے چھتے میں بنے خانوں (Cells)میں جمع کرتی ہے۔ آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے 1400 سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔
یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ئُ لِّلنَّا سِ ط [3]
ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔
علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پپوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کانام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ٢٢ ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جرا ثیموں کوروکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔
قرآن میں شہد اس کی تشکیل اور خصوصیا ت کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے اسے انسان نے نزول قرآن کے صدیوں بعد اپنے تجربے اور مشاہدے سے دریافت کیا ہے۔

نشانات انگشت ( Finger Prints)[ترمیم]

اَ یَحْسَبُ الْاِ نْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَا مَہ ط ہ بَلٰی قٰدِ رِ یْنَ عَلٰی اَنْ نُّسَوِّ یْ بَنَا نَہ ہ[4]
ترجمہ:۔ کیا انسا یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور (finger tips) تک ٹھیک بنادینے پر قادر ہیں۔
کفاراور ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص مرجانے کے بعد مٹی میں مل جاتا ہے اور اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کے روز اُسکے جسم کا ایک ایک ذرہ دوبارہ یکجا ہو کرپہلے والی( زندہ) حالت میں واپس آجائے ۔۔۔ اور اگر ایسا ہوبھی گیا تو روزِ محشراس شخص کی ٹھیک ٹھیک شناخت کیونکر ہو گی؟ اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال نے مذکورہ بالاآیات مبارکہ میں اسی اعتراض کابہت واضح جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ ( اللہ تعالیٰ) صرف اسی پر قدرت نہیں رکھتا کہ ریزہ ہڈیوں کو واپس یکجا کر دے۔ بلکہ اس پر بھی قادر ہے کہ ہماری انگلیوں کی پوروں (finger tips) تک دوبارہ سے پہلے والی حالت میں ٹھیک ٹھیک طور لے آئے۔
سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک انسانوں کی انفرادی شناخت کی بات کر رہاہے تو انگلیوں کی پوروں کا خصوصیت سے تذکرہ کیوں کر رہاہے؟ سرفرانسس گولڈ (Frances Gold) کی تحقیق کے بعد 1880ء میں نشانات انگشت( finger prints) کو شناخت کے سائنسی طریقے کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ہم یہ جانتے ہیں۔ کہ اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتٰی کہ ہم شکل جڑواں افراد کابھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مجرموں کی شنا خت کے لیے ان کے نشا نا ت ِا نگشت ہی استعمال کیے جا تے ہیں۔ کیا کویٔی بتاسکتاہے کہ آج سے ١٤٠٠سال پہلے کس کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقینا یہ علم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔

جلد میں درد کے اخذے ( Pain Receptors)[ترمیم]

پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض میں جلنے کی باعث پڑنے والے زخموں کا معائنہ کرتا ہے تووہ جلنے کا درجہ ( شدت) معلوم کرنے کے لیے ( جلے ہوئے مقام پر) سوئی چبھوکردیکھتاہے۔ اگر چُھبنے سے متاثرہ شخص کو درد محسوس ہوتاہے تو ڈاکٹر کو اس پر خوشی ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ جھلنے کا زخم صرف باہر کی حد تک ہے اوردردمحسوس کرنے والے خلیات (درد کے آخذے) محفوظ ہیں۔ اس کے برخلاف اگر متاثرہ شخص کو سوئی چُھبنے پر درد محسوس نہ ہوتو یہ تشویشناک امرہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلنے سے بننے والے زخم کی گہرائی زیادہ ہے اور درد کے آخذے (receptor) بھی مردہ ہو چکے ہیں۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:
اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ[5]
ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔
تھائی لینڈ میں چانگ مائی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اناٹونی کے سربراہ پروفیسر تیگاتات تیجاشان (Tagatat Tejasen) نے درد کے آخذوں پرتحقیق میں بہت وقت صرف کیا۔ پہلے تو انھیں یقین ہی نہیں آیا کہ قرآن پاک نے ١٤٠٠ سال پہلے اس سائنسی حقیقت کا انکشاف کر دیا ہوگا۔ تاہم بعد ازاں جب انھوں نے مذکورہ آیت قرآنی کے ترجمے کی باقاعدہ تصدیق کرلی تو وہ قرآن پاک کی سائنسی درستی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سعودی عرب کے شہرریاض میں منعقدہ آٹھویں سعودی طبی کانفرنس کے موقع پر جس کا موضوع 'قرآن پاک اور سنت میں سائنسی نشانیاں' تھا انھوں نے بھرے مجمعے میں فخرکے ساتھ کہا۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمدۖ اللہَّ کے رسول ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحہ 30
  2. قرآن، بائبل اور جدید ساینس، مصنّف : ڈاکٹر مارس بوکائے، صفحہ 265
  3. القرآن ،سورة الخل 16سورةآیت69
  4. القرآن : سورة 75: آیات3 تا4
  5. القرآن : سورة ٤: آیت ٥٦