احمد یار خان نعیمی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


مفتی احمد یار خان نعیمی
معلومات شخصیت
پیدائش جمعرات 4 جمادی الاولیٰ 1314ھ / 1 مارچ 1894ء
محلہ کھیڑہ، بست اوجھیانی، ضلع بدایوں (اتر پردیش، ہند)
وفات اتوار 3 رمضان 1391ھ / 24 اکتوبر 1971ء
گجرات (پنجاب، پاکستان)
لقب حکیم الامت، مفسر شہیر
اولاد مفتی مختار احمد خان، مفتی اقتدار احمد خان
والد مولانا محمد یار خان بدایونی
عملی زندگی
کارہائے نمایاں تفسیر نعیمی ،  نور العرفان فی حاشیہ قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی بدایونی گجراتی (ولادت: 1324ھ/1894ء، وفات: 1391ھ/1971ء) مفسرِ قرآن، شارح حدیث، مفتی، مفکر، نعت گو شاعر اور بہت سی مشہور و معروف کتب کے مصنف تھے، جن میں تفسیرِ نورُالعرفان، تفسیر نعیمی(پارہ گیارہ تک)، مرآۃ المناجیح  اور جاءالحق تو عوام و خواص میں بہت ہی  مشہور و معروف ہیں۔ بدایوں شریف کو جن ہستیوں کے مقام پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے، ا ن میں ایک ذات آپ کی بھی ہے۔ آپ کی ولادت صبح ِصادق کی پُرنور اور بابرکت ساعتوں میں شوّالُ المکرّم 1314ھ کو محلہ کھیڑہ، بستی اوجھیانی (بدایوں، یوپی ہند) میں ہوئی۔ آپ نے قراٰنِ پاک سےلے کر فارسی کی نصابی تعلیم اور درسِ نظامی کی ابتدائی کُتُب اپنے والدِگرامی مولانا محمد یار خان بدایونی سے پڑھیں، جامعہ شمسُ العلوم میں علامہ قدیر بخش بدایونی کی نگرانی میں تین سال تک تعلیم حاصل کی، پھر مختلف درس گاہوں میں پڑھا اور آخر کار جامعہ نعیمیہ  (مُراد آباد، ہند) میں داخلہ لے کر خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرُ الافاضل مفتی سیّد محمد نعیمُ الدّین مراد آبادی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حافظ مشتاق احمد صدیقی کانپوری جیسے شفیق اور مہربان اَساتِذَہ کے زیرِ سایہ رہ  کرعلم و عمل کی دولت سے فیض یاب ہوئے، اور 19 برس کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔ سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعداستادِ محترم علامہ صدرُ الافاضل سیّدمحمدنعیمُ الدّین مراد آبادی کی  ہدایت پر جامعہ نعىمىہ (مراد آباد، ہند)، جامعہ مسکینیہ (دھوراجی، کاٹھیاواڑ، ہند)، کچھوچھہ شریف اور بھکھی شریف (تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤ الدین، پنجاب، پاکستان)میں تدریس فرمائی۔ پھر آپ ضلع گجرات (پنجاب، پاکستان)تشریف لےآئے اورزندگی کے بقِیَّہ ایّام یہیں گزارے۔بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدّامُ الصّوفیہ (گجرات) اور دس برس انجمن خُدّامُ الرَّسول میں فرائضِ تدریس انجام دیتے رہے۔وصال سے چھ سال قبل جامعہ غوثیہ نعیمیہ میں تدریس اور افتا کا سلسلہ رہا۔ آپ نے (سوائے ’’علم المیراث‘‘کے) اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔ نماز سے محبت کا یہ عالم تھا کہ عرصۂ دراز  تک تکبیرِ اُولیٰ بھی فوت ہوتے ہوئے نہ دیکھی گئی۔ خاموشی سے اذان سننے کا اس قدر اہتما م فرماتے کہ بوقتِ اذان گھر میں سناٹا ہو جاتا۔ نمازِباجماعت کی ادائیگی کے لئے اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے جانا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔ بتاریخ 3رمضانُ المبارک1391ھ (24 اکتوبر 1971ء ) کو آپ کا وصال ہوا۔آپ کا مزارِ فائضُ الانوار گجرات شہر (پنجاب، پاکستان)میں ہے۔

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت محلہ کھیڑہ[1]، بستی اوجھیانی[1]، ضلع بدایوں[1] (اتر پردیش[2]، ہند) میں ہوئی۔ آپ یکم مارچ 1894ء کو بمطابق 1324ھ جمادی الاولیٰ کی 4 تاریخ، جمعرات کے دن، نمازِ فجر کے وقت پیدا ہوءے۔[2]تاہم، آپ کی ولادت کا سال 1324ھ/1906ء بھی مِلتا ہے۔[3]

خاندان[ترمیم]

آپ کے والد مولانا محمدیار خان ابن منور خان تھے۔ ان کا تعلق یوسف زئی پٹھان قبیلے سے تھا۔

تعلیم[ترمیم]

مفتی احمد یار خان نعیمی گیارہ برس کی عمر میں تحصیلِ علم کے لیے وطن سے باہر نکلے اور [انیس سے]بیس برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہو گئے۔[4] مفتی احمد یار خان نعیمی علمائے دین کے اس قافلے کے آخری افراد میں تھے جنھوں نے موجودہ صدی کے نصف اول بلکہ ربع اول کی اکثر عظیم المرتبت دینی ولی شخصیات کو دیکھا، قریب ہو کر ان سے فیض یاب ہوئے اور آگے اپنی پوری زندگی اس مشن کی خدمت میں سرگرم رکھی، جو عظیم اسلاف سے ان کی طرف منتقل ہوا تھا۔ مفتی احمد یار خان نعیمی کے وصال سے ہماری ملی تاریخ کا ایک خاص دور سمٹتا ہو محسوس ہو رہا ہے۔ جس دور کی خصوصیت یہ تھی کہ ابھی کچھ لوگ منصب و جاہ کے خیال سے بہت دور، پورے اخلاص اور للہیت کے ساتھ کتاب وسنت کی خدمت میں مشغول تھے اور سلف صالحین کی و ورائع وراثت کی حفاظت انہی کے طریق کار کے مطابق کیے جارہے تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنے بچپن میں چودہویں صدی کے مجدد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی زیارت کی تھی اور بعد میں ان کے تلامذہ و خلفاء کی درس گاہوں میں انتہائی شوق محنت سے علم دین کی تحصیل کی۔ آپ نے [گھر] اوجھیانی سے ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر، نہایت چھوٹی عمر میں، تحصیلِ علوم کے لئے وطن سے نکل کھڑے ہوئے اور سالہا سال تک [شمس العلوم ] بدایوں اور [جامعہ اسلامیہ] مینڈھو میں درسِ نظامی کے اسباق پڑھتے رہے، اور اس دور میں اپنے کسی عزیز کی ہمراہی میں مراد آباد کی عظیم درس گاہ جامعہ نعیمیہ کے بانی صدالا فاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ اس طرح آپ کا دور طالب علمی کا کل زمانہ کوئی تیرہ چودہ سال کی مدت پر مشتمل معلوم ہوتا ہے، جس کو پانچ مقامات پر تقسیم کیا جا سکتا ہے:[4][5]

  1. گھر (اوجھیانی)
  2. شمس العلوم (بدایوں)
  3. جامعہ اسلامیہ (مینڈھو)
  4. جامعہ نعیمیہ (مراد آباد)
  5. میرٹھ

گھر (اوجھیانی)۔ مفتی احمد یار خان نعیمی تین سال گیارہ ماہ ایک دن کے ہوے تو آپ کی تسمیہ خوانی 1318ھ/1898ء میں بدایوں شہر کے ایک بزرگ عبدالقدیر میاں کے ذریعے ہوئی۔ پھر ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے پائی۔[4] غالباً چھ سات سال کی عمر [1325ھ/1905ء یا 1326ھ/1906ء]سےشروع ہو کر گیارہ سال کی عمر تک[4]، تقریباً چار پانچ سال تک [1329ھ/1909ء یا 1330ھ/1910ء] [6]، مفتی احمد یار خان نعیمی نے ابتدائی تعلیم، قرآن مجید، دینیات، فارسی اور درس نظامی کی ابتدائی کتابیں، اپنے وطن اوجھیانی (بدایوں) میں اپنے والد مولانا محمد یار خان بدایونی سے پائی[7]، جو فارسی نصاب اور ابتدائی بنیات کی تعلیم و تربیت کے نہایت ماہر تعلیم تھے اور جنھوں نے مسلسل 45سال تک اپنی بستی کی جامع مسجد میں خطابت و امامت اور تبلیغ و تدریس کی خدمات انجام دی تھیں اور گھر پر حسابی تعلیم کے لئے ایک مکتب قائم کر رکھا تھا۔[8]

شمس العلوم (بدایوں)۔اپنے والد ماجد سے پڑھنے کے بعد، آپ کی طالب علمی کا دوسرا دور بدایوں شہر میں گزرا، جہاں آپ گیارہ برس کی عمر میں تقریباً 1335ھ/1916ء (جب کہ ایک دوسرے اندازے پر 1325ھ/[1905][9]) میں آ کر جامعہ شمس العلوم (بدایوں، یوپی، ہندوستان) میں داخل ہوے، جہاں آپ تین سال 1335ھ تا 1338ھ / 1916ء تا 1919ء تک علامہ قدیر بخش بدایونی وغیرہ سے پڑھتے رہے۔ [10]اسی زمانہ میں آپ بریلی جا کر اعلی حضرت کی زیارت سے مشرف ہوے۔[11] ابتدائی کتب محنت و جانفشانی سے پڑھیں، امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے، مولانا حافظ بخش بدایونی (ممتحن) نے خاص طور پر ان کی تعریف کی اور انہیں انعام کا مستحق قرار دیا۔[12] ماہنامہ شمس العلوم (بدایوں) میں یہ کیفیت شائع ہوئی۔[13]

جامعہ اسلامیہ (مینڈھو)۔ جامہ شمس العلوم (بدایوں) میں تین سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد[9] ، آپ جامعہ اسلامیہ ( مینڈھو، ضلع علی گڑھ) میں داخل ہوے اور کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔

جامعہ نعیمیہ (مراد آباد)۔ جامعہ اسلامیہ (مینڈھو) کے بعد، 1332ھ اپنے چچا زاد بھائی کی وساطت سے آپ جامعہ نعیمیہ پہنچے، اور یہاں صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی مُلا حسن پڑھا رہے تھے، جس میں آپ نے بھی شرکت کی اور دورانِ سبق ملا حسن کے کسی سبق پر ایک اچھی خاصی تقریر فرمائی جو صدرالافاضل نے بڑے غور سے سنی، اور اس طرح مفتی احمد یار خان نعیمی نے یہاں داخلہ لے لیا۔ [9] اپنے مراد آباد جانے کا تذکرہ مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنے مجموعہ کلام دیوانِ سالک کے ایک حاشیہ میں بھی کیا ہے۔[14] یہاں جامعہ نعیمیہ میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے صدرالافاضل، علامہ عاشق علی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی[14]، اور اس طرح مفتی احمد یار خان نعیمی کی اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا [15]۔ پھربےپناہ مصروفیت کے باعث، صدر الافاضل نے کانپور کے علامہ مشتاق احمد صدیقی کانپوری جو معقولات و ریاضیات کی تدریس میں یکتائے روزگار شمار ہوتے تھے وقیع مشاہرے پر مراد آباد (جامعہ نعیمیہ میں) بلا لیا اور مفتی احمد یار خان نعیمی کی تعلیم ان کے سپرد کر دی۔ [15] یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر معلوم ہوتی ہے کہ تحریک آزادی کے ایک نامور سپاہی شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی بھی کانپور، مراد آباد اور میرٹھ میں علامہ مشتاق احمد سے پڑھتے رہے تھے۔ اس طرح علامہ ہزاروی، مفتی احمد یار خان نعیمی کے استاد بھائی تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی خود فرمایا کرتے تھے کہ مراد آباد کا قیام میری زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ صدر الافاضل کی شفقت، توجہ خصوصی اور حکیمانہ تربیت نے مفتی احمد یار خان نعیمی کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔[8] یہاں کی تعلیم نے آپ کو محدث، محقق، مفسر، مفتی، مصنف، مفکر، شاعر وغیرہ بنایا۔آپ نے اپنے اساتذہ سے چوبیس علوم میں مہارت حاصل کی اور انیس سال کی عمر میں 1332ھ/ 1913ء بروز چہار شنبہ آپ کو اسناد ملیں، اور بعد دستارِ فضیلت صدرالافاضل نے آپ کو جامعہ نعیمیہ کی تدریس و خدمتِ افتا سپرد کر دیں۔[7] عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے سالِ فراغت 1344ھ/1925 اور اس وقت آپ کی عمر بیس سال لکھی ہے، "ایک سال بعد مولانا احمد حسن کانپوری میرٹھ تشریف لے گئے تو مفتی صاحب بھی استاذِ گرامی کے ساتھ رہے اور 1344ھ[10]/1925ء میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کر لی۔ اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔[15]

تدریس[ترمیم]

بیس سال کی عمر میں درس نظامی کی تکمیل پر جامعہ نعیمیہ، مراد آباد، میں بطور مدرس آپ کی تعیناتی ہوئی۔تدریسی فرائض کے علاوہ فتوی بھی جاری کرتے تھے۔تین سال تک کچھوچھہ شریف میں قیام رہا۔ مولانا سید ابو البرکات احمد کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اور بارہ تیرہ سال دارالعلوم خدام الصوفیہ اور دس برس انجمن خدام الرسول میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس طرح آپ کے تدریس دور کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:[15]

  1. جامعہ نعیمیہ (مراد آباد، ہندوستان)
  2. جامعہ مسکینیہ (دھوراجی، کاٹھیاواڑ، گجرات، ہندوستان)
  3. خانقاہ عالیہ (کچھوچھہ، اتر پردیش، ہندوستان)
  4. دار العلوم خدام الصوفیہ (گجرات، پاکستان)
  5. انجمن خدام الرسول
  6. جامعہ غوثیہ نعیمیہ

جامعہ مسکینیہ۔ حصول علم سے فارغ ہو کر مفتی احمد یار خان نعیمی نے تدریس اور تالیف کے کام سے علمی زندگی آغاز کیا۔ تدریس کے فرائض دھوراجی ( کاٹھیاواڑ، گجرات ) میں دیتے رہے۔

خانقاہ عالیہ (کچھوچھہ، اتر پردیش، ہندوستان)۔ دھوراجی ( کاٹھیاواڑ، گجرات ) کے بَعد، مفتی احمد یار خان نعیمی کچھوچھہ شریف (اترپردیش) کی خانقاہ عالیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

دار العلوم خدام الصوفیہ (گجرات، پاکستان)۔ سن [1359ھ] 1939ء کے لگ بھگ مفتی احمد یار خان نعیمی گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے، جہاں جماعت علی شاہ محدثِ علی پوری کی تبلیغی انجمن "خدام الصوفیہ" کی گجرات شاخ کے دارالعلوم میں تدریس، تبلیغ اور تصنیف کا کام مفتی احمد یار خان نعیمی نے شروع فرمایا۔ جماعت علی شاہ صاحب محدثِ علی پوری مفتی احمد یار خان نعیمی کے علم و فضل اور شوق دینی کی بنا پر ان کے بڑے قدردان تھے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی کے دور میں گجرات علم وفن کے ایک خاص معیار کا حامل تھا۔ پیر ولایت شاہ، قاضی عبدالحکیم، مولانا نیک عالم قادری اور مولا نا عمر بخش گجراتی جیسے فقیر منش اور بے لوٹ اکابرِ دِین و صوفیاء کا بابرکت گروہ موجود تھا۔ مفتی احمد یار خان نعیمی نے خود اس عظیم دور میں خوب شوق و محنت سے تعلیم دین کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی، اور دوسری طرف قبلہ صاحب نے خطابت جمعہ اور روزانہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا، دار الافتاء کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔ اسی دور میں قبلہ صاحب نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی کی تالیف شروع کی۔[8]آپ نے (سوائے ’’علم المیراث‘‘کے) اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔[16][17]

تبلیغ[ترمیم]

حصولِ علم سے فارغ ہوکر مفتی احمد یار خان نعیمی جب سنہ [1359ھ] 1939ءکے لگ بھگ گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے تو وہاں تدریس و تصنیف کے ساتھ تبلیغ کا کام بھی شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان کیا گیا کہ ایک دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی اور دوسری طرف آپ نے وہاں خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔نیز، مفتی احمد یار خان نعیمی نے تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے لیے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔

تصانیف[ترمیم]

حصولِ علم سے فارغ ہوکر مفتی احمد یار خان نعیمی جب سنہ [1359ھ] 1939ءکے لگ بھگ گجرات (پنجاب، پاکستان) میں منتقل ہو گئے تو وہاں تدریس و تبلیغ کے ساتھ تصنیف کا کام بھی شروع کر دیا جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان کیا گیا کہ ایک طرف دار العلوم میں قابل طلباء کی ایک جماعت تیار ہونے لگی، دوسری طرف مفتی احمد یار خان نعیمی نے خطابتِ جمعہ اور روزانہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور تیسری طرف تصنیف و تالیف کے عظیم کام کا آغاز کر دیا اور دار الافتاء کی خدمات اس پر مستزاد تھیں۔ ان کی پہلی تالیف قانونِ وراثت پر علم المیراث کے نام سے منظرِ عام پر آئی، اور سوائے اس علم المیراث کے آپ نے اپنی تمام تصانیف  گجرات میں قیام  کے زمانے میں ہی تحریر فرمائیں۔[16][17]

مفتی احمد یار خان نعیمی نے [1377ھ] 1957ء میں حاشیہ قرآن مجید نور العرفان لکھ کر حکیم الامت کا لقب پایا۔

گجرات کے دور قیام میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے اپنی مشہور و معروف تفسیر نعیمی شریف کی تالیف شروع کی[18]، جس کی پہلی جلد 1363ھ/ [1943ء] میں مکمل کی[19]، جس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت 11 چیزیں بیان کیں، اور مندرجہ ذیل آیت مبارکہ کی "تفسیر مکمل لکھ چکے تھے کہ"[20] 1391ھ/1971ء میں وصال ہو گیا: پارہ 11، (سورت 11 سے پہلے والی) سورت 10 یعنی یونس، (رکوع 11 کے بَعد والے) رکوع یعنی 12 کی دوسری آیت یعنی 62 نمبر، جو 11 الفاظ پر مشتمل ہے، "[1]اَلَاۤ [2]اِنَّ [3]اَوْلِیَآءَ [4]اللّٰهِ [5]لَا [6]خَوْفٌ [7]عَلَیْهِمْ [8]وَ [9]لَا [10]هُمْ [11]یَحْزَنُوْنَ" ["سن لو، بےشک، اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے"]۔

علم المیراث، نور العرفان اور تفسیر نعیمی کے علاوہ، مفتی احمد یار خان نعیمی نے متعدد دیگر کتب تالیف فرمائیں، جن کی کُل تعداد پانچ سو (500) ہے جن میں سے کئی ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ضائع ہو گئیں اور کئی شائع ہو چکی ہیں اور کئی ہنوز غیرمطبوع ہیں۔[21] شائع شدہ میں میں مواعظِ نعیمیہ، شانِ حبیب الرحمٰن، اسرار الاحکام، سلطنتِ مصطفے اور اسلامی زندگی کے نام بہت نمایاں ہیں۔[18] آپ کی چند مشہور تصانیف کی تفصیل ترتیب الف بائی سے مندرجہ ذیل ہے۔

مشہور تصانیف ِمفتی احمد یار خان نعیمی
نام موضوع تاریخ صفحات تفصیل
اجمال ترجمہ اکمال اسماء الرجال 1378ھ/[1958ء][22] 75 یہ کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے خطیب تبریزی صاحبِ مشکوٰۃ المصابیح کے فن اسماء الرجال پر رسالہ اکمال کا ترجمہ ہے، جس کا اردو ترجمہ مفتی احمد یار خان نعیمی نے کیا ۔
اسرار الاحکام فقہ 1368ھ/[1948ء][22]
اسلام کی چار اصولی اصطلاحیں عقائد 1384ھ/1964ء[22] 50 اس کتاب میں مصنف نے توحید و رسالت اور نبوت و ایمان کے معنی کی وضاحت کی ہے ، اور اس کتاب کو مندرجہ ذیل چار ابحاث میں تقسیم کیا ہے: الہ، رسول، نبی اور ایمان۔
اسلامی زندگی متفرق 1363ھ/1943ء[22] اس میں غیرمسلم رسوم سے بچنے کی تلقین اور تقریباتِ اسلامی کے آداب بیان ہوے ہیں۔ اس میں بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ اسلام کی معاشرتی اور تہذیبی ہدایات جمع کر دی گئیں ہیں، مُسرفانہ رسوم اور جاہلانہ اطوار کی مذمت کی گئی ہے اور اس کے مقابلے پر بتایا ہے کہ انسان زندگی کے مختلف مراحل میں پیش آنے والے معاملات و تقریبات کے لیے اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔[23]
امیر معاویہ پر ایک نظر سیرت 1375ھ[22] صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت و وفضائل پر ایک مدلل تحریر ہے۔
ایک اسلام عقائد 1375ھ[22]
تفسیر نعیمی: جلد 1 تفسیر 1363ھ/[1943ء][24] 701 یہ گیارہ پاروں کی گیارہ جِلدوں پر مشتمل اردو زبان میں ایک تفصیلی تفسیر قرآن ہے، جو دیگر اہم تفاسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے گویا تفسیر روح البیان، تفسیر کبیر، تفسیر عزیزی، تفسیر مدارک، تفسیر ابن عربی کا خلاصہ ہے، اور اس میں ہر آیت مبارکہ کے تحت مندرجہ ذیل گیارہ چیزیں درج ہیں جو دوسری قرآن مجید کی تفاسیر میں اس انداز میں موجود نہیں، جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق فائدہ اٹھا سکتے ہیں:
  1. عربی آیت
  2. لفظی ترجمہ
  3. بامحاورہ ترجمہ
  4. تعلقاتِ آیات
  5. نزول و شانِ نزول
  6. تفسیر عالمانہ
  7. خلاصہ تفسیر
  8. فوائد
  9. فقہی مسائل
  10. اعتراضات و جوابات
  11. تفسیر صوفیانہ
تفسیر نعیمی: جلد 2 تفسیر 1364ھ/[1944ء][25] 582 یہ قرآن مجید کے دوسرے پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 3 تفسیر 1365ھ/1946ء[26] 630 یہ قرآن مجید کے تیسرے پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 4 تفسیر 1381ھ/1961ء [27] 650 یہ قرآن مجید کے چوتھے پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 5 تفسیر 1383ھ / 1963ء [28] 616 یہ قرآن مجید کے پانچویں پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 6 تفسیر 1386ھ/1966ء [29] 646 یہ قرآن مجید کے چھٹے پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 7 تفسیر 1387ھ/ 1967ء [30] 673 یہ قرآن مجید کے ساتویں پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 8 تفسیر 1388ھ / 1968ء [31] 592 یہ قرآن مجید کے آٹھویں پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 9 تفسیر 1390ھ/ 1970ء [32] 561 یہ قرآن مجید کے نویں پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 10 تفسیر 1391ھ/1971ء[33] 568 یہ قرآن مجید کے دسویں پارے کی تفسیر ہے۔
تفسیر نعیمی: جلد 11 تفسیر 1391ھ/1971ء [34] 568 یہ قرآن مجید کے گیارہویں پارے کی تفسیر ہے۔
جاء الحق وزہق الباطل کلام 1376ھ[22]
درسِ قرآن تفسیر 137 اس میں مصنف کے کچھ وہ قرآنی درس جمع کر دیے گئے ہیں جو آپ مدّت سے جامع مسجد غوثیہ، گجرات، میں مسلسل دیتے رہے۔ آج کل یہ کتاب رسائل نعیمیہ میں شامل ہے، جو رسائلِ نعیمیہ کا آخری رسالہ ہے اور صفحہ 392 تا آخرِ کتاب 528 تک پھیلا ہوا ہے۔
دیوان سالک نعت 1357ھ[22]
رحمت خدا بوسیلہ اولیاء اللہ سیرت 1371ھ[22]
رسالہ نور سیرت 1375ھ[22]
سفر نامے حج و زیارت سفر نامہ 1373ھ تا 1383ھ[22]
سلطنت مصطفے در مملکت کبریاء سیرت 1367ھ[22]
شان حبیب الرحمن من آیات القرآن سیرت 1361ھ تا 1365ھ[22]
علم القرآن لترجمۃ الفرقان اصول تفسیر 1371ھ/[1951ء][22] 225 یہ اصطلاحات و قواعد و مسائلِ قرآنیہ کے موضوع پر کتاب ہے اور مندرجہ ذیل تین ابواب میں تقسیم ہے: اصطلاحاتِ قرآنیہ، قواعدِ قرآنیہ اور مسائلِ قرآنیہ۔ ان تین ابواب کے تحت آیاتِ قرآنیہ کی قِسمیں، تفسیرِ قرآن کے درجے و احکام وغیرہ بہت سی ضمنی ابحاث بھی آ گئی ہیں۔
علم المیراث میراث 1352ھ[22] یہ پہلے گجراتی زبان میں شائع کی گئی اور بعد میں اس کا اردو ایڈیشن چھاپا گیا۔ دھورا جی کے زمانے کے تلامذہ میں مصنف کے ایک نامور شاگر جناب مولانا آلِ حسن سنبھلی اشرفی ہیں، انھوں نے علم المیراث کے آغاز پر ایک مختصر پیش لفظ تحریر کیا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی مولانا ریاض الحسن سنبھلی (گجرات، پاکستان) کے دور میں مصنف سے پڑھتے رہے ہیں۔[35]
فتاویٰ نعیمیہ فقہ 1357ھ[22]
الکلام المقبول فی شرافۃ نسب الرسول سیرت
مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح شرح حدیث 1378ھ[22]
معلم تقریر متفرق
مواعظ نعمیہ متفرق
نعیم الباری فی انشراح بخاری شرح حدیث
نور العرفان تفسیر 1377ھ/1957ء[22] 1032

القابات[ترمیم]

مفتی احمد یار خان نعیمی کو مفسر شہیر، حکیم الامت وغیرہ القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ سن [1377ھ] 1957ء میں، حاشیہ قرآن مجید نور العرفان میں، حاشیہ قرآن مجید نور العرفان لکھنے پر مُلک کے نامور علماے کرام اور تحریک پاکستان کے حامی جید علماء کی تنظیم مفتی احمد یار خان نعیمی کو حکیم الامت کا لقب عطا فرمایا۔ چنانچہ شیخ بلال احمد صدیقی لکھتے ہیں:

حکیم الامت کو 1957ء میں حاشیہ قرآن مجید لکھنے پر پیرسید معصوم شاہ صاحب نوشاہی قادری، مالکِ نوری کتب خانہ، لاہور، کی تحریک پر پاکستان کے جید علماءکرام نے متفقا تجویز فرمایا، اور ہندوستان کے علماء اہلسنت نے اس لقب کو تسلیم کیا، اور پہلی بار [یہ لقب] آپ کے حاشیہ القرآن مسمیٰ نور العرفان [کے] سرورق پر طبع ہوا۔ ان علما کرام کے اسماء گرامی جنھوں نے حکیم الامت کے لقب سے نوازا [مندرجہ ذیل ہیں]:

  • پیر سید معصوم شاہ نوشاہی
  • سید ابو الکمال برق نوشاہی
  • شیخ الحدیث عبد الغفور ہزاروی
  • شیخ الحدیث مولا نا سردار احمد
  • غزالی زماں مولانا سید احمد سعید کاظمی شاہ
  • پیر سید محمد حسین شاہ ابن سید امیر ملت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری ( حیدر آباد، دکن، پاکستان )
  • بابو جی، گولڑہ شریف
  • قاری احمد حسین رہتکی خطیبِ اعظم عیدگاه، گجرات
  • صاحبزادگانِ صدر الافاضل سید نعیم الدین صاحب مراد آبادی[36]

وفات[ترمیم]

مفتی احمد یار خان نعیمی نے 3رمضان المبارک 1391ھ بمطابق 24 اکتوبر 1971ء کو وصال فرمایا۔ نماز جنازہ مولانا سید ابو البرکات احمد نے پڑھائی۔ آپ کا مزار ضلع گجرات (پاکستان) میں ہے۔[37]

جامعاتی تحقیق[ترمیم]

  • انصر محمود، مفتی احمد یار خان نعیمی کی حیات و خدمات، منہاج یونیورسٹی: لاہور۔
  • دلاور حسین، تخریج جاء الحق: حصہ دوم، منہاج یونیورسٹی:  لاہور۔
  • ساجد محمود عابد، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اور ان کی تفسیری خدمات، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔
  • علی محمد، ڈاکٹر محمد نوید اور ڈاکٹر محمد انصار، مفتی احمد یار خان نعیمی کا مباحثِ تصوف میں درایتی اسلوب، الحمید اسلامی اسٹڈیز ریسرچ جرنل، جلد 3، شمار 1، 2024ء، لاہور ، ISSN: 2959-1767, ISSN: 259-1759۔
  • فیصل منیر، مفتی احمد یار خان نعیمی کی تصنیفی خدمات، امپیرئیل کالج آف بزنس سڈڈیز: لاہور۔
  • محمد افضل قادری، تخریج جاء الحق: حصہ اوّل، منہاج یونیورسٹی:لاہور۔
  • محمد عرفان، مفتی احمد یار خان نعیمی کا منہجِ تفسیر بحوالہ تصوف، بہا الدین یونیورسٹی: ملتان۔

ماخذ و مراجع[ترمیم]

بنیادی[ترمیم]

  • مولانا مہر علی شاہ، الیواقیت المھریہ فی شرح الثورۃ الھدیہ، مکتبۃ المہریہ: چشتیاں، بہاول نگر [تاریخ درج نہیں، تاہم "مقدمہ" میں مصنف نے یہ تاریخ درج کی ہے] 1384ھ/1964ء۔
  • قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء۔
  • شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء۔

ثانوی[ترمیم]

  • مولانا مفتی عبدالحمید نعیمی، حیات حکیم الامت، "ولادت شریف"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء۔
  • المدینۃ العلمیہ، فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی ، مکتبہ المدینہ: کراچی، [2016ء]۔
  • مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ، مکتبہ اعلیٰ حضرت: لاہور، 1439ھ/2018ء۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 13۔
  2. ^ ا ب مولانا مفتی عبدالحمید نعیمی، حیات حکیم الامت، "ولادت شریف"، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 26۔
  3. اس کے لیے مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ ہو:
    • قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، ص 13۔
    • مولانا مہر علی شاہ ، الیواقیت المہریہ، ص 39 مولانا مہر علی شاہ، الیواقیت المھریہ فی شرح الثورۃ الھدیہ، مکتبۃ المہریہ: چشتیاں، بہاول نگر [تاریخ درج نہیں، تاہم "مقدمہ" میں مصنف نے یہ تاریخ درج کی ہے] 1384ھ/1964ء، ص39۔
    • شرفِ ملّت محمد عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلِ سنت: پاکستان، "الف: 8۔ حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ"، شبیر برادرز پبلشرز: لاہور، 1396ھ/1976ء، ص54۔
  4. ^ ا ب پ ت قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 23۔
  5. محمد شعیب عطاری، "تفسیرِ نعیمی (جلد اول) کی چند تفسیری خصوصیات"، التفسیر، کراچی، جلد 8، شمارہ 23، جنوری تا جون 2014ء (169 تا 192)، ص 169۔
  6. قاضی عبدالنبی، حیات سالک، ص 23۔
  7. ^ ا ب شیخ محمد بلال صدیقی، حالات زندگی، ص 176 تا 177۔
  8. ^ ا ب پ شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 60 تا 62۔
  9. ^ ا ب پ مولانا محمد نوید کمال مدنی، تفسیر نعیمی سے حکمت بھری مثالیں: تفسیر نعیمی میں آیات قرآنیہ کی تفسیر میں بیان کردہ 1409 ایمان افروز عقلی مثالوں کا مجموعہ، مکتبہ اعلیٰ حضرت: لاہور، 1439ھ/2018ء، ص 58۔
  10. ^ ا ب قاضی عبدالنبی کوکب، سیرت سالک، ص 23 تا 27۔
  11. عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت: پاکستان، ص 54۔
  12. ماہنامہ شمس العلوم، بدایوں، بحوالہ عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت: پاکستان، ص 54۔
  13. پروفیسر محمد ایوب قادری، قلمی یاداشت، بحوالہ عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت: پاکستان، ص 54۔
  14. ^ ا ب پروفیسر محمد ایوب قادری، قلمی یاداشت، بحوالہ عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت: پاکستان، ص 54 تا 55۔
  15. ^ ا ب پ ت پروفیسر محمد ایوب قادری، قلمی یاداشت، بحوالہ عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلسنت: پاکستان، ص 55۔
  16. ^ ا ب قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص83 تا 87ملخصاً۔
  17. ^ ا ب محمد عبدالحکیم شرف قادری، تذکرہ اکابر اہلِ سنت: پاکستان، "الف: 8۔ حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ"، شبیر برادرز پبلشرز: لاہور، 1396ھ/1976ء، ص 55 ملخصاً۔
  18. ^ ا ب شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص62۔
  19. مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ، تفسیر نعیمی، جلد1، ص 701۔
  20. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 51۔
  21. مولانا مفتی عبدالحمید نعیمی، حیات حکیم الامت، باب ۲۴، حکیم الامت بطور مصنف، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 550۔
  22. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ ز ژ س شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 189 تا 192۔
  23. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 12۔
  24. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد1، ص 701۔
  25. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 2، ص 528۔
  26. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 3، ص 596۔
  27. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 4، ص581۔
  28. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 5، ص 519۔
  29. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 6، ص 647۔
  30. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 7، ص 673۔
  31. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 8، ص 592۔
  32. مفتی احمد یار خان نعیمی ، تفسیر نعیمی، جلد 9، ص 560۔
  33. مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر نعیمی، جلد 10، ص 509۔
  34. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک،"ہسپتال کی ڈائری"، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، ص 99؛ مفتی عبد الحمید نعیمی، حیاتِ حکیم الامت: مقالہ برائے تنظیم المدارس الشہادۃ العالمیہ ایم اے، باب 4، حکیم الامت بطور مفسر، نعیمی کتب خانہ: لاہور، 2011ء، ص 105؛ شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 62 تا 63۔
  35. قاضی عبدالنبی کوکب، حیات سالک، مکتبہ اسلامیہ، گجرات: پاکستان، [طباعت کی تاریخ درج نہیں، تاہم، مصنف نے دیباچہ "عرضِ اول میں جو تاریخ درج کی ہے وہ یہ ہے"] 1391ھ/1971ء، ص 39 تا 40۔
  36. شیخ بلال احمد صدیقی، حالاتِ زندگیِ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی ، نعیمی کتب خانہ، گجرات: پاکستان، 2004ء، ص 186۔
  37. المدینۃ العلمیہ، فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی ، مکتبہ المدینہ: کراچی، [2016ء]، ص 64تا 65۔