میاں عبد الحفيظ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا میاں عبد الحفیظ تونسہ شریف کے روحانی پیشوا شاہ محمد سلیمان تونسوی کے مرید اور شمس الدین سیالوی کے خلیفہ تھے۔

خواجہ میاں عبد الحفیظ
ذاتی
پیدائش(1246ھ بمطابق 1830ء)
سرکی شریف خوشاب
وفات(جمعرات 15 رجب المرجب 1305ھ بمطابق 28 مارچ 1888ء)
سرکی شریف خوشاب
مذہباسلام
والدین
  • حاجی نور محمد (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامسرکی شریف خوشاب
دورانیسویں صدی
پیشروشاہ محمد سلیمان تونسوی شمس الدین سیالوی
جانشینمیاں محمد شریف

ولادت[ترمیم]

میاں عبد الحفیظ کی ولادت 1246ھ بمطابق 1830ء کو سرکی شریف ضلع خوشاب میں حاجی نور محمد کے گھر ہوئی۔ آپ کا خاندان قوم کا اعوان تھا۔

تعلیم[ترمیم]

میاں عبد الحفیظ نے قرآن مجید کی تعلیم اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ بعد ازاں مختلف علاقوں میں جا کر تعلیم حاصل کی۔ آخری تعلیم مکھڈ شریف میں حاصل کی۔

بیعت[ترمیم]

مولانا عبد الحفیظ کے قیام مکھڈ شریف کے دوران خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ کی بارگاه عالی وقار میں حاضری کا شرف حاصل کیا اور حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔

شیخ سے محبت[ترمیم]

مولانا عبد الحفیظ کو اپنے شیخ طریقت سے والہانہ عقیدت اور محبت تھی اور جونہی آپ پر جذب و شوق کی کیفیت طاری ہوتی تو تونسہ شریف کے لیے رخت سفر باندھ لیتے اور کئی کئی دان وہاں رہ کر کسب فیض کرتے اور شیخ کی زیارت سے قلب کو منور کرتے۔ تونسہ شریف کا سفر پیدل بے کرتے اور اس کو باعث سعادت گردانتے تھے۔

  • نفحات المحبوب میں ہے کہ حضرت محبوب سبحانی نے فرمایا کہ مولوی حفیظ صاحب متوکل اور عاشق درویش تھے۔ جب کبھی سیال شریف میں ہمارے ساتھ ملاقات ہوتی تھی تو نظر کی کمی کے باعث ہاتھ آنکھوں کے پاس لے جا کر چہرہ ہمارے چہرے کے نزدیک کر کے بار بار دیکھا کرتے تھے۔ ان کی بیعت حضرت تونسوی (شاہ محمد سلیمان تونسوی) سے تھی لیکن فیض صحبت اور وظائف ہمارے حضرت صاحب (شمس الدین سیالوی) سے حاصل کیا۔

ایک بار آپ نے سنا کہ سجادہ نشین صاحب تونسوی مہار شریف سے دہلی اور وہاں سے اجمیر شریف تشریف لے جائیں گے تو باوجودیکہ عمر ضعیف تھی اور بدن لاغر تھا۔ مولانا حفیظ پیادہ اس سفر میں ان کے قدم بقدم گئے اور واپسں آئے۔ جب سیال شریف پہنچے تو سخت ناچار ہو چکے تھے۔ حضرت صاحب نے حکیموں کو فرمایا مولوی صاحب کو گرم پانی میں بٹھا کر ماش کرو۔ یہی عمل کئی دن تک کیا گیا تو تب جا کر تندرست ہوئے۔

سیال شریف حاضری کا حکم[ترمیم]

میاں عبد الحفیظ اور مولوی سلطان محمود ناڑوی دونوں پیر پٹھان کے جانثار و مرید تھے۔ حضرت پیر پٹھان کے انتقال کے بعد ان کی دنیا تاریک بوگی تھی۔ نہ رات کو آرام نہ دن کو قرار۔ ہجر محبوب میں ہمہ وقت رویا کرتے۔ ایک رات حضرت پیر پٹھان نے میاں حفیظ کو خواب میں ارشاد فرمایا کہ تم روتے کیوں ہو؟ میں تو اب تمھارے نزدیک سیالاں میں رہتا ہوں۔ آپ بیدار ہوئے اسی وقت بستر باندھا سر پر رکھا اور سیال شریف کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں ہی اپنے پیر بھائی مولوی سلطان محمود صاحب کے پاس سے گزرتے دیکھا وہ بھی بستر باندھے بیٹھے ہیں اور آماده سفر ہیں۔ آپ نے پوچھا حضرت کہاں کی تیاری ہے؟ فرمایا رات کو میرا دل از حد سوگوار تھا۔ روتے روتے آنکھ لگ گئی ۔ حضرت پیر پٹھان نے شرف زیارت بخشا اور فرمایا مولوی صاحب آپ اتنا کیوں روتے ہیں؟ میں تو اب تمھارے بالکل قریب سیالاں میں آ گیا ہوں۔ بعینہ یہی خواب میاں حفیظ صاحب دیکھ کر روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا بخدا مجھے بھی آج رات یہی حکم ملا ہے چنانچہ دونوں حضرت خواجہ شمس العارفین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کے روئے تاب کی زیارت سے ان کے غمزدہ دلوں کو قرار آگیا اور پھر ساری عمر حضرت خواجہ شمس العارفین کی محبت کا دم بھرتے رہے۔

خواجہ سیالوی سے محبت[ترمیم]

مولانا میاں عبد الحفیظ اپنے شیخ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے حکم کی تعمیل میں اکثر اوقات سیال شریف میں گزارتے تھے اور اپنے شیخ کی تصویر حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کی صورت و سیرت میں نظر آتی۔ جس کی بنا پر آپ سے والہانہ عقیدت و محبت ہو گئی ۔

خلافت[ترمیم]

مولانا میاں عبد الحفيظ خواجہ تونسوی کے حکم کے بعد ساری عمر سیال شریف مقیم رہے۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی آپ پر بے حد مہربان تھے۔ انھوں نے اپنی مسجد کی امامت خواجہ عبد الحفیظ کے سپرد کی۔ آپ نے اسے بحسن و خوبی سر انجام دیا۔ خواجہ سیالوی نے آپ کو اجازت بیعت اور خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔

درس و تدریس[ترمیم]

مولانا عبد الحفیظ نے حصول علم کے بعد سرکی شریف میں مدرسہ قائم کیا اور تشنگان شریعت و معرفت کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔ آپ کے پاس دور دراز سے علم و معرفت کے پیاسے آتے اور فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوکر واپس اپنے وطن جاتے۔

کرامات[ترمیم]

مولانا عبد الحفیظ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ آپ کے کچھ واقعات درج ذیل ہیں۔

  1. ایک مرتبہ عازم تونسہ شریف ہوئے۔ شیرعلی ساکن سرکی شریف ہمراہ تھا۔ عصر اور مغرب کے درمیان علاقہ اٹک میں ایک ڈیرہ کے قریب سے گذر ہوا تو اس ڈیرہ سے کتوں کی جوڑی بھونکتے ہوئے آپ کی جانب دوڑ پڑی۔ شیر علی نے عرض کیا : حضور کتے ظالم معلوم ہوتے ہیں اور قریب بھی آگئے ہیں تو آپ نے فرمایا صبر کرو۔ اللہ تعالی حافظ و ناصر ہے۔ آپ نے اپنا جوتا اتار کر پڑھنا شروع کر دیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کتے جہاں تھے وہیں رک گئے اور خاموش ہو کر دیکھنے لگے۔ ڈیرے کا مالک یہ کیفیت دیکھ رہا تھا۔ وہ حیران ہوا کہ میرے کتے تو بڑے ظالم ہیں کسی کو نہیں چھوڑتے ہو نہ ہو یہ کوئی اللہ والا ہے۔ کیوں نہ ان کی دعوت کی جائے اور دعا کرائی جائے کیونکہ اس ڈیرے کے مالک کی تین بیویاں تھیں اور کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ میری دعوت قبول فرمائیں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کھانے وغیرہ کی تو کوئی خواہش نہیں لیکن دعوت ٹھکرانا خلاف سنت ہے لہذا بہتر ہے کہ ہماری رہائش کا انتظام مسجد میں کیا جائے۔ شام کو جب آپ کھانا تناول فرمانے لگے تو اس وقت ڈریرے کے مالک نے عرض کیا کہ حضور تین بیویاں ہیں اور کوئی اولاد نرینہ نہیں۔ آپ میرے لیے دعا فرمائیں۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں روٹی کا گویا آخری لقمہ تھا جو منہ کی طرف لے جا رہے تھے۔ آپ نے وہی لقمہ اسے دے دیا اور فرمایا جس بیوی سے زیادہ محبت ہو اسے کھلا دو اللہ تعالی مہربانی کرے گا۔ اسی دوران اس نے شیر علی سے آپ کا نام و پتا دریافت کر لیا۔ حالانکہ آپ نے شیرعلی کو منع کر رکھا تھا کہ میرا پتا وغیرہ کسی کو نہ بتانا لیکن قدرت کو یہی منظور تھا۔ آپ وہی سے دوسرے روز تونسہ شریف روانہ ہو گئے اور کئی دن قیام کے بعد واپس سرکی شریف آگئے۔ تقریبا ایک سال بعد اٹک کا وہ شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور فلاں دن آپ میرے ڈیرے پر تشریف فرما ہوئے تھے اور آپ نے دعا کے ساتھ بیوی کو کھلانے کے لیے روٹی کا لقمہ عنایت فرمایا۔ سو اللہ تعالی نے اس کے صدقے مجھے بیٹا عطا کیا ہے۔ لہذا یہ معمولی سا خور و نوش کا سامان، نقدی اور سواری کے لیے گھوڑا حاضر خدمت ہے۔ آپ نے سامان خور و نوش اور نقدی طلبہ میں تقسیم کر دی اور سواری اسے واپس کر دی اور فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے مرشد کے حضور پیدل چل کر حاضر ہونا باعث فخر سمجھتا ہوں۔ بعد میں اسی وڈیرے نے دو مربع اراضی آپ کے نام منتقل کرنے کی خواہش کی تو فرمایا مجھے اس کی حاجت نہیں۔
  2. ایک دفعہ اپنے حجرہ شریف سے فارغ ہو کر باہر تشریف لائے تو دروازے پر ایک جذامی کو لیٹے ہوئے پایا۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا میاں کسی حکیم یا اللہ والے کے پاس جاؤ میں تو اللہ والوں کا خادم ہوں۔ وہ جذامی سیال شریف حاضر ہوا اور خواجہ شمس العارفین سیالوی کے حضور اپنی عرضداشت گزاری۔ آپ نے ارشاد فرمایا تمھارا علاج مولوی حفیظ کے پاس ہے لہذا سرکی شریف چلے جاؤ. جذامی عرض کرنے لگا کہ حضور پہلے وہیں گیا تھا مگر انھوں نے فرمایا کہ کسی حکیم اور اللہ والے کے پاس جائیں میں تو اللہ والوں کا خادم ہوں۔ خواجہ شمس العارفین نے فرمایا : اب تم جاؤ اور کہنا کہ سیالاں والے نے بھیجا ہے۔ جب وہ جذامی دوبارہ حاضر ہوا تو حجرہ بند پایا۔ دروازہ پر لیٹ گیا۔ جب مولانا حفیظ نماز اشراق کے بعد حجرہ شریف سے باہر نکلے تو وہ کوڑھی نظر آیا۔ آپ اس سے مخاطب ہوئے کہ بھائی میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ کسی اللہ والے یا حکیم کے پاس جاؤ۔ وہ فوراً عرض گزار ہوا کہ حضور اب تو مجھے سیالاں والے نے بھیجا ہے۔ یہ الفاظ سنتے ہی آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی اور اس کے سر کے بال پکڑ کر کھینچے تو تمام چمڑا سر سے پاؤں تک اتر آیا اور نیچے صاف شفاف جسم موجود تھا۔ وہ مریض نعرہ اللہ اکبر لگاتا بوا صحت یاب اپنے گھر لوٹا۔

وصال[ترمیم]

مولانا میاں عبد الحفیظ نے 15 رجب المرجب 1305ھ بمطابق 28 مارچ 1888ء کو بروز جمعرات وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ خواجہ محمد الدین سیالوی نے پڑھائی۔ آپ کی تدفین سرکی شریف ضلع خوشاب میں کی گئی۔ آپ کا عرس ہر سال 14 اور 15 رجب کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

اولاد[ترمیم]

مولانا عبد الحفیظ کے چھ فرزند تھے۔

  1. مولانا غلام فرید
  2. مولانا محمد حیات
  3. مولانا محمد لطیف
  4. مولانا محمد نطیف
  5. مولانا نور الہی
  6. مولانا میاں محمد شریف (سجادہ نشین) [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 183 تا 190