ہما صفدر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ہما صفدر
ہما صفدر
معلومات شخصیت
قومیت پاکستان
عملی زندگی
مادر علمی نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور
پیشہ استاد، تھیٹر فنکار
کارہائے نمایاں پنجابی نسوانی تھیٹر "سنگت" کی ہدایتکار

ہما صفدر ایک استاد، آرٹسٹ، [1] تھیٹر فنکار اور نسوانی تھیٹر "سنگت" کی ڈائریکٹر ہیں۔ بحیثیت آرٹسٹ ، انھوں نے اجوکا تھیٹر اور پنجاب لوک رہس کے ساتھ بھی کام کیا۔ انھوں نے لاہور گرائمر اسکول میں بطور آرٹ اور پنجابی زبان کی استاد کی حیثیت سے پڑھایا ہے۔ انھوں نے پنجابی تھیٹر، ادب اور لوک داستانوں کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے۔ وہ تیس سال سے تھیٹر کا کام سے منسلک ہیں۔[2][3][4][5][6]

ابتدائی زندگی اور کیریئر[ترمیم]

ہما نے 1981 میں نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور میں داخلہ لیا اور امتیاز کے ساتھ فائن آرٹس میں گریجویشن کی۔ انھوں نے وہاں پینٹنگ کرنا سیکھی۔ ضیاء الحق کے آمریت کے دور میں ایک طالب علم کی حیثیت سے، انھوں نے پنجابی زبان، خواتین، اقلیتوں اور زیر استحصال مزدور طبقے کے حق کے لیے سیاست کی۔ وہ سوشلسٹ نسواں پنجابی تھیٹر میں فنکار بن گئیں۔[7][8]

ہما نے سیاسی طور پر فعال گھرانے میں جنم لیا۔ ان کے والد صفدر رشید اور چچا انور رشید مزدور کسان پارٹی کے ارکان تھے اور ان کے ساتھ وہ کئی بار احتجاج میں شامل ہوئیں۔ ہما کے شوہر اکرم وڑائچ ایک پینٹر اور شاعر بھی ہیں جو معاشرے اور مضبوط جمہوری روایت کو قائم کرنے کے بارے میں مشترکہ خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ دونوں نجم حسین سید کے تھیٹر گروپ "سنگت" کے سرگرم رکن ہیں جہاں پنجابی صوفی شاعری اور سکھ گرووں کے کلام کو پڑھا اور گایا جاتا ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے جس کا نام راول ہے۔[9][10]

ہما نے امرا کے ایک اسکول، لاہور گرائمر اسکول میں آرٹس ٹیچر کی حیثیت سے کام کیا۔ زبان کے کارکن کی حیثیت سے، صفدر کی کاوشوں نے دو طریقوں سے کام کیا: طلبہ کے لیے پنجابی زبان اور پنجابی تھیٹر کی استاد کے طور پہ اور اسکول کے نصاب میں پنجابی زبان کو متعارف کروا کے۔ انھوں نے پانچویں جماعت سے اوپر کی جماعتوں کے لیے پنجابی زبان متعارف کروائی جہاں وہ پڑھاتی تھیں۔ پنجاب میں کوئی پنجابی میڈیم اسکول نہیں ہے جب کہ 50 فیصد سے زیادہ پاکستانی پنجابی بولتے ہیں۔ وہ ڈرامے کے انعقاد سے قبل اپنے طالب علموں کو تھیٹر کی کارکردگی کے لیے دو ماہ کی شدید ورکشاپ فراہم کرتی ہیں۔[11] وہ مدیحہ گوہر کے اجوکا تھیٹر گروپ میں بطور اداکارہ شامل ہوگئیں ۔ بعد میں، انھوں نے اپنا ایک گروپ ،" لوک ریہس" تشکیل دیا ، جس نے معاشرتی معاملات پر شعور اجاگر کرنے اور روایات اور لوک داستانوں کو دوبارہ دریافت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔[12][13]

پنجابی فیمنسٹ تھیٹر[ترمیم]

بحیثیت آرٹسٹ، ہما نے اجوکا تھیٹر میں کام کیا۔ انھوں نے تھیٹر پنجاب لوک رہس کا آغاز کیا اور روایتی اور پنجابی لوک داستانوں کے ذریعہ طبقاتی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ڈیڑھ دہائی تک اس کے ساتھ کام کیا۔ ایک آرٹ اسکول ٹیچر کی حیثیت سے انھوں نے ہائی اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ عمدہ پنجابی ڈرامے پیش کرنے میں اپنی صلاحیتیں پیش کی ہیں۔ ہما حقوق نسواں تھیٹر "سنگت" کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ [14] سنگت کا آغاز نجم حسین سید اور ان کی اہلیہثمینہ سید نے لاہور، جیل روڈ پر، اپنے گھر میں چالیس سال قبل شروع کیا تھا، جواب تک بغیر کسی وقفے کے جاری ہے اور جہاں پنجابی شاعری کے گانے اور گفتگو کرنے کے لیے ہفتہ وار اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ جمعہ کے روز ہر ہفتے مختلف مقامات پر جاری رہتا تھا۔[15][16]

سنگت میڈیا کی توجہ سے کتراتی ہے اور غیر معروف طوری پہ فلسفیانہ اور سیاسی سیاق و سباق کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ پھر بھی ، اس کی مقبولیت ان کی کچھ براہ راست پرفارمنس کے ذریعہ گردش کرتی رہی ہے۔ ہما، مصنف نجم حسین سید کو اپنا استاد مانتی ہیں اور ان کی بہت سی پروڈکشنز جیسے ہییر وارث شاہ، سسی پنوں اور اک رات راوی دی ، نجم سید کے لکھے ہوئے ڈرامے ہیں۔[17]

بہت سے فنی اور ادبی میلوں میں ہما بطور پینللسٹ شامل ہوئیں اور وہاں ڈراموں کی ہدایت بھی کی۔[18][19][20][21][22]

پنجابی ادب[ترمیم]

ایک ترقی پسند کے طور پر، ہما کا خیال ہے کہ پنجابی صوفی ادب کا نچوڑ انسانی اور نسائی بنیادوں پر قائم ہے۔ پنجابی ادب ان کے تھیٹر کے کام کی اساس بن گیا، کیونکہ جب انھوں نے خواتین کی تحریکوں میں شمولیت اختیار کی تو آمریت کے دور، 1980 کے دوران قائم کردہ اصولوں کے خلاف نظریاتی، سیاسی اور معاشرتی موقف رکھتی تھی۔ اپنے تھیٹر "سنگت" کے ذریعہ، ہما نے پنجابی ادب کو عام لوگوں کے مسائل کے لیے شعور اجاگر کرنے کا انقلابی عمل قرار دیا ہے۔ انھوں نے کلاسک پنجابی متن جیسے ہیر دمودر، مرزا صاحباں، ہیر وارث شاہ، 'الفو پیرنی دی وار" ( چھ گھنٹے کا ڈراما) اور شاعری کی پریزنٹیشنز سمیت متعدد کلاسک اور جدید پنجابی ڈراموں کی ہدایت کی۔ انھوں نے تھیٹر کی کارکردگی میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی اور چھوٹے شہروں سے لے کر بڑے شہروں تک، لڑکیوں کے اسکولوں اور خواتین کالجوں سے لے کر صوفی بزرگوں کے مزاروں تک مختلف مقامات پہ تھیٹر پرفارم کیا۔[23] وہ پنجابی شاعری پر بہت سی کتابیں لکھ چکی ہیں۔ [24][25][26][27][28][29]

ہما بحیثیت آرٹسٹ اور ایکٹوسٹ دونوں ہی کئی بار ہندوستان جا چکی ہیں۔[30][31]

مشہور تھیٹر ڈرامے[ترمیم]

صفدر نے مندرجہ ذیل ڈراموں کی ہدایت کی ہے: "ایویں نئی او گل" ”[32]

"جوگی ہویکے آ"[33]

"نانگ ول"[34]

"ہیر رانجھا"[35]

"وارث میاں لوکاں کملیاں نوں قصہ جور ہوشیار سنیا ہی" [36]

"براہ تو سلطان"[37]

"چھپن توں پہلاں"[38][39]

معاشرے میں مزدور طبقے کی جدوجہد کے بارے میں اشعار پر مبنی "چوگ کسومنبے دی"۔ یہ ڈراما بلھے شاہ کی نظم "کافی" پر مبنی ہے ، جس میں سات خواتین کردار محنتی کھیت کی خواتین کے طور پر کام کرتی ہیں، کھیتوں سے پھول اٹھاتی ہیں لیکن یہ فائدہ تاجروں کی جیب میں چلا گیا، جس نے غریبوں اور مساکین کے لیے اقتصادی ناہمواری قائم کی۔[40][41]

"رجنی"[42]

"اک رات راوی دی"[43]

"انی چنی دی ٹکی"[44]

"نکڑ ناٹک" بلھے شاہ کی "کافی بس کر جی، بس کر جی، گل آساں نال ہس کر جی" پر مبنی ہے۔ "دیوا موندری"، نجم حسین نے لکھا ہے۔ یہ ڈراما معاشی پیداوار کے سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید ہے۔ "قیداں دی وار" ملک کی ان گنت خواتین کارکنوں کے بارے میں ہے جنھیں مشکلات اور جیل کے حالات کا سامنہ کرنا پڑا لیکن انھوں نے ترقی پسند معاشرے کے لیے اپنے مشن کو جاری رکھا۔[45]

  1. "Punjabi theatre — from Norah Richards to Huma Safdar"۔ Daily Times۔ 27 August 2018۔ 09 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020 
  2. "Lok Rahs competition: UVAS play bags three awards"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 25 September 2012 
  3. "A sitting on Punjabi theatre"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  4. The Newspaper's Staff Reporter (8 March 2013)۔ "A dialogue for working women"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  5. Kamran Asdar Ali (2008)۔ "Pulp Fictions"۔ Gendering Urban Space in the Middle East, South Asia, and Africa (بزبان انگریزی)۔ Palgrave Macmillan US۔ صفحہ: 71–99۔ doi:10.1057/9780230612471_4 
  6. Shoaib Ahmed (7 November 2017)۔ "Commemorating the life of Lala Rukh, artist and activist extraordinaire"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  7. "The Tribune, Chandigarh, India - HER WORLD"۔ www.tribuneindia.com 
  8. Naeem Sadhu (5 February 2017)۔ "Dancing to the tune of life"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  9. Naeem Sadhu (30 April 2017)۔ "Shadi Khan, the wood-carver of Wazirabad"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  10. "The Sunday Tribune - Spectrum"۔ www.tribuneindia.com 
  11. "Empowering Love Legends by Nirupama Dutt"۔ www.boloji.com 
  12. Sarah Eleazar (13 March 2018)۔ "Footprints: REDISCOVERING THEATRE"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  13. Shoaib Ahmed (26 April 2018)۔ "Madeeha Gauhar remembered: "She was the name of a movement""۔ Images (بزبان انگریزی) 
  14. The Newspaper's Correspondent (18 February 2019)۔ "Sangat highlights women workers' plight thru' Punjabi play"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  15. "Obituary: Samina Syed passes away"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 17 September 2016 
  16. "Major Ishaq Muhammed: Take it to the streets"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 4 April 2012 
  17. "The Tribune, Chandigarh, India - HER WORLD"۔ www.tribuneindia.com 
  18. "Lahore Literature Festival 2018" (PDF) 
  19. The Newspaper's Correspondent (16 February 2019)۔ "Week-long mother tongue fair sets in"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  20. The Newspaper's Staff Reporter (19 November 2017)۔ "Bushra Ansari, others feature in Faiz fest"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  21. "Two-day Punjab Peace and Cultural Festival ends"۔ Daily Pakistan Global (بزبان انگریزی)۔ 13 March 2017 
  22. "Feminist theatre group gives voice to the powerless"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 6 January 2017 
  23. Sara Kazmi (18 October 2018)۔ "Of subalterns and Sammi trees: echoes of Ghadar in the Punjabi literary movement"۔ Socialist Studies/Études Socialistes (بزبان انگریزی)۔ 13 (2): 114–114۔ ISSN 1918-2821۔ doi:10.18740/ss27242 
  24. "Naal Saheeti De Saaz Bnaiye Ji"۔ www.puncham.com۔ Puncham: Sucheet Kitab Ghar 
  25. "Karo Deed Aes Jag De Peekhnay Nu"۔ www.puncham.com۔ Puncham: Sucheet Kitab Ghar 
  26. "Laggiyan Heer Nu Milan Wadhaiyan Naen"۔ www.puncham.com۔ Puncham: Sucheet Kitab Ghar 
  27. "Ukhran Sir Sanjog Wikhan"۔ www.puncham.com۔ Puncham: Sucheet Kitab Ghar 
  28. "GauliaN UngauliaN-Mithi naiN Day Naa"۔ www.puncham.com۔ Puncham: Sucheet Kitab Ghar 
  29. "Undistorted view | Art & Culture | thenews.com.pk"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی) 
  30. "'We must learn to live with multiple identities,' says Huma Safdar"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 31 October 2015 
  31. "LGS 1A1 Activities Page"۔ lahoregrammarschool.com 
  32. Sheharyar Rizwan (25 November 2015)۔ "Did the Faiz International Festival live up to the legend it celebrates?"۔ Images (بزبان انگریزی) 
  33. "Huma Safdar" (PDF)۔ 16 نومبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020 
  34. "Welcome To Sanjan Nagar School System"۔ snpet.org 
  35. The Newspaper's Correspondent (16 February 2017)۔ "Five-day cultural festival to be held for mother language"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  36. "Lahore Literary Festival 2020 concludes with 'Heer Ranjha' performance"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 24 February 2020 
  37. "Round about: Celebrating spirit of Heer in verse"۔ Hindustan Times (بزبان انگریزی)۔ 12 June 2016 
  38. From the Newspaper (23 March 2011)۔ "Street play, demonstration remember Bhagat Singh"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  39. "The Sunday Tribune - Spectrum"۔ www.tribuneindia.com 
  40. Naeem Sadhu (10 May 2016)۔ "Using acting as a tool in class struggle"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  41. "The Tribune, Chandigarh, India - Ludhiana Stories"۔ www.tribuneindia.com 
  42. The Newspaper's Correspondent (21 February 2020)۔ "Rajni performed at Sahiwal college"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی) 
  43. "Punjabi is the language of love, activism and art, says Lahore-based thespian"۔ The Indian Express (بزبان انگریزی)۔ 25 December 2015 
  44. "Two-day 'Punjab Peace and Cultural Festival' concludes | Pakistan Today"۔ www.pakistantoday.com.pk۔ 12 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 نومبر 2020 
  45. "Faiz festival returns with three days of discussions, and music and theatre performances"۔ Daily Times۔ 16 November 2017