حجۃ اللہ البالغہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حجۃ اللہ البالغہ ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور و معروف تالیف ہے جس میں آپ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب انسانوں کے شخصی اور اجتماعی مسائل، اخلاقیات، سماجیات او راقتصادیات کی روشنی میں فلاح انسانیت کی عظیم دستاویز کا خلاصہ ہے۔ اس کتاب میں تطبیقی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ایسی احادیث کی تشریح ہوئی ہے جو سرا سر روحانیت سے متعلق ہے جیسے کہ حدیث شریف ہے کہ دجال کبھی بھی مکہ المکرمہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے دجال کو طواف کرتے دیکھا۔
یہ دو مختلف بیانات ہیں تو شاہ صاحب نے اس کی تشریح کی ہے وہ اس طرح کہ ہر بندہ بلکہ ہر چیز اللہ تبارک و تعالٰی کی کسی نہ کسی صفت کا مظہر ہوتی ہے تو دجال بھی اسم مضل (یعنی ضلات دینے) کا مظہر ہے یا پھر اسم مضل (راہ سے ہٹانے والا) کا مظہر ہے۔
امام غزالی کی "احیاء العلوم" کی طرح یہ کتاب یھی دنیا کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔ اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی ہے اور دلیلیں دے کر اسلامی احکام اور عقائد کی صداقت ثابت کی ہے۔ اصل کتاب عربی میں ہے لیکن اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ ،شاہ صاحب کی ایک منفرد، یگانہ اور مہتم بالشان تصنیف ہے، جس میں شاہ صاحب نے اسرار شریعت اور اس کے رموز وحکم سے بحث کی ہے اور عصر جدید میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیا ہے، اگر چہ یہ کتاب اسرار شریعت کے موضوع پر لکھی گئی ہے؛ لیکن شاہ صاحب نے اس میں حدیث ،فقہ، اخلاق، تصوف اور فلسفہ پانچوں مضامین کا عطر کشید کر دیا ہے، شاہ صاحب اس سلسلے میں فرد فرید ہیں، جنھوں نے علوم شریعت کے اسرار بیان کرنے میں علمی تحقیقات کی بنیاد رکھی ہے اور کتاب کے ہر حکم کی ایسی مستحکم علت بیان کی ہے کہ کسی دور کا کوئی فلسفہ اس کو رد نہیں کرسکتا ہے، بہت سے تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ اس موضوع پر پہلی تصنیف ہے، اس کے بعد اگر چہ اس موضوع پر دیگر اہل علم نے خامہ فرسائی کی، اپنی علمی وفکری صلاحیت کو استعمال کیا، لیکن شاہ صاحب کی یہ کتاب اپنے موضوع اور جامعیت کے اعتبار سے آخری کتاب ہے، یہ کتاب شاہ صاحب نے انتہائی استغراقی کیفیت میں بالہام ربانی تحریر فرمائی ہے، اس لیے کتاب میں جگہ جگہ لکھتے ہیں: ”علّمني ربي، الہمني ربي“ یہ کتاب عربی زبان میں دو جلد میں ہے اور جوامع الکلم کے طرز پر شاہ صاحب کی تحریر ایجاز واختصار کے ساتھ جامعیت ومعنویت کا بہترین نمونہ ہے، اب تک اردو، فارسی اور انگریزی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں، اردو میں اس کی مفصل شرح بھی آچکی ہے، بعض لوگوں نے اس کی تلخیص بھی کی ہے، ہندوستان اور عالم اسلام کے مختلف مطابع سے متعدد بار شائع ہوتی آرہی ہے، اصل کتاب پر بعض علمائے ہند کے گراں قدر حواشی بھی ہیں، دار العلوم دیوبند کے شیخ ا لحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری نے متعدد نسخوں سے مقابلہ کرکے قیمتی اور مفید حواشی کے ساتھ اس کو دو جلدوں میں ایڈٹ کیا ہے، جو اس وقت حجۃ اللہ البالغہ کا غالبا سب سے بہتر نسخہ ثابت ہوگا۔

ابواب کا تعارف[ترمیم]

شاہ صاحب نے اس کو دو جلدوں میں مکمل کیا ہے، پہلی جلد میں سات مباحث ہیں اور ہر مبحث کو کئی کئی ابواب پر ختم کیا ہے، سب سے پہلے شاہ صاحب نے ان قواعد کلیہ کو ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ شرعی احکام میں ملحوظ مصلحتوں کو ان قواعد کے ذریعہ استنباط وتخریج کیا جاتا ہے۔

پہلی بحث: اس میں یہ بتایا ہے کہ انسان کو کیوں مکلف بنایا گیا ہے اور اس پر جزا وسزا مرتب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟اس بحث میں تیرہ ابواب ہیں، پہلا مسئلہ ابداع وخلق وتدبیر کا ہے، چوں کہ تخلیق کائنات سب سے پہلا مسئلہ ہے، لہٰذا ایک جامع کتاب میں سب سے پہلے یہی مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے۔

دوسری بحث: اس بحث میں شاہ صاحب نے موت کے بعد مجازات کی کیفیت بیان کی ہے ،اس میں چار ابواب ہیں، جس میں موت کی حقیقت، مرنے کے بعد کی زندگی کے احکام اورحشر کے کچھ واقعات کو بیان کیا ہے۔

تیسری بحث: اس میں زندگی کے اہم ترین مسئلہ یعنی ارتفاقات کو بیان کیا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کن اصولوں پر گام زن ہوکر ہم دنیا میں عروج حاصل کرسکتے ہیں، اپنی زندگی کو خوش گوار بناسکتے ہیں اور اپنی اجتماعی وانفرادی زندگی کو کامرانی سے دوچار کرسکتے ہیں، اسی طرح سربراہ مملکت کے ضروری اوصاف، نظام حکومت، سرکاری عملہ کے نظم وانتظام اور خلافت کبری کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔

چوتھی بحث: اس میں سعادت پر بحث کی ہے کہ سعادت کیا ہے؟ لوگوں میں سعادت کے اعتبار سے اختلاف اور حصول سعادت کے طریقوں پر مفصل بحث کی ہے۔اور طہات (پاکی) اخبات(اللہ کے حضور میں نیاز مندی) سماحت(فیاضی) اور عدالت (انصاف) جیسی صفات اور اس کی تحصیل وتکمیل کے متعلق کلام کیا ہے۔

پانچویں بحث: اس میں نیکی اور بدی پر بحث کی ہے اور اس کو سترہ ابواب پر تقسیم کیا ہے اور زیادہ تر توحید، شرک اور ایمان پر کلام کیا ہے، اسی طرح شعائر اللہ کی تعظیم، وضو، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے اسراراور حکمتوں کو بیان کیا ہے۔

چھٹی بحث: اس میں سیاسیات ملیہ پر کلام کیا ہے اور اس کو اکیس (21) ابواب پر منقسم کیا ہے، جس میں ملت کے مختلف امور، ہادیانِ قوم، ادیانِ سابقہ، اسلام اور دورِ جاہلیت پر قیمتی بحث ہے۔

ساتویں بحث: جلد اول کی یہ آخری بحث ہے، جس میں علوم نبوت،کتب حدیث، صحابہ وتابعین اور فقہا کے اختلافات پر پرمغز کلام کیاہے،اخیر میں طہارت ونماز کے مسائل بالتفصیل بیان کرکے جلد اول کو ختم کیاہے۔

جلد دوم: شاہ صاحب نے دوسری جلد میں زیادہ عبادات، باہمی معاملات اور سیاسیات پر بحث کی ہے، سب سے پہلے نماز، روزہ اورحج کے ابواب کو ذکر کیا ہے، اس جلد کو شاہ صاحب نے مباحث میں تقسیم نہیں کیاہے، بلکہ ہر بحث پر ا یک عنوان لگادیا ہے، عبادات بدنیہ ومالیہ کی ابحاث کے بعد کاروبار کرنے اور روزی کمانے کے آداب واحکام بیان کیے ہیں، اس کے بعد تدبیر منزل کے مباحث کو پیش کیا ہے،اسی طرح نکاح، طلاق، حقوق زوجیت اور تربیت اولاد وغیرہ جیسے ضروری امور پر مفصل بحث کی ہے اور اس کے بعد ملکی اور قومی امور پر کلام کیا ہے، خلافت، حدود، قضا، جہاد اور دوسرے قومی اہمیت کے حامل افکار پرایسے انداز سے قلم اٹھایا ہے کہ دور جدید و قدیم کے علم و فضل کے بڑے بڑے دعویدار ساکت وصامت ہوکر رہ جاتے ہیں۔

ان مباحث کے بعد شاہ صاحب نے عام زندگی کے آداب، لباس، تہذیب اور دوسرے عام اصول ہائے زندگی پر بحث کرکے آئندہ کے فتنوں اور آخر میں مناقب صحابہ پر کتاب کومکمل کیا ہے۔

اسلوب بیان وطرز استدلال[ترمیم]

شاہ صاحب کے اسلوب بیان میں بڑی ندرت پائی جاتی ہے، شاہ صاحب کے اسلوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن کریم اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال سے اپنے اسلوب کی تشکیل کی ہے، خاص طور پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے طرز ادا کی پیروی کی ہے، مولانا گیلانی شاہ صاحب کے اسلوب اور عربی زبان میں اظہار وابلاغ کی غیر معمولی قدرت کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طرازہیں:

”عربی میں انھوں نے جتنی کتابیں لکھیں ان میں ایک خاص قسم کی انشاء کی جوان کا مخصوص اسلوب ہے، پوری پابندی کی ہے، شاہ صاحب نے عربی انشاء و ادب کا جو نیاقالب تیار کیا ہے، یہی نہیں کہ ہندوستانی مصنفین میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی ، بلکہ میں نہیں جانتا کہ آغاز اسلام سے اس وقت تک کسی علاقے کے ارباب تصنیف نے اس کو اختیار کیا ہے، شاہ صاحب کے اس اسلوب بدیع کی کیا خصوصیتیں ہیں مختصر لفظوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے آدمی ہیں جن کی عبارتوں میں زیادہ جوامع الکلم النبی الخاتم کے طرز گفتگو کی پیروی ہے۔“[1]

معراج محمد بارق حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمے میں شاہ صاحب کے طرز تحریر کا تجزیہ کرتے ہیں: ”شاہ ولی اللہ نے مروجہ طرز نگارش کو جو محض نامانوس اور پر شکوہ الفاظ کے طلسم اور فضائیہ قافیہ پیمائی کے لیے افسوں میں گھرا ہوا تھا، وسعت بخشی اور اس قابل کر دیا کہ وہ ان لفظی گورکھ دھندوں اور بے جا ثقالت کی پابندیوں سے آزاد ہوکر حکیمانہ خیالات اور علمی مضامین کو بطریق احسن پیش کرسکے ،زمانہ ماضی میں سب سے پہلے ابن خلدون نے یہ خدمت انجام دی تھی، پھر ابن خلدون کے بعد آپ ہی ایک ایسے مصنف ہیں جنھوں نے اس اسلوب کو زندہ کیا۔“[2]

ترجمے[ترمیم]

حجۃ اللہ البالغہ کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے، مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حجۃ اللہ البالغہ کا ایک ترجمہ فارسی میں کیا گیا ہے، لیکن اس سلسلے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوسکیں ہے اور انھوں نے چار انگریزی ترجموں کا ذکر کیا ہے، اس میں دو ترجمے مکمل ہیں اور دو ناقص ہیں، ایک انگریزی ترجمہ مولانا عبید اللہ سندھی نے کرایا تھا اور دوسرا مکمل ترجمہ محمود حسین خاں رام پوری نے کیا تھا اور اس پر حبیب اللہ غضنفر امروہوی مقیم حال کراچی نے نظر ثانی کی تھی۔[3]

اردو میں بھی مختلف حضرات نے اس کاترجمہ کیا ہے، سب سے پہلے اس کا اردو ترجمہ مولانا فضل الرحمن عظیم آبادی کی فرمائش پر مولانا عبد الحق حقانی نے کیا ہے،1894ء میں اس کی اشاعت ہوئی، اس کا نام ”نعمۃ اللہ البالغۃ“ ہے، یہ اشاعت دو جلدوں پر مشتمل ہے، مگر اس میں متن شامل نہیں ہے، ایک اردو ترجمہ مولانا خلیل احمد اسرائیلی نے کیا ہے، آیات اللہ الکاملہ کے نام سے یہ ترجمہ پہلی مرتبہ کتب خانہ اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام لاہور سے 1315ھ -1897ء میں چھپا تھا، تیسراترجمہ مولانا عبد الحق ہزاروی نے شموس اللہ البالغہ کے عنوان سے کیا ہے، اس میں اوپر متن ہے اور نیچے ترجمہ ہے، یہ ترجمہ بھی کئی بار چھپا ہے، اس کے علاوہ متعدد حضرات نے اس کے ترجمے کیے ہیں، ایک ترجمہ احقر کے سامنے ہے، لیکن اس پر مترجم کا نام درج نہیں ہے، یہ ترجمہ مکتبہ تھانوی دیوبند سے1986ء میں شائع ہوا ہے، اس کے مترجم نے لکھا ہے کہ مصر اور استنبول کے قدیم اور جدید نسخوں اور ہند و پاک میں مروج متعدد نسخوں کا تقابل کرکے صحیح ترین متن پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس ترجمہ میں متن بھی شامل ہے اور شروع میں شاہ صاحب اور حجۃ اللہ البالغہ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے، اس کے آخر میں محمد منظورالوجیدی کا نام درج ہے، بظاہر یہ ترجمہ انہی صاحب کا ہے۔

حواشی وشروح[ترمیم]

حجۃ اللہ البالغہ کی پہلی اشاعت ہندوستان میں مطبع صدیقی بریلی سے ہوئی ہے اور مولانا احسن نانوتوی نے مختلف دستیاب نسخوں سے مقابلہ اور تصحیح کے بعد پر مغز حاشیہ سے کتاب کو مزین کرکے شائع کیا ہے، حجۃ اللہ کا یہ سب سے پہلا نسخہ ہے اور بعد کے نسخوں کے لیے اہم ماخذ کی حیثیت اسے حاصل ہے۔

دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدر المدرسین مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نے حجۃ اللہ البالغہ کو نئی کتابت اور قیمتی تعلیقات کے ساتھ شائع کیا ہے اور اس وقت موجود نسخوں میں سب سے عمدہ نسخہ ہے، اس کے علاوہ مصر اور بیروت سے بھی حجۃ اللہ ا لبالغہ کے متعددنسخے شائع ہوئے ہیں، بعض نسخوں میں تفصیلی مقدمہ اور احادیث کی جزوی تخریج بھی موجود ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ کی سب سے قدیم، مفید اور قابل قدر شرح مولانا عبید اللہ سندھی کی ہے، انھوں نے حجۃ اللہ البالغہ کی تدریس کے دوران جو افادات اردو میں بیان کیے تھے ان کے شاگردوں نے اسے منضبط کر لیا تھا اور ان کے دو شاگردوں نے اسی افادات سندھی کو عربی میں منتقل کرکے اسے شائع کر دیا ہے۔

اردو میں حجۃ اللہ ا لبالغہ کی ایک مفصل شرح حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کی ”رحمۃ اللہ الواسعہ“ کے نام سے ہے، یہ پانچ جلدوں میں انتہائی ضخیم ہے ، اس وقت حجۃ اللہ البالغہ کی سب سے مفید شرح ہے، جس میں ایک عنوان قائم کرکے پہلے مسئلہ کی تقریر کی ہے، اس کے بعد عبارت با اعراب لکھ کر اس کاترجمہ لکھا گیا ہے، تصحیح متن کی بھر پور کوشش کی گئی ہے، حل لغات، ضروری نحوی ترکیب اورضمائر کے مرجع کی تعیین پر بھی خصوصی توجہ دی ہے، یہ حجۃ اللہ البالغہ کی انتہائی جامع شرح ہے اور حجۃ اللہ کے مضامین کو سجھنے کے لیے انتہائی مفید ہے، ا للہ تعالیٰ شارح دامت برکاتہم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

حجۃ اللہ البالغہ کی تلخیص[ترمیم]

حجۃ اللہ البالغہ کا اردو میں ایک خلاصہ بھی چھپا ہے، یہ تلخیص سید رضی الدین احمد نے مرتب فرمائی ہے، سید صاحب پاکستان کے ایک شیخ طریقت ہیں، یہ تلخیص چھوٹے سائز کے 272صفحات پر مشتمل ہے، آغاز کتاب میں شاہ صاحب کے مختصر حالات بھی ہیں اور پاکستان کے محقق عالم مولانا حبیب اللہ مختار کی تقریظ بھی ہے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ حجۃ ا للہ البالغہ کی جامع تلخیص ہے، البتہ حجۃ اللہ البالغہ کے بعض مضامین کو اردو میں اختصار کے ساتھ سمجھنے کے لیے مفید ہے،یہ تلخیص 1416ھ (1996ء) میں کراچی سے چھپی تھی، بعد میں اس اشاعت کا عکس دارالاشاعت دہلی سے بھی شائع ہو چکا ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ اہل علم کی نظر میں[ترمیم]

حجۃ اللہ البالغہ تصنیف کی دنیامیں اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب کو پڑھنے سے اسلام کانظام حیات عقلی طور پر انتہائی متوازن معلوم ہوتا ہے اور ہر حکم کی وجہ اور علت جان کر اسلام کے حکیمانہ فلسفے کی جامعیت کا تصور کھل کر سامنے آتا ہے، ماضی قریب اور بعید میں اس جیسی کتاب وجود میں نہیں آئی ہے، اسی لیے بڑے بڑے اہل علم نے اس کتاب پر اپنی قیمتی رائے ظاہر کی ہے اور کتاب کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ہے۔

مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں: ”میں اپنی زندگی میں کسی بشر کی کتاب سے اتنا مستفید نہیں ہوا، جس قدر کہ اس کتاب سے خدا نے مجھے فائدہ پہنچایا، میں نے اسلام کو ایک مکمل اور مرتبط الاجزاء نظام حیات کی حیثیت سے اس کتاب ہی سے جانا، دین مقدس کی ایسی بہت سی باتیں جن کو پہلے صرف تقلیدا مانتاتھا، اس جلیل القدر کتاب کے مطالعہ کے بعد الحمد للہ میں ان پر تحقیقاً اور علی وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں۔“[4]

غیر مقلد عالم جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب اتحاف النبلاء میں تحریر فرماتے ہیں: ”یہ کتاب اگر چہ فن حدیث میں نہیں ہے ،مگر اس میں بہت سی احادیث کی شرح ہے اور ان کی حکمتیں اوران کے راز بیان کیے ہیں، یہاں تک کہ یہ کتاب اپنے فن میں بے نظیر واقع ہوئی ہے اور اس جیسی کتاب ان اسلامی بارہ صدیوں میں عرب وعجم کے کسی عالم کی موجود نہیں ہے۔“[5]

مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں: ”یہ کتاب اپنے موضع پر بالکل منفرد یگانہ ہے اور عربی زبان اپنی وسعت کے باوجود اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، یہ کتاب عربیت، بیان کی قوت اور زبان کی سلامتی کا ایک ممتاز اور کام یاب نمونہ ہے۔“[6]

ایک دوسری جگہ مفکر اسلام ابو الحسن علی میاں ندوی تحریر فرماتے ہیں: ”شاہ صاحب کی یہ مایہ ناز تصنیف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے، جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے امتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور جن سے اپنے وقت میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا اعجاز نمایا ں اور اللہ کی حجت تمام ہوئی۔“[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (حنیف گنگوہی، ظفر المحصلین 50/دارالاشاعت کراچی سن طباعت2000ء)
  2. (حجۃ اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ ص 49 شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت2002ء)
  3. (نورالحسن راشد کاندھلوی حجۃ اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ، ص 33 مطبوعہ شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت 2002ء)
  4. (رحمة اللہ الواسعہ1/28 مکتبہ حجاز دیوبند سن طباعت2001ء)
  5. ( رحمة اللہ الواسعہ1/29 مکتبہ حجاز دیوبند سن طباعت 2001ء)
  6. (ہندوستانی مسلمان بحوالہ حجة اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ50 شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت 2002ء)
  7. (حنیف گنگوہی، ظفر المحصلین 180، دارالاشاعت کراچی سن طباعت 2000ء)