ارم (شداد کی جنت)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ارم ذات العماد کے آثار

ارم ذات العماد (ارم ستونوں والا شہر) یا زبانِ عام میں صرف ارم (عربی میں إرَم ذات العماد اور انگریزی میں Irem, Ubar, Wabar یا Iram of the Pillars) قدیم عرب قوم عاد کے مرکزی شہر کا نام تھا۔ یہ شہر طوفانِ نوح کے کافی بعد بسا اور زبردست ترقی کر گیا۔ اس وقت لوگ طوفانِ نوح کو بھول کر دوبارہ شرک اور بت پرستی کی طرف راغب ہو گئے تھے۔ اس قوم پر حضرت ھود علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جب اس قوم نے شرک اور بت پرستی ترک نہ کی تو اللہ نے عذاب نازل کر کے اسے تباہ کر دیا۔ اس قوم کے تذکرے کو کہانی سمجھا جاتا تھا مگر اسی صدی میں اس شہر کے آثار برآمد ہوئے ہیں جو الربع الخالی کے اس حصے میں ہے جو آج کل عمان میں شامل ہے۔ اس کے آثار 1984 میں خلائی شٹل چیلینجر کی مدد سے دریافت کیے گئے۔ یہ شہر 3000 سال قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک اونٹوں کے اس کاروانی راستے پر آباد تھا جہاں سے ھند، عرب اور یورپ تک تجارت کی جاتی تھی اور یہ اپنے زمانے کا ایک تجارتی مرکز تھا۔ روایت ہے کہ یہ شہر ایک عظیم طوفان سے تباہ ہوا۔ اسے ایک ہزار ستونوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس کے ستون بہت اونچے تھے۔

ارم نام لیا جاتا ہے شداد کی جنت کا جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے

  • إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ
  • ارم کے ستونوں والے

بعض مفسرین نے فرمایا کہ ارم اس جنت کا نام ہے جو عاد کے بیٹے شداد بن عادنے بنائی تھی اور اسی کی صفت ذات العماد ہے کہ وہ ایک عظیم الشان عمارت بہت سے عمودوں پر قائم ہونے چاندی اور جواہرات سے تعمیر کی تھی تاکہ لوگ آخرت کی جنت کے بدلے اس نقد جنت کو اختیار کر لیں مگر جب یہ عالیشان محلات تیار ہو گئے اور شداد نے اپنے روسائے مملکت کیساتھ اس میں جانیکا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا یہ سب ہلاک ہو گئے اور وہ محلات بھی مسمار ہو گئے (قرطبی)[1] شدادنے جنت کا ذکر سنا۔ تو کہنے لگا میں ایسی جنت بناتا ہوں۔ اس نے عدن کے کسی صحرا میں ارم شہر تین سو سال میں بنوایا۔ اس کی عمر نو سو سال تھی۔ یہ بہت بڑا شہر تھا۔ اس کے مکانات سونے چاندی کے بنے تھے۔ اور زبر جدویا قوت کے ستون عما رات کے اندر دیے گئے۔ اس میں قسم قسم کے درخت اور نہریں بھی تھیں۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہو چکی تو وہ اہل مملکت کو لے کر اس کی طرف چل دیا۔ جب ایک دن رات کا سفر رہ گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمان سے چیخ بھیج کر ہلاک کر دیا۔[2] [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر معارف القرآن مفتی محمد شفیع سورۃ الفجرآیت 7
  2. تفسیر مدارک التنزیل،ابو البرکا عبد اللہ النسفی سورۃ الفجر آیت7
  3. تاریخ اسلام از سید نجم الحسن کراروی