اُر
عربی: أور | |
![]() The ruins of Ur, with the Ziggurat of Ur visible in the background | |
مقام | Tell el-Muqayyar, محافظہ ذی قار، عراق |
---|---|
خطہ | بین النہرین |
قسم | Settlement |
تاریخ | |
قیام | c. 3800 BC |
متروک | after 500 BC |
ادوار | Ubaid period to آہنی دور |
ثقافتیں | سمیریian |
اہم معلومات | |
کھدائی کی تاریخ | 1853–1854, 1922–1934 |
ماہرین آثار قدیمہ | John Taylor, Charles Woolley |
اُر، ( یہ ایک قدیم میسوپوٹامیائی شہر تھا، جو موجودہ عراق میں واقع تھا۔ یہ شہر تقریباً 3800 قبل مسیح میں آباد ہوا اور سومیری تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔) ایک قدیم سمیری شہر جو آج سے 4 ہزار یا 3500 ق م بابل سے تقریباً 140 میل جنوب میں موجود دریائے فرات سے دس میل کے فاصلے پر آباد تھا۔ بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر وہیں سے آپ نے حران کی طرف ہجرت کی تھی چھٹی صدی ق م تک یہ ایک پر رونق اور خوش حال بستی تھی۔ ۔ دریائے فرات کے دائیں کنارے پر واقع اُر عراق کا ایک قدیم ترین شہر تھا اسے چوتھی ہزاری ق م (۔4000B.C ) میں سُمیری قوم نے آباد کیا تھا۔ تیسری ہزاری میں یہ شہر اپنے عروج کو پہنچا۔ 2000 ق م کے لگ بھگ خوزستان ( فارس ) کے عیلامیوں نے اسے بڑی حد تک تباہ کر دیا۔ سترھو یں صدی ق م میں حضرت ابراہیم یہاں آئے۔ کلدانی بادشاہوں کے عہد (626ق م تا539ق م ) میں اُر نے ایک بار پھر شہرت حاصل کی تھی کہ ایرانی شہنشاہ کوروش کبیر ( خورس یا سائرس اعظم یا ذوالقرنین ) نے اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد اُر بتدریج زوال کی نذر ہو گیا۔ [1] کلدانی حکمرانوں کی نسبت سے اسے اُر کلدانیہ بھی کہا جا تا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں مشہور ماہر آثار قدیمہ انگریز محقق لیونارڈ وولے نے 34-1922 ء میں اُر کے کھنڈر دریافت کیے جو الناصربہ کے بالمقابل دریائے فرات کے جنوب میں تقربیا بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ بابل سے اُر تقریباً225 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ اُر ان دنوں تل المقیر کہلاتا ہے
اُر کی تاریخی اہمیت
سومیری تہذیب کا مرکز – اُر، سومیریوں کا ایک اہم شہر تھا اور یہاں کی معیشت زراعت اور تجارت پر مبنی تھی۔
زِگّورات (Ziggurat of Ur)
یہ ایک عظیم الشان عبادت گاہ تھی جو چاند دیوتا نَنّا (Nanna) کے لیے بنائی گئی تھی۔
بادشاہ اُرنمّو (Ur-Nammu)
اُر کا سب سے مشہور بادشاہ، جس نے اُر-نمّو کوڈ نامی دنیا کا قدیم ترین معلوم قانونی ضابطہ ترتیب دیا۔
ابراہیمؑ کا ممکنہ آبائی وطن
روایات کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کا تعلق بھی اُر شہر سے تھا۔
زوال
اُر شہر کا زوال تقریباً 500 قبل مسیح میں ہوا، جب یہ ایرانی حملوں اور دریائے فرات کے بہاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے غیر آباد ہو گیا۔
یہ شہر جدید تل المقیّر (Tell el-Muqayyar) کے قریب واقع ہے اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے یہاں سے بہت سی قیمتی اشیاء دریافت کی ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]![]() |
ویکی ذخائر پر اُر سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |