برزخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد روح اور جسم کے درمیان موت کے بعد سے قیامت تک آڑ کا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ جسم اور روح کی یہ برزخ قیامت تک رہے گی جیسا کہ قرآن کی سورۃ ال مومنون کی آیت 15اور16 میں ارشاد باری

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15؀ۙاس زندگی کے بعد تم کو موت آ کر رہے گی ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ  16؀ پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے۔

برزخ بارے ارشادِ قرآنی[ترمیم]

قرآن مجید میں ارشاد ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ[1]
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہو گا اور ان کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے ) اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ    ١٦٩؁ۙ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیے جاتے ہیں

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، محمد بن عبد اللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبد اللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انھیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انھوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لیے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انھیں قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمھیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انھیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں

اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کیے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انھیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

یعنی غزوہ احد کے شہداء کی روح بھی شدید تمنا کے باوجودبھی قیامت سے پہلے دنیاوی جسم سے نہیں مل سکتی کیونکہ اللہ کا قانون سوائے معجزات کے اور کسی کے لیے نہیں بدلتا کیونکہ معجزہ امر کن سے ہے اورقانون عالم خلق سے ہے جس میں وقت اورعوامل شامل ہیں اس لیے معجزہ معمول و قانون پر دلیل نہیں ہوتا

عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب میت کے ثواب کے لیے صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًا وَعَشِيًا[2]
’’(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔ ‘‘

حوالہ جات[ترمیم]

  1. القرآن، المومنون، 23 : 98 - 100
  2. القرآن، غافر، 40 : 46