تبادلۂ خیال صارف:ثاقب شائق

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خوش آمدید![ترمیم]

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)


بزمِ اردو ویکیپیڈیا میں خوش آمدید ثاقب شائق

السلام علیکم! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری 2001 میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجراء جنوری 2004 میں عمل میں آیا ۔ فی الحال اس ویکیپیڈیا میں اردو کے 205,637 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔


بہتر ہوگا کہ آپ آغاز ہی میں درج ذیل صفحات پر نظر ڈال لیں:


یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 09:27، 28 جون 2018ء (م ع و)

مجاہد اول کشمیر صوبیدار اللہ دتہ خان[ترمیم]

اللّٰہ اکبر،اللّٰہ اکبرلا الہ الا اللّٰہ، واللّٰہ اکبر میں رونا اپنا روتا ہوں وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں.... انہیں دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے.... آج شام سے عجیب سی کیفیت اور یادیں ذہن میں آہ رہی تھی کے حسرت اور رشک کے واہ اللہ پاک نے کیسی کیسی ہستیاں اس دنیا میں بھیجی اور ان سے اپنے اسلام کے کیا کیا کام لیے اور دنیائے کفر کو کیسے ذلیل و رسوا کیا اور شکست ان کا مقدر بنائی...... اللہ پاک نے ہر دور میں اپنے ایسے بندے پیدا کیے ہیں جب عالم کفر اپنے ظلم کی انتہا کو پحنچتا ہے تو ان کو سبق سیکھانے والے بھی ہر دور میں آے ہیں اور آتے رہیں گے کیونکہ نبی پاک صلی علیہ و سلم نے فرما جو دیا جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور جہاد کا کام اللہ پاک نے اپنے محبوب بندوں سے ہی لینا ہے جو اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں.... اسی سلسلے کی ایک کڑی جو آپ ص کے دور سے شروع ہوئی اور قیامت تک جاری رہے گی انشاُاللہ..

👈 " چار اکتوبر انیس سو سنتالیس" کے کچھ تاریخی حقائق  کسی قسم کی ساست سے بالاتر ہوکر بیان کرنا چاہوں گا کیونکہ ہم لوگوں میں عجیب روایت چل پڑی ہے جب بھی ایسا  کوئی تاریخی دن آتا ہے تو ہم کشمیری لوگ کوئی جلسہ یا سیمینار منعقد کر کے دو چار تقریر یں کر کے کافی سمجھ لیتے ہیں اور جسکو دیکھو وہی کہے گا کے مجاہد اول یہ ہے وہ نہیں.میرا لیڈر میرا مجاہد .کےبول ہی سنائی دیتے ہیں.. جو جس کا حامی ہے اس کے نزدیک مجاہد اول بھی اس کا وہی بندہ.... حالانکہ اسلام میں اس کی کوئی حثیت نہیں اللہ پاک نے اپنے بندوں سے کام لینا ہے اور وہ محتلف جہگوں پر مختلف لوگوں سے لے رہا ہے اور لیتا رہے گا اسی سلسلے کی ایک کڑی میں سے ایک نام جس کو آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے بھی ہوں گے غازی صوبیدار اللہ دتہ خان صاحب منگ کانچری کے مقام پر ایک گاؤں "کْڑے نہ گلہ "جو کے آج کل خاص گاؤں مجاہد گلہ کے نام سے جانا جاتا ہے میں اپنی خدمات سر انجام دیں... 

👈یاد رہے کے اس گاوں کو "کْڑے نہ گلہ سے#مجاہد گلہ# کا نام آپ کے اسی کارنامے کے بعد دیا گیا... انہیں بھی مجاہد اول اور ستارہ جرت کا خطاب ان کی بہادری اور جرت کی وجہ سے دیا گیا اللہ پاک ان کی خدمات کو قبول فرمائے وہ ایک عظیم جنگی ہیرو تھے حب الوطنی اور بہادری کا پیکر تھے....اس وقت چونکہ ڈوگرہ راج تھا اور ہمارا اپنا مسلمانوں کا کوئی فوجی دفاع نہیں تھا تو لوگوں نے اپنے اپنے علاقے کے لخاظ سے مختلف گروہ تشکیل دیئے تھے اور مختلف بلٹوں میں تقسیم کیا ہوا تھا اس میں منگ کانچری اور اندروٹ ایک ہی بَلٹ میں تقسیم تھے جسکی کمانڈ اور کنٹرول لیفٹنٹ افسر خان آف منگ کر رہے تھے.. چونکہ منگ کی دھرتی تحریک آزادی کے لیے بیس کیمپ ہے یہں سے ہی سبز علی حان اور ملی خان نے اٹھارہ سو بتیس کو عظیم قربانیاں دیں تھیں اور ڈوگرہ فوج کو دیکھ کر مسلمانوں کا خون کھولتا تھا اور ان کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے جنہوں نے اپنی زندہ کھالیں تک کھینچوا دی ہوں انہیں اور کسی چیز کی کیا پرواہ ہو گی.... ایسے حالات میں سیاہ دل اور سفید چمڑی والے گورے مجسٹریٹ جگترام کو خارش پیدا ہوئی اور منگ تھوراڑ اندروٹ کانچری ان علاقوں کے دورے لگانے شروع کر دیئے اور اندر ہی اندر پلان بنایا کے ان علاقوں کو اچانک دھاوا بول دیا جائے اور جو ظلم گلاب سنگھ اور اسکی فوج نے سبز علی خان, ملی خان اور اس کے ساتھیوں کا کیا تھا وہ کرنا چاہا اور اور میں مکانات کو نذر آتش بھی کیا جائے اور اس سارے علاقے میں مسلمان نام کی چیز بھی نہ ہوں کیونکہ وہ ان کی تاریخ سے بخوبی واقف تھا لیکن منگ کے کمانڈر لیفٹیننٹ افسر خان نے اس سارے پلان کا پتہ لگا لیا... اور اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی اپنی طرف سے سوچنا شروع کیا کے کیا انتظامات کیے جائیں .....آخر چار اکتوبر کو مجسٹریٹ جگترام اپنے ساتھیوں سمیت منگ سے تھوراڑ راونڈ کے لیے جا رہا تھا اور حالات کی جانچ پڑتال کے بعد واپس پہنچ کر ڈوگرہ فوج کو داھوا بولنا تھا اور مسلمانوں کے مکانات کو نذرِآتش کرنا تھا... لیکن لیفٹیننٹ افسر خان نے پیغام بجھوایا کے یہ تھوراڑ تک نہیں پہنچنا چاہیے اس کو راستے میں ہی حتم کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بعد کے نتائج کا آپ کا بخوبی علم تھا کے اس کے بعد کیا ہونے والا ہے چنانچہ آپ کے حکم پرکے غازی صوبیدار اللہ دتہ خان صاحب نے اسے جب کے وہ اپنے گھوڑے پر سوار اپنے ساتھیوں سمیت جا رہا تھا کےاچانک اسکی کاروئی سے پہلے ہی اسے پہلی گولی ماری اور اسے جہنم واصل کر دیا اور وہاں سے ہی ابتدا ہوئی.... اسکے بعد ڈوگرہ فوج نے پلان تو بنایا ہی ہوا تھا لیکن انکے سارے پلان کو ناکام کر دیا کچھ مسلمان شہید بھی ہوے اور مکانات کو نذر آتش بھی ہوئے لیکن فوج کو اپنے علاقے سے منگ کے عظیم لوگ نکالنے میں کامیاب ہو گئے اور انکا راولاکوٹ تک پیچھا ثاقب شائق (تبادلۂ خیالشراکتیں) 15:57، 15 فروری 2019ء (م ع و)

مجاہد اول غازی صوبیدار اللہ دتہ خان (مرحوم) کی زندگی کے چند اہم واقعات

غازی صوبیدار اللہ دتہ خان 1920 میں ٹائیں کے مقام پر پیدا ہوئےآپ کے والد کا نام عبدالوہاب تھا بچپن میں ہی والدین اس دارِفانی سے چل بسےجسکی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم رہے 1938 میں آپ انڈین آرمی راجپوت رجمنٹ میں بھرتی ہوئے فاتح منگ لفٹنینٹ افسر خان شہید بھی راجپوت رجمںٹ میں بھرتی تھے آپ نے عسکری تربیت لفٹیننٹ افسر خان شہید سے ہی حاصل کی انڈین آرمی میں ملازمت کے دوران آپکو برما کے محاز پر لڑائی کے دوران بہتر پرفارمنس کی وجہ سے جلد ہی ناٸیک کا رینک ملا جب جون 1947 کو تقسیم کا اعلان ہوا تو انڈین آرمی چھوڑ کر گھر آ گئے کشمیر کی آزادی کے حوالے سے حریت پسندوں اور مقامی سرداروں کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے کشمیر میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف لوگوں میں شدید بے چینی پائی جاتی تھی ڈوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے لوگ بہت تنگ اور مجبور تھے 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو لفٹیننٹ افسر خان شہید نے خطہ کاھنڈی سے تعلق رکھنے والے صاحب رائے اور فوجی لوگوں سے رابطہ کر کے ٹھیک تین دن بعد ہمارے جد امجد نواب جسی خان کے مسکن جسہ پیر کے مقام پر لوگوں کو اگھٹا کیا جسہ پیر میٹنگ پر تشریف لانے والوں کا تعلق منگ،تھوراڑ ٹاٸیں،رھاڑہ،اندروٹ،دھینگڑوں کانچری،پتن شیر خان اور کاھنڈی کے ملحقہ علاقے کے لوگوں سے تھا ان میں چند نمایاں شحصیات لفٹینںٹ افسر خان شھید،صوبیدار غازی اللہ دتہ خان،مرحوم شیح الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان،خطیب کشمیر حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب،کرنل شیر خان،خان آف منگ کیپٹین بوستان خان،حاجی صلاح محمد خان اور دیگر سرکردہ لوگ اور مجاہدین شامل ھوئے اس میٹنگ کا بنیادی ایجنڈا ڈوگروں سے آزادی کیسے لی جائےاور اسکے لئے کیا اقدامات کئے جائیں سب حضرات نے اپنی اپنی تجاویز پیش کی آخر میں طے ہوا کہ مجاہدین سے خلف لیا جائے سردار محمد حسین خان آف رھاڑہ کے پاس قرآن پاک موجود تھا حضرت مولانا یوسف خان صاحب حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب صوبیدار غازی اللہ دتہ حان مرحوم لفٹینٹ افسر خان شھید نے قرآن پاک درخت کے ساتھ لٹکا کر مجاھدین کو نیچے سے گزارہ اور عہد لیا کے ڈوگرہ حکومت کے خلاف جہاد کر کے آزادی لیں گے اس کے بعد خفیہ طریقے سے باقاعدہ طور پر جہاد کے لیے تیاری شروع کی گئی غازی ملت سردار محمد ابراھیم خان نے محتلف علاقوں میں سیکٹر کمانڈر تغینات کر دیئے علاقہ کاھنڈی سے لفٹیننٹ افسر خان غازی صوبیدار اللہ دتہ خان راولاکوٹ سے کیپٹن حسین خان مظفرآباد سے راجہ حیدر خان مقرر ھوئے جہاد آزادی کے لیے اسلحہ اور جنگی سازوسامان کی اشد ضرورت تھی بقول غازی ملت سردار ابراھیم خان نے کہا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسلحہ دینے اور مدد کرنے سے انکار کر دیا سردار ابراھیم صاحب نے سرحد سے خان عبدالقیوم سے رابطہ کیا تو اس نے کچھ اسلحہ دیا اور کچھ مجاھدین دینے کی پیش کش کی ادھر مجاھدین جنگ آزادی کی تیاری میں مصروف تھے کچھ ھتیار مجاھدین نے اپنی جانوں پر کھیل کر دریائے جہلم سے تیار کر کے لائے -ادھر ڈوگرہ حکومت کو بھی مجاھدین کی سر گرمیوں کی اطلاع ھو چکی تھی ڈوگرہ حکومت نے مزید ظلم و ستم بڑھا دئیے -ڈوگرہ حکومت نے جگت رام کو سپیشل مجسٹریٹ کا عہدہ دے کر مجاھدین کی سرگرمیوں کو کچھلنے کے لیے منگ تھوراڑ روانہ کیا مجسٹریٹ جگت رام نے کاھنڈی کے نمبرداروں کو بلایا اور اعلان کیا کہ جس کسی نے بھی حکومت کے خلاف سرکشی کی جُرت کی تو اس کو نشان عبرت بنایا جائے گا -بغاوت کرنے والوں کی کھوپڑی میں پانی پیوں گا ڈوگروں نے مسلمانوں کا جینا دشوار کر دیا تھا ڈوگرہ حکومت نے سپیشل مجسٹریٹ جگت رام کو خصوصی ہدایت دے کر پلندری سے منگ تھوراڑ روانہ کیا اس وقت منگ موجود بوائز انٹر کالج کی جگہ ڈوگرہ فوج کا قلعہ تھا وہاں منگ آکر فوج کو احکامات جاری کئے کہ جتنے بھی سابقہ فوجی ھیں اور مجاھدین ھیں ان کو گرفتار کیا جائے -سرکردہ قیادت کو گرفتار کیا جائے مجاہدین نے جہاد کی مکمل تیاری کی ہوی تھی -مختلف جگہوں پر مجاھدین کی یونٹیں تعینات کی ہوئی تھی مجسٹریٹ جگت رام کے احکامات کی خبر جب لفٹیننٹ افسر خان شہید کو ملی تو فورًا ایک خط لکھ کر بعزریعہ سردار محمد حسین کو مجاھد گلہ کے مقام پر بھیجا کہ سول انتظامیہ کا مجسٹریٹ جگت رام تھوراڑ جا رھا ھے -اُس کو تھوراڑ پہنچنے سے پہلے قتل کیا جائے سول انتظامیہ کا مجسٹریٹ جگت رام 4 اکتوبر 1947 کو منگ سے تھوراڑ اپنے ساتھیوں کے ھمراہ جا رھا تھا تو مجاھد گلہ کے مقام پر صوبیدار اللہ دتہ خان نے پہلی گولی فاٸر کر کے سول انتظامیہ کے مجسٹریٹ جگت رام کو جنم واصل کرکے باقاعدہ جنگ آزادی کا آغاز کیا حسن اتفاق ھے کہ پہلی گولی جگت رام کی کھوپڑی میں ہی لگی-جو جگت رام جنگ آزادی کے مجاہدین کی کھوپڑی میں پانی پینے کا اعلان ثاقب شائق (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:02، 29 دسمبر 2019ء (م ع و)

جو جگت رام جنگ آزادی کے مجاہدین کی کھوپڑی میں پانی پینے کا اعلان کر رھا تھااُس کی اپنی کھوپڑی ہی محفوظ نہ رہی سپیشل مجسٹریٹ جگت رام کے ساتھیوں کو بھی صوبیدار غازی اللہ دتہ خان،شیر حان صاحب مصاحب حان،صاحب دیون علی،بقا محمد صاحب نے ڈسپنسر جگدش سنگھ اور کلرک غلام حسین کو ھلاک کیا-جگت رام کے ساتھ پٹواری اقبال خان اور 1 2 ساتھی موقع سے بچ نکلنے میں کامیاب ھو گئے مجسٹریٹ جگت رام سے ایک ڈائری ملی جس میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی خوفناک اور خطرناک تفصیل درج تھی وہ ڈائری فوراً منگ لفٹینںٹ افسر خان کو پہنچائی گئی اگر خدا نخواستہ سول انتظامیہ کا مجسٹریٹ جگت رام تھوراڑ پہنچنے میں کامیاب ھو جاتا تو شاید یہ خطَہ آج مقبوضہ بھارت ہوتا اور جگت رام کے جنم واصل ھونے کے بعد اگر یہ تحریک ناکام ھو جاتی تو غازی اللہ دتہ خان (مرحوم) کا انجام بھی سبز علی خان اور ملَی حان کے انجام سے کم نہ ہوتا مجاھد گلہ فائر کی آواز جب منگ پہنچی تو ڈوگرہ فوج نے فوراً مشین گنوں سے مجاھدین کے ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کر دی لوگوں کے مکانوں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا-مجاھدین نے بھی بے سرو سامانی کے عالم میں ڈوگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا-4 اکتوبر اور5 اکتوبر 1947 کی درمیانی شب کو ڈوگروں نے منگ کانچری کے تقریباًسب گھروں کو نذر آش کر دیا -لڑائی کا دائرہ کار منگ سے باہر بھی پھیلتا گیا 5 اکتوبر 1947 کہ تھوراڑ کے مقام پر گھمسان کی لڑای ھوئی1 ہی دن میں مجاہدین کی 36 شہادتیں ھوئیں یہ تحریک آزادی میں ایک سنہری کارنامہ ھے 6 اکتوبر1947 کو لفٹینںٹ افسر خان نے فوج کے قلعے پر حملہ کر کے ڈوگروں کو منگ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور انتہای جرت اور بہادری سے خود بھی جام شہادت نوش فرما گےمنگ اور تھوراڑ سے ڈوگروں کے پاوں اکھڑنے کے بعد سنبھل نہ سکے -البتہ راولاکوٹ کے مقام ڈوگروں کے ساتھ لڑای میں ھمارے مجاھدین کو کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا- راولاکوٹ کے مقام پر سب سے ذیادہ شہید ھونے والوں کا تعلق بھی ھمارے علاقہ کاھنڈی سے ھے- غازی اللہ دتہ خان (مرحوم) نے کرنل شیر خان شہید کے ساتھ چھجہ پہاڑی تک دشمں کا تعاقب کیا- جب کرنل شیر حان چھجہ پہاڑی کے مقام پر شہید ھوئے تو غازی اللہ دتہ حان (مرحوم) بھی ان کے ساتھ تھے-سیز فائرنگ برابر جنگ میں ہر اوُل دستے کا کردار ادا کرتے رہے صوبیدار غازی اللہ دتہ صاحب سیز فاٸر سے بہت مایوس اور ناخوش تھے کہتے تھے کہ اب دشمں کی مزاحمت تقریباً ختم ھو چکی تھی سرینگر بھی دشمن نے خالی کر دیا تھا ڈوگروں نے اپنی شکست تسلیم کر لی تھی جب آزاد کشمیر رجمںٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو غازی اللہ دتہ خان کو اُسی جنگی قیادت نے اس عظیم کارنامے کی بدولت ڈائریکٹ نائب صوبیدار بنا دیا گیا اگر تعلیم یافتہ ھوتے تو اس سے بھے اعلیٰ عہدے کی نامزدگی ھو جاتی- 1965 میں چھم جوڑیاں کے مقام پر دریائے کوئی کا پل اڑا کر دشمن کو بے بس کر دیااس اعلیٰ کارنامے کی بدولت تمغہ بہادری اور شجاعت سے نوازا گیا 1970 میں فوج سے ریٹاٸرڈ ہوے-1971 کی جنگ میں ری کال ھوئے وہاں کمپنی کمانڈر کے فرائض ادا کیے جنگ ختم ہونے کے بعد گھر آ گئےگھر آنے کے بعد قومی اور علاقائی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا -اتحاد اور یکجہتی کے لیے کام کرتے رھے-

4 اکتوبر 1947 کو سپیشل مجسٹریٹ جگت رام کو جنم واصل کرنے اور ڈوگروں کے خلاف اعلان بغاوت کرنے کی وجہ سے پورے علاقے اور آزاد کشمیر میں خصوصی حثیت حاصل ھو گئی اسی وجہ سے سیاسی حکمرانوں نے غازی اللہ دتہ خان صاحب کو اپنی جماعت میں شمولیت کی پیش کش کی لیکن انھوں نے کسی جماعت میں شمولیت احتیار نہیں کی- مذھب سے گہرا لگاو تھا علماۓ کرام سے خصوصی تعلق تھا- 1980 کی دھائی میں حج کی سعادت نصیب ھوئی صوبیدار غازی اللہ دتہ خان صاحب ایک غیر متناذعہ شخصیت تھے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا شحص ان کی عزت کرتا تھا- وہ نمود و نمائش کے قائل نہیں تھے -اپنی قربانیوں اور کارناموں کو کبھی کیش کرانے کی کوشش نہیں کی-ہمیشہ کہتے تھے جو کام بھی کیا ھے اللہ تعالیٰ کی مدد اور کرم نوازی سے ھوا ہے وہی مجھےاس کا بدلہ دے گا سفید پوشی میں زندگی گزاری آپ کا حسن اخلاق اور کردار قابل ستاٸش رھا آپ 15 جنوری 2003 کو اِس دنیا فانی سے ھمیشہ کیلٸے رخصت ہو گئے۔۔دعا ہے کے اللہ پاک آپکی آخرت کی تمام منازل آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے(آمین) ** ** ** ** ** ثاقب شائق (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:09، 29 دسمبر 2019ء (م ع و)

مجاہد اول عازی صوبیدار اللہ دتہ خان ثاقب شائق (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:34، 3 جنوری 2020ء (م ع و)

مجاد اول غازی صوبیدار اللہ دتہ خان تھے نہ کہ سردار عبدالقیوم خان۔۔۔۔ Malahim Shaiq (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:24، 6 اکتوبر 2021ء (م ع و)