جنگ زلاقہ
جنگ زلاقہ | |||||
---|---|---|---|---|---|
عمومی معلومات | |||||
| |||||
متحارب گروہ | |||||
مملکت قشتالہ | دولت مرابطین | ||||
قائد | |||||
الفانسو ششم | یوسف بن تاشفین | ||||
قوت | |||||
60 ہزار | 30 ہزار | ||||
نقصانات | |||||
59 ہزار 500 | 3 ہزار | ||||
درستی - ترمیم |
جنگ زلاقہ (23اکتوبر1086ء بمطابق رمضان 476ھ) دولت مرابطین کے عظیم مجاہد رہنما یوسف بن تاشفین اور اسپین کی مسیحی مملکت قشتالہ (Kingdom of Castile) کے بادشاہ الفانسو ششم کے درمیان لڑی گئی جس میں یوسف بن تاشفین نے تاریخی فتح حاصل کی۔
وجوہات
[ترمیم]ہشام ثانی نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں ہسپانیہ میں ابھرتی ہوئی مسیحی ریاستوں کے خلاف 52 مہمات میں حصہ لیا اور کبھی بھی شکست نہیں کھائی لیکن 1002ء اس کے انتقال کے بعد اسپین میں مسلم حکومت کو زوال آگیا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ 1082ء میں الفانسو ششم نے قشتالہ سے اپنی تاریخی فتوحات کے سفر کا آغاز کیا۔ نااہل مسلم حکمرانوں میں اسے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہیں تھی۔ 1085ء میں اس نے بنو امیہ کے دور کے دار الحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ شہر کے عظیم باسیوں نے 5 سال تک مسیحیوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی لیکن بالآخر ہمت ہار بیٹھے۔ الفانسو کا اگلا ہدف سرغوسہ کی کمزور ریاست تھی۔ مسلم حکمرانوں کی نااہلی کے مکمل ادراک کے بعد علما نے شمال مغربی افریقا میں دولت مرابطین کے امیر یوسف بن تاشفین سے رابطہ کیا اور ان سے اندلس کی ڈوبتی ہوئی مسلم ریاست کو بچانے کا مطالبہ کیا۔
جنگ کی تیاریاں
[ترمیم]اشبیلیہ، غرناطہ اور بطليوس (باداجوز) کے قاضیوں نے یوسف سے مطالبہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ وہ مقامی حکمرانوں کی خود مختاری برقرار رکھیں گے۔ یوسف نے تمام شرائط تسلیم کیں جس کے بدلے میں انھیں قلعہ قائم کرنے اور اپنی افواج کو منظم کرنے کے لیے ساحلی شہر الجزیرہ سے نوازا گیا۔ انتظامات مکمل کرنے کے بعد یوسف 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ اشبیلیہ روانہ ہوا اور الجزیرہ کے قلعے میں 5 ہزار فوجیوں کو چھوڑا۔ وہ 8روز اشبیلیہ میں رہا اور اندلس کے حکمرانوں کی جانب سے فراہم کردہ فوجی دستوں کی ترتیب و تنظیم کرتا رہا۔ کل 20ہزار افواج کے ساتھ یوسف شمال کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کا ٹکرائو زلاقہ کے میدان میں الفانسو ششم سے ہوا۔
جنگ
[ترمیم]قشتالہ کے بادشاہ الفانسو ششم کو 80ہزار شہسواروں، 10ہزار پیادوں اور 30 ہزار کرائے کے عرب فوجیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ 20 ہزار مسلم افواج میں سے شامل 12 ہزار بربر (10 ہزار شہسوار اور دو ہزار پیادی) بہترین جنگجو تھے جبکہ مقامی 8 ہزار افواج شہسواروں اور پیادہ افواج پر مشتمل تھے۔ دونوں سپہ سالاروں نے جنگ سے قبل پیغامات کا تبادلہ کیا۔ یوسف نے دشمن کو تین تجاویز پیش کیں: ١۔ اسلام قبول کرو، ٢۔ جزیہ ٣۔ یا جنگ ۔
الفانسو نے مرابطین سے جنگ کو ترجیح دی۔ جنگ 23 اکتوبر1086ء بروز جمعہ صبح سورج نکلتے وقت الفانسو کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یوسف نے اپنی فوج کو دستوں میں تقسیم کیا پہلے دستے کی قیادت عباد ثالث المعتمد کر رہا تھا جبکہ دوسرے دستے کی قیادت خود یوسف بن تاشفین نے کی۔ دوپہر تک المعتمد کی افواج ہی الفانسو کا مقابلہ کرتی رہیں جس کے بعد یوسف بن تاشفین اپنی فوج سمیت جنگ میں داخل ہوا اور الفانسو کی افواج کا گھیرائو کر لیا جس پر مسیحی افواج میں افراتفری پھیل گئی اور یوسف نے سیاہ فام باشندوں پر مشتمل تیسرے دستے کو حملے کا حکم دے دیا جس نے آخری وفیصلہ کن حملہ کرتے ہوئے جنگ کا فیصلہ مسلم افواج کے حق میں کر دیا۔ مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 60ہزار کے مسیحی لشکر میں سے 59ہزار 500 اس جنگ میں کام آئے جبکہ الفانسو زندہ بچ گیا تاہم اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔
اس میدان جنگ کو زلاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ”پھسلتا ہوا میدان“ ہے کیونکہ معرکے کے روز اس قدر خون بہا کہ افواج کو قدم جمانے میں مشکل ہونے لگی۔ مسیحی ذرائع اس جنگ کو Battle of Sagrajas کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تاریخی فتح کے نتیجے میں اگلے 300 سال تک اسپین میں مسلم حکومت موجود رہی بصورت دیگر وہ 1492ء کے بعد 1092ء میں ہی ختم ہوجاتی۔
اس جنگ کو صلیبی جنگوں کے آغاز کی اہم ترین وجہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں شکست کے بعد ہی مسیحیوں نے مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جارحیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔