حافظ غلام جیلانی
میاں صاحب آسیا پیدائش : 1198ھ 1784ء۔ وفات : 1292ھ 1875ء حافظ غلام جیلانی المعروف آسیا والے میاں صاحب
نام و نسب
[ترمیم]آپ کا نام حافظ غلام جیلانی، والد کا نام حافظ غلام حبیب، لقب علامہ عصر اور ’’میاں صاحب آسیا ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ چغتائی خاندان تھا۔ آپ کے والد عالم وفاضل نہایت ہی متقی اور پابند سنت تھے۔ وعظ فرمایا کرتے۔ فتویٰ بھی دیا کرتے۔ سکھوں کے خلاف محدثین ہندوستان کی بڑی مدد کی۔
تعلیم و تربیت
[ترمیم]حافظ غلام جیلانی نے اپنے والد سے قرآن مجید حفظ کیا اور علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی۔ حافظ حبیب اللہ صاحب قندھاری آپ کے اساتذہ میں سے تھے۔ نیز حافظ عبد الرحیم افغان بھی آپ کے استاد تھے۔ حدیث شریف سبحان علی دہلوی سے پڑھی۔
تحریک آزادی
[ترمیم]جس وقت حافظ عبد الرحیم افغان کوانگریزوں نے دس سال قید کیا تو میاں صاحب آسیا کو بھی ان کی تحریک کا ایک اہم رکن سمجھ کر قیدکیا گیا اور انگریزوں کی نظر میں آپ بھی ایک کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔ اللہ بخش یوسفی لکھتے ہیں۔ ’’کہ مولوی غلام جیلانی صاحب جو پشاور کے مشہور عالم دین تھے۔ تحریک مجاہدین کی حمایت میں تھے‘‘۔ بلکہ 1857ء کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
علمی مقام
[ترمیم]آپ کے علم کا شہرہ دور دراز ممالک تک پہنچا ہوا تھا۔ غزنی، ہرات، سمر قند، بخارا اور کابل تک کے طلبہ آآکر آپ سے اپنی علمی استعداد کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے اور اس چشمہ علم وحکمت سے فیضیاب ہو کر لوٹتے، آپ علوم متداولہ کے جملہ فنون پر کامل دستگاہ رکھتے تھے، اسی لیے آپ تمام فنون پڑھاتے، آپ کا ذوق مطالعہ اس حد کمال تک پہنچا ہوا تھا کہ کسی وقت بھی بغیر کتاب کے نہ ہوتے۔
کتب خانہ
[ترمیم]آپ کے کتب خانہ کی تقریباً ہر ایک کتاب پر آپ نے کچھ نہ کچھ تحریر کیا ہے۔ جناب مولینا عبد الرحیم صاحب مرحوم لائبریرین اسلامیہ کالج پشاورتحریر فرماتے ہیں’’ تیرھویں صدی کے بہت بڑا متبحر عالم تھے۔ ان کے تبحر علمی کا اس بات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس عظیم الشان کتب خانہ میں ایسی کتاب کم تر ہوگی جس پر علامہ موصوف نے مطالعہ کر کے کچھ حاشیئے یا کوئی مفید یادداشت نہ لکھی ہو‘‘۔ آپ کی وفات کے بعد یہ کتب خانہ اسلامیہ کالج بھیجا گیا ۔ میاں صاحب آسیا‘‘ کا علمی ذوق و شوق تلاش تجسس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے کتنی کاوش و تفحص کے بعد یہ کتب خانہ جمع کیا ہوگا۔
ادائیگی حج
[ترمیم]جب آپ حج مبارک سے ارادہ سے روانہ ہوئے تو آپ نے پشاور سے لے کر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور پھر واپس پشاور تک پہنچے کا باقاعدہ روزانہ کا سفر نامہ لکھا ہے جو فارسی میں ہے اور اسلامیہ کالج کی لائبریری میں عدد مسلسل 559 پر موجود ہے۔ آپ 16شوال 1288ھ کو بذریعہ شکرم یعنی ٹانگا کے پشاور سے لاہور تک گئے اور پھر لاہور سے بذریعہ ریل گاڑی بمبئی گئے اوربمبئی سے بحری جہاز کے ذریعے حرمین الشریفین تشریف لے گئے۔ 3ربیع الاول 1298ھ کو واپس پشاور پہنچے۔
وفات
[ترمیم]بیان کیا جاتا ہے کہ حج کی واپسی سے تقریباً تین برس بعد آپ کا انتقال ہوا۔ اس طریقہ سے آپ کا سنہ وفات 1292ھ 1875ء بنتا ہے۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 113 تا 121،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور