سرہند-فتح گڑھ کی مجموعی آبادی 60,852 افراد پر مشتمل ہے۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کی ابدی آرام گاہ، جسے علاقے کے مسلمان روضہ شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں، اورسکھوں کا متبرک مقام گوردوارہ فتح گڑھ صاحب بھی یہاں واقع ہے۔ یہ تاریخی شہر سکھوں کے ایک اہم شہر پٹیالہ سے 35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پٹیالہ، انبالہ، چندی گڑھ اور لدھیانہ سے اس کا ایک جیسا فاصلہ ہے۔
سرہند کے بارے میں البیرونی کی روایت یہ ہے کہ یہاں ابتداءمیں ثریادانشی حکمرانوں نے اپنا اقتدار قائم کیا اور بعد میں یہ پال بادشاہت کا ایک اہم سرحدی شہر بن گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق سرہند کابل کی برہمن بادشاہت کا مشرقی سرحدی شہر بھی رہا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو سرہند پر ہندوبادشاہوں کی حکمرانی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوئی اور ہندو حکمرانوں کا سرہند پر راج اس وقت انجام کو پہنچا، جب1193ءمیں محمد غوری نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دی، بعد ازاں خاندانِ غلاماں کے سلطان آرام شاہ نے سرہند پر اپنے اقتدار کا پرچم لہرایا۔ نصیر الدین قباچہ نے 1210ءمیں سرہند کو فتح کیا، لیکن کچھ عرصے بعد سلطان التتمش نے یہ علاقہ دوبارہ فتح کر لیا۔ بلبن کے بھانجے شیر خاں نے سرہند میں ایک پُر شکوہ قلعہ تعمیر کیا، بعد ازاں لودھی خاندان نے سرہند پر حکمرانی کی اور جب 1526ءمیں پانی پت کی پہلی لڑائی لڑی گئی اور بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست سے دوچار کیا تو سرہند مغل بادشاہوں کی حکمرانی میں آگیا۔ نقشبندی سلسلے کے صوفیاءنے ہندوستان میں تجدید احیائے دین کی جدوجہد میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اس جدوجہد کی ابتداءنقشبندی سلسلے کے بانی خواجہ باقی باللہ نے کی۔ خواجہ باقی باللہ نے خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری سے اکتساب فیض کیا تھا۔ لیکن اس سلسلے کو نئی روح اور تازگی شیخ احمد فاروقی سرہندی نے بخشی، جو حضرت مجدد الف ثانی کے لقب سے موسوم ہوئے۔[2]