سعادت علی سہارنپوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مظاہرعلوم سہارنپورکے بانی حضرت مولانا مفتی محمدسعادت علی ؒ فقیہ سہارنپور​

آ پؒ مجاہدکبیرحضرت مولاناسیداحمد شہیدؒ کی جماعت کے خاص رکن،حضرت مولانااحمدعلیؒمحدث سہارنپوری کے استاذ،حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکے استاذالاساتذہ،مظاہرعلوم سہارنپورکے بانی مبانی،حضرت مولاناشاہ محمداسحق دہلویؒکی معتمدخصوصی اورعبقری شخصیات میں سے تھے۔ فقہ وفتاویٰ سے خصوصی مناسبت کی وجہ سے آپ کو’’ فقیہ سہارنپور‘‘کے نام سے جاناجاتاتھا،دیگراعیان علم کے علاوہ حضرت شاہ محمداسحق محدث دہلویؒکوآپ کے فقہی فیصلوں اورمسائل پرشرح صدرتھا۔ انگریزی سامراج اوراس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کی بگڑتی ساکھ کودیکھ کرآپ کے دل میں یہ خیال گزراکہ ہندوستان میں سرمایۂ ملت کی نگہبانی اورنسل نوکی جہانبابی کے لیے دینی مدارس کاوجودازبس ضروری ہے اس خیال نے جب پختگی پیداکرلی اورحالات نے مدرسہ قائم کرنے پر مجبورکردیاتوسب سے پہلے آپؒنے طلبہ کواپنے گھرپرہی پڑھاناشروع کر دیا،ان کے قیام اورطعام کانظام بھی آپ ہی فرماتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ محمد اسعد اللہ ؒصاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا سعادت علی ؒ کچھ اسباق پڑھاتے تھے اور بقیہ وقت مدرسہ کی توسیع وترقی میں خرچ کرتے تھے اور لوگوں کو اس مدرسہ کی مالی اعانت کی طرف توجہ دلاتے تھے اور خودبھی فراہمی چند ہ کے لیے تکلیف فرماتے تھے‘‘ (حیات اسعد ص 29 بحوالہ نظام کانپور بابت مئی 1963ئ؁) طلبہ کی تعدادبڑھنے پرآپ نے کرایہ کے مکانات،محلہ قاضی کی مسجدوغیرہ میں مدرسہ کوپھیلادیااس طرح کزرع اخرج شطأہ کامصداق بن کرجب مدرسہ قبولیت تامہ وعامہ حاصل کرنے لگاتو اساتذہ میں اضافے کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ حضرت مولاناسخاوت علی ؒاسی دورمیمون میں استاذمتعین کیے گئے۔ ’’عربی مدرسہ‘‘ سے’’ مظاہرعلوم ‘‘تکیہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیم و تعلم کا مبارک سلسلہ حضرت مولانامفتی سعادت علیؒ کے دولت کدہ پرایک عرصہ سے جاری تھاجس کاباقاعدہ کوئی نام نہیں تھالیکن طلبہ کی کثرت،کرایہ کے مکانوں میں مدرسہ کی منتقلی اوراساتذہ کی تعدادمیں اضافہ کے بعدیکم رجب المرجب 1283ھ م 9؍نومبر1866ء سے اس مکتب کو ’’عربی مدرسہ‘‘کے نام سے پکاراجانے لگااورکئی سال تک کی رودادیں اسی نام سے مطبوع ہوتی رہیں۔ اسی درمیا ن 1286ھ میں بانی مظاہرعلوم حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ وصال فرماگئے لیکن علم اورعلماء کاجو بابرکت سلسلہ شروع فرمادیاتھاوہ چلتارہا۔ طلبہ کے رجوع اورحالات کے تقاضوں کے پیش نظریہ ضرورت بہرحال مسلم تھی کہ مدرسہ کرایہ کی عمارت میں کب تک چلتا رہے گااس فکروخیال کی پختگی نے حضرت حافظ فضل حق جیسے مخیراورمخلص حضرات کو میدان علم عمل میں لاکھڑاکیا،حافظ صاحب موصوف نے اپنی وہ زمین جومحلہ چوب فروشان میں متصل مسجدواقع تھی وقف کردی ۔ اسی عہدمیں حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒمظاہرعلوم میں تشریف لائے اورکچھ ہی عرصہ کے بعدحضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒکوبانی مظاہرعلوم کی خواہشات کے باعث کلکتہ کی ملازمت چھوڑکرسہارنپورآناپڑا،سہارنپورمیں حضرت محدث سہارنپوریؒ نے چونکہ باقاعدہ مظاہرعلوم کی عمارت تعمیرنہیں ہوئی تھی اس لیے اپنے دولت کدہ پر ایک سال تک پڑھاتے رہے،دوسری طرف دس ہزارروپے سے زائدیکمشت رقم چندہ کرکے بغرض تعمیرداخل مدرسہ فرمائی اوردفترمدرسہ قدیم کے نام سے موجودہ عمارت آپؒ کی فراہم کردہ رقم سے تیارہوئی۔ 1291ھ میں اس عمارت کی تعمیرشروع ہوئی اورایک سال کے اندرمکمل ہو گئی توحضرت حافظ فضل حقؒنے جنھوں نے خودایک خطیررقم مدرسہ کے خزانہ میں جمع فرمائی تھی ایک دعوتی تقریب منعقدفرمائی اورتمام شرکاء کو کھاناکھلایا۔ قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒکو اس عمارت کا باقاعدہ اففتاح کرنے کے لیے مدعوکیاگیاچنانچہ حضرت نانوتویؒنہ صرف تشریف لائے بلکہ مسلسل تین گھنٹے تک اس عمارت کے صحن میں بیٹھ کروعظ فرمایا۔​

مدرسہ کی نسبت: چونکہ مدرسہ مظاہرعلوم کا تعلیمی سلسلہ قیام مظاہرسے مدتوں پہلے سے جاری تھا مستقل مدرسہ قائم کرنے کا کوئی تصور بھی نہ تھا اورکوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک مکتب کبھی جامعہ کی شکل میں دنیا بھر میں اپنی علمی وعرفانی روشنی بکھیرے گا اسی وجہ سے مدرسہ کا کوئی مستقل نام تجویز نہیں ہوا ،لیکن 1292ھ؁ میں جب یہ مدرسہ بازداران سے منتقل ہوکر اپنی اصلی عمارت میں پہنچا تو اس کے اصل نام کا خیال پیدا ہوا اس زمانہ میں مشہور عالم حضرت مولانا محمدمظہر نانوتویؒ (جو علم وعرفان کے مرکز تھے)اپنے علم و فضل کی بنا پر بہت مشہور تھے، اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ’’ مظہرعلوم‘‘ نام رکھا جائے لیکن مظہرعلوم کے اعدادبارہ سواکیانوے نکلے اور صرف الف کے اضافے سے(مظاہرعلوم)مدرسہ کا تاریخی سن 1292ھ برآمدہوتا تھا چنانچہ حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ نے مظاہرعلوم (جو مدرسہ کے پہلی عمارت کی تعمیر کا تاریخی نام ہے تجویز ہوا لیکن پھربھی حضرت مولانا محمد مظہرنانوتویؒ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے)​ مدرسہ کی لوجہ اللہ خدمت اور محنت مدرسہ کے طلبہ کو کھانا کھلانا ،ان کی بیماریوں کا علاج اور ملبوسات ومشروبات کا تکفل خود حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒ فرماتے تھے نیز رودادمظاہرعلوم کے مطابق پوری زندگی حضرت موصوف نے کبھی بھی مدرسہ کا ایک پیسہ اپنی ذات پرصرف نہیں کیا اور مدرسہ کی کامیابی وکامرانی اور تعمیر وترقی بہترین تعلیمی معیاراورطلبہ کی ذہن سازی کی ہمیشہ فکر فرماتے تھے اس ضمن میں حضرت موصوف اپنے شاگردخاص حضرت اقدس الحاج حافظ قمرالدین ؒامام جامع مسجدسہارنپورکے ساتھ دوردراز مقامات کے اسفار کرکے مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرتے اور خود بھی مستقل امدادفرماتے رہے۔ روداد مظاہرعلوم 1283ھ؁ 1284ھ؁ کے مطابق متعدد کتب مدرسہ کو عنایت فرمائیں اور مستقل چند ہ بھی دیتے تھے چنانچہ بعض روداد میں ’’فہرست سالانہ چندہ دہندگان‘‘میں آپ کا بھی نام نامی مرقوم ہے نیز مدرسہ کی خاطر میرٹھ کے کئی اسفار فرمائے اور لوگوں کو’’چندہ دہندگان ‘‘میں شامل فرمایا۔​ چند اولین متعلمین آپ کے اولین شاگردوں اور طالب علموں کی بڑی تعداد ہے ان میں سے بعض شخصیات خود اپنے وقت کے جلیل القدرمحدث ،نابغہ روزگار،مفسر اور مشہور و معروف مصنف ہوئے مثلاًحضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ،حضرت حافظ قمرالدین صاحبؒ،حضرت مولانا امیرباز خان سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عنایت الٰہی سہارنپوریؒاورحضرت مولانا مشتاق احمد انبیہٹویؒ۔

قسط(2)

فقہ وفتاویٰ حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒاپنے اخلاص وفنائیت کی وجہ سے مشہورنہ ہو سکے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ موصوف اپنے دور کی عبقری شخصیتوں اورنابغہ روزگار ہستیوں میں سے تھے مختلف علوم وفنون پرمہارت تامہ اور حذاقت کاملہ رکھنے کے ساتھ ساتھ فقہ وفتاوی میںبھی کامل عبوررکھتے تھے،آپ کے فقہ وفتاوی پرماہروحاذق ہونے کی وجہ سے ہی آپ کو’’فقیہ سہارنپور‘‘کے لقب سے جانا پہنچانا جاتا تھا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجرمدنیؒ نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں ’’حضرت مولانا سعادت علی ’’مسلم الثبوت فقہا میں تھے‘‘ حضرت مولانا محمد ثانی حسنی ندوی مظاہری رحمۃ اللہ علیہ حیات خلیل میں لکھتے ہیں ’’حضرت مولانا سعادت علی سہارنپوریؒ ایک بلند پایہ عالم،فقیہ اور محدث تھے،آپ کا تعلق حضرت سید احمد شہیدؒ کی جماعت سے تھا‘‘ حضرت موصوف فقہ ،اصول فقہ،فتاوی نویسی اور فقہی جزئیات اورمسئلوں کی باریکیوں پربیک وقت نظررکھتے تھے،دینی اورعلمی مسائل کا استحضار رہتا تھا چنانچہ آپ کے فقہ وفتاوی پرکامل عبور اور دسترس کا اعتراف آپ کے معاصرین بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا شاہ محمد اسحٰق محدث دہلویؒ جب ہجرت کرکے مکۃ المکرمہ تشریف لے گئے توآپ کی خدمت میں ایک تفصیلی فتوی پیش کیا گیا جس پروہاں کے مفتیان کرام اورقضاۃ کی مہریں اوردستخط موجود تھے جس سے معلوم ہورہا تھا کہ یہ فتوی ان کا اجتماعی اوراتفاقی ہے حضرت مولانا شاہ اسحٰق ؒ نے حضرت مفتی سعادت علی کو طلب کیا اورفتوی پرنظرثانی کے لیے مامور فرمایا حضرت مفتی صاحب نے بنظرغائر اس فتوی کا مطالعہ کرکے اس کے غلط ہونے کافیصلہ صادر فرمایا لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کیں تو موصوف نے متعلقہ کتب منگواکرتغلیط کی وجوہ نصوص کتب معتبرہ سے واضح فرمائیں یہ واقعہ آپ کی فقاہت ،دقت نظر،وسعت مطالعہ اورمسائل فقہیہ کے کامل استحضار اورعلم ومطالعہ کی بلند ی پردال ہے۔ ایک عرصہ دراز تک مدرسہ میں آنے والے مختلف علمی،دینی اور فقہی سوالات کے خود ہی جوابات تحریر فرماتے رہے بعد میں آپ کے شاگرد رشید حضرت مولانا امیرباز خان صاحبؒ بھی آپ کے معاون رہے آپ کے چند علمی فتاوے مفتی الٰہی بخش اکیڈمی کاندھلہ ضلع مظفر نگر میں موجود ہیں۔ بہرحال حضرت موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت تھے آپ نے اپنی ذہنی خوبیوں اور فکری بلندیوں کی بدولت ایک عالم کو اپنے علوم وکمالات سے فیض یاب فرمایا۔ حضرت اقدس مولانا نسیم احمد غازی مظاہری دامت برکاتہم رقم طراز ہیں ’’حضرت مولانا سعادت علی صاحبؒ’’فقیہ سہارنپور‘‘بانی مظاہرعلوم سہارنپور کو حق تعالیٰ نے صاحب فضل وکمال بنانے کے ساتھ ساتھ ایسا صاحب فیض بنایا تھا کہ دیوبند سہارنپور ،مرادآباد اور لکھنؤ وغیرہ پورے ہندوستان بلکہ عرب وعجم اورممالک یورپ میں ان کے فیوض کے سمندرآج بھی تمام عالم دنیا کو فیضیاب وسیراب کر رہے ہیں۔ مطالعہ میں انہماک کا ایک دلچسپ واقعہ استاذ محترم حضرت مولانا اطہرحسین صاحب ؒشیخ الادب والفقہ مظاہرعلوم( وقف) سہارنپور نے راقم الحروف سے بیان فرمایا کہ ’’ مطالعہ آپ ؒکا اوڑھنا اوربچھونا بن گیا تھا،چنانچہ دوران طعام بھی آپ مطالعہ میں مشغول رہتے تھے ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ کھانا تناول فرما رہے تھے اسی دوران آپ کی خدمت میں انڈے کا سالن پیش کیا گیا تو موصوف کو مطالعہ میں انہماک کی وجہ سے پتہ ہی نہ چلا کہ یہ کس چیز کا سالن ہے کھانا کھانے کے بعد جب معلوم ہوا کہ انڈے کا سالن تھا تو آپ نے فرمایا’’پہلے کیوں نہ بتایاتھا کہ میں مزہ لے کرکھاتا‘‘ تحریک آزادیٔ ہنداورمظاہرعلوم حضرت مولانا سید احمد شہید ؒبن عرفانؒ کی تحریک جس کا خاص مقصد توحید خداوندی اورشریعت محمدی کی ترویج واشاعت اور امت مسلمہ پرڈھائے جانے والے مظالم کا دفاع اورسدباب تھا چنانچہ حضرت مولانا سعادت علی ؒ بھی حضرت مولانا سید احمد شہیدؒ کی اس مبارک تحریک کے نہ صرف قائل تھے بلکہ ایک خاص فرد فرید کی حیثیت سے کام بھی کرتے تھے چنانچہ مشہور مورخ صاحب تصانیف کثیرہ حضرت مولانا عبد الحی صاحبؒ رقم طراز ہیں ’’کان من رہط الامام السید الشہید رحمہ اللّٰہ‘ یعنی حضرت مولانا سعادت علی ؒ حضرت مولانا سید احمد شہید کی جماعت میں سے تھے محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ کی ایک تحریر میں ہے کہ ’’آپ سید احمد شہیدبریلویؒ کی جماعت کے خواص میں سے تھے‘‘ حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی فرماتے ہیں ’’حضرت مولانا سعادت علی صاحب سہارنپوریؒ حضرت اقدس سید احمد شہید بریلویؒ کی جماعت کے رکن رکین تھے‘‘ مولانا محمد یوسف صاحب قریشیؒ اپنے ’’سفرنامہ ہند‘‘میں لکھتے ہیں۔ ’’حضرت مولانا سعادت علی ؒسید احمد امام شہید بن عرفان بریلویؒ کی جماعت کے ایک فرد تھے آپ بڑے متبحر عالم اور فنون کے ماہرتھے‘‘ حقیقت یہ ہے کہ زہد وتصوف کے ساتھ ساتھ تحریک آزادیٔ ہند میں بھی اکابرمظاہرشریک رہے لیکن ان کے استغناء وتوکل ،خلوص وللّٰہیت یکسوئی وبے نیازی اور نام ونمود سے دوری نے ان کو مشہور نہ ہونے دیا پھر وہ خود چاہتے تھے کہ ان کے نام کو مشہور نہ کیا جائے بلکہ ان کے دینی کاموں کو عام کیا جائے چنانچہ مولانا شمس الحق نے فرمایا کہ ’’یہ اسلامی مدرسہ جو اپنی سادگی ووضع داری اور میانہ روی خاموشی کے ساتھ اپنے حقوق وفرائض کے اداکرنے میں خاص امتیازی شان رکھتا ہے(ایک صدی سے زائد عرصہ سے )سہارنپور کا سرمایۂ برکت اور اعزاز بناہوا ہے اس آسمان ہدایت کے برسنے والے بادل جس قدر برسے ہیں اس قدر گرجے نہیں اور جتنے کارنامے اطراف ہند میں اس کے خوان علم سے سیراب ہوکر پھیلے اتنے مشہور نہیں ہوئے‘‘(ماہنامہ الرشاد ج 1 شمار 35) یہ بھی ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ اس ادارہ کے علما کی تحریک خاموش ہے مگراس خاموشی میں فتح وظفر پہنائیاں مستورتھیں حضرت مولانا سعادت علی ؒ بانی مظاہر،حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتویؒ صدرالمدرسین اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سرپرست مظاہرعلوم سہارنپور،یہ وہ قدسی صفات ہستیاں ہیں جوتحریک آزادی کے قابل فخر سپوت اورمردمجاہد تھے۔ تحریک آزادی کے متعلق خفیہ مشورے،مخصو ص انداز ومنہاج پرخطوط نویسی،کن کن جگہوں پرکون کون سے فتنے ابھرتے ہیں اورکس قسم کے چرچے ہوتے ہیں ان کی خبرگیری ،راتوں کے سناٹوں،ہیبت ناک اندھیروںسے خفیہ باتوں کی یافت غرض بھوک اور پیاس برداشت کرکے تحریک آزادی کو کامیاب وکامران بنانے میں علما ہند نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا مشہور صاحب قلم انشاء پردازآبادشاہ پوریؒ اپنی کتاب ’’سید بادشاہ کاقافلہ‘‘میں لکھتے ہیں ’’امید علی نے بیان کیا تھا کہ دوقاصدوں میں سے ایک کابازولڑائی میں زخمی ہو گیا ہے اورمولوی سعادت علی اور مولوی احمد علی سہارنپوروالے ،مولوی امیرالدین (سرگرم کارکن)کے ساتھ لین دین کرتے ہیں چنانچہ ایشوری پرساد نے وارنٹ تلاشی حاصل کیا اورجوائنٹ مجسٹریٹ نے مولوی سعاد ت علیؒ کے گھر کی تلاشی لی اور کئی خطوط ہاتھ آئے جن کا معائنہ ہورہا ہے‘‘(ص 324) حضرت سید احمد شہیدؒ نے تحریک آزادی کی ابتدا کے وقت ہندوستان بھر کا سفر فرمایا تھا اور اس سفر میں خاص خاص لوگوں کو اپنی تحریک کے اغراض ومقاصد سے آگاہ فرمایا تھا اسی ضمن میں آپ دیوبند اورسہارنپور بھی پہنچے اورایک جم غفیر کو بیعت بھی فرمایا تھا۔ مشہور تحریک ’’ریشمی رومال‘‘جس کے روح رواں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ تھے موصوف نے جب اس تحریک کو وجود میں لانے اورفعال ومتحرک بنانے پرغور فرمایا تو سب سے پہلے مظاہرعلوم ہی میں علما عارفین سے مشورہ لیا تھا گویا تحریک ’’ریشمی رومال‘‘کی خشت اول بھی یہی درسگاہ ہے۔[align=justify] ‏دسمبر 8, 2012

مفتی ناصرمظاہری

مفتی ناصرمظاہری میں نہیں مانتاکاغذپہ لکھاشجرہ نسب منتظم اعلی

جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے صدرالمدرسین ،بانی جامعہ کے معتمد خاص ،حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے نورنظر ،امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خلیفۂ خاص حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ نے نہ صرف تحریک آزادی میں حصہ لیا بلکہ جنگ آزادی (شاملی)میں شرکت بھی فرمائی تھی ۔ حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ کی تحریک آزادی میں شرکت ،ریشمی رومال میں دلچسپی ،مدینہ منورہ کا سفر،وہاں اہم شخصیات سے ملاقات ،واپسی پربمبئی بندرگاہ پرگرفتاری ،آپ کے سامان کی تلاشی ،نینی تال جیل میں اسارت اورپھر رہائی اس کی مکمل تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں’’تحریک آزادیٔ ہنداورمظاہرعلوم سہارنپور‘‘ بدعات وخرافات کی مخالفت مفتی سعادت علی ؒ خالص حنفی المسلک تھے،قرآن وسنت اوراجماع امت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ ان پر عمل آپ کی مبارک زندگی کا جزء لاینفک تھا اوردین وشریعت میں نت نئی بدعات وخرافات کے ہمیشہ مخالف رہتے تھے اوراس کے روکنے کے لیے کوشاں رہتے تھے اسی ضمن میں سرزمین میرٹھ کے رئیس اورزمیندار جناب الٰہی بخش لال کرتی کو حضرت موصوف کی ایسی صحبت میسرآئی کہ موصوف نے ہرقسم کی بدعات وخرافات اورچراغاں وغیرہ سے توبہ کرلی۔ روڑکی کا سفر مولانا خلیل الرحمن صاحبؒ(خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ) جوپہلے ہندوتھے اور دین واسلام سے ناواقف احکام شریعت وطریقت سے ناآشنا ،قرآن وسنت کی تعلیمات سے لاعلم خالص ہندومذہب رکھتے تھے …اللہ رب العزت نے انھیں دین کے سمجھنے اورپرکھنے کی توفیق بخشی تو انھوں نے بہت قریب سے اسلام اوراسلامیات کا مطالعہ کیا اور پھرانہوں نے محسوس کیا کہ دین محمدی ہی سچامذہب ہے چنانچہ آپؒ نے اسلام قبول کر لیا (اور خلیل الرحمن اسلامی نام تجویز ہوا)اسلام لانے کی وجہ سے بہت سی مشکلات سے دوچارہونا پڑا،ہاتھوں میں بیڑیاں اورپیروں ہتھکڑیاں ڈالی گئیں اوربند کوٹھریوں میں قیدکئے گئے ،بھوکے اورپیاسے رکھے گئے،طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی گئیں لیکن آپ کے پائے ثبات میںجنبش نہ آئی،آپ کی پریشانیوں اورکلفتوں کو سن کر حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ بغرض ملاقات روڑکی کا سفر طے فرمایا ،خود مولانا خلیل الرحمن لکھتے ہیں۔ ’’میری حالت زارسن کر تین بزرگ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،مولانا سعادت علی سہارنپوریؒ اور مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ تشریف لائے اورمجھے ایک خفیہ مقام پربلابھیجا میں ان بزرگوں کی زیارت سے مشرف ہوا اور والد صاحب کو خبربھی نہ ہوئی‘‘(انوار خلیل ص 57) بہر حال حضرت مولانا محمد سعادت علی نوراللہ مرقدہ وبردمضجعہ وہ مایہ نازفردتھے جنہیں حضرت اقدس شیخ المشائخ ،عارف وقت مولانا سید احمد شہید بن عرفان صاحب بریلویؒ اعلی اللہ درجاتہ رائے بریلوی کی ذات والا صفات کے ساتھ روحانی تعلق،دلی ربط،بڑا گہرالگائو اورغایت درجہ انسیت ومحبت تھی بربنا ازیں آپ حضرت سید قدس سرہ کے انوار باطنیہ اورفیوض روحانیہ سے علی وجہ الاتم مالا مال تھے۔ مولانا احمد علیؒ کی تعلیم و تربیت اورآپ کی تدبیر حضرت مولانا احمد علی 18سال تک کھیل کود میں مشغول رہے اورکبوتربازی میں اپنی قیمتی عمرگنواتے رہے،حضرت مفتی سعادت علی صاحبؒ کوبہت افسوس ہوتا کہ علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والا یہ بچہ اپنی عمر عزیز برباد کررہا ہے،ایک مرتبہ مفتی صاحب موصوفؒ نے یہ تدبیر اختیار فرمائی کہ ایک شخص کو چند سوالا ت دیکر آپ کے پاس بھیجا، سائل نے ان سوالات کے جوابات طلب کیے توآپ نے لاعلمی کا اظہار کیا ،توسائل نے طنزکیا اور کہا کہ اتنے بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہو اور یہ حالت بنا رکھی ہے،ان الفاظ کا سننا تھا کہ آپ نے علم دین کی تحصیل کے لیے کمر باندھ لی اور حصول علم کے لیے نکل پڑے آپ دنیا انھیں محدث کے نام سے جانتی ہے جن کے شاگرد وں میںحاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اورمولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے سرخیل اعظم ہیں۔ وفات حسرت آیات بہرحال حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒعلوم واعمال ،دین وملت کے فعال اورعظیم المرتبت وجامع شخصیت تھے1286ھ؁ مطابق 1869ئ؁ میں آپ کا انتقال پرملال ہوا(جس وقت مظاہرعلوم اپنی عمرکے چوتھے سال میں تھا)روداد مظاہرعلوم میں آپ کی رحلت کی اطلاع دیتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ ’’مولانا سعادت علی مرحوم کہ بانی مدرسہ تھے اور ہر وقت خبرگیری مدرسہ ومدرسین وطلبہ ودیگر امور متعلقہ کی فرماتے تھے ،اس جہان سے رحلت فرما گئے،مدرسہ پر ان کے انتقال کی خاص مصیبت ہوئی اورشہر گویا بے چراغ ہو گیا،خداتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اورمدرسہ کو بہ اشاعت علوم دینیہ واحیاء سنت نبویہ قائم ودائم رکھے‘‘(روداد مظاہرعلوم 1286ھ؁) حضرت مولانا مفتی سعادت علی ؒ کو مسجد شاہ نور صاحب محلہ حسام الدین کے شمال میں سپرد خاک کیا گیا۔ استاذمحترم حضرت مولانا انعام الرحمن تھانوی ؒنے 1394ھ میں آپ ؒ کی مندرجہ ذیل تاریخ وفات تحریر فرمائی،جس کا کتبہ آپ کی قبر اطہرپرنصب ہے،پتھر کا صرفہ مولانا عتیق احمد دیوبندیؒ مدیر’’قاسم العلوم‘‘کی اہلیہ محترمہ نے برداشت کیا تھا