سوالبارد
سوالبار Svalbard | |
---|---|
![]() | |
دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر | لانگایربین |
سرکاری زبانیں | نارویجن زبان |
نسلی گروہ | 72% نارویجن 16% روسی/يوکرينی 12% دیگر |
حکومت | ناروے کا ولاقہ |
• گورنر | Odd Olsen Ingerø (2009–) |
رقبہ | |
• کل | 61,022 کلومیٹر2 (23,561 مربع میل) |
آبادی | |
• تخمینہ | 2,932 (2011)[1] |
کرنسی | نارویجن کرون (NOK) |
منطقۂ وقت | CET (UTC
+1) (CEST (UTC+2)) |
کالنگ کوڈ | 47 |
انٹرنیٹ ایل ٹی ڈی | No. (.sj مختص[2]) |

سوالبار یا سوالبارد (Svalbard) یورپ کے شمال میں بحر منجمد شمالی میں واقع ایک مجموعہ الجزائر ہے جو ناروے اور قطب شمالی کے وسط میں واقع ہے۔ یہ مملکت ناروے کا شمالی ترین علاقہ ہے۔
ممکن ہے کہ وائی کنگ یا روسیوں نے 12 ویں صدی میں سوالبارد کو دریافت کر لیا ہو کیونکہ ناروے کی روایتی داستانوں میں سوالبارو (Svalbarð) نامی زمین کا ذکر ملتا ہے جس کا مطلب "سرد کنارا" ہے۔ لیکن اس کو غیر متنازع طور پر پہلی بار ولندیزی جہاز راں اور مہم جو ولیم بیرنٹس نے 1596ء میں دریافت کیا تھا۔
سوالبارد کے ایک جزیرے لونگیئرباین پر 20 اپریل سے 23 اگست تک سورج طلوع رہتا ہے جبکہ 26 اکتوبر سے 15 فروری تک رات رہتی ہے۔
سوالبارد کی کل آبادی 2400 افراد پر مشتمل ہے (بمطابق 2005ء) تقریباً 70 فیصد آبادی نارویجین ہے جبکہ بقیہ 30 فیصد روسی، یوکرینی اور پولش باشندے ہیں۔
![]() |
ویکی ذخائر پر سوالبارد سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
تفصیلات
[ترمیم]1920 کے "سوالبارڈ معاہدہ" کے تحت ان جزیروں کو کچھ شرائط کے ساتھ ناروے کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ناروے یہاں فوجی طاقت تعینات نہیں کر سکتا اور معاہدے میں شامل دیگر ممالک (جیسے برطانیہ، جاپان، امریکا وغیرہ) کو یہاں تجارتی سرگرمیاں انجام دینے اور کوئلے کی کانیں چلانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ناروے اور روس یہاں معدنیات نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خطہ قطب شمالی پر سائنسی تحقیق کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ سوالبارڈ میں واقع "بین الاقوامی بیج ذخیرہ" دنیا بھر کے پودوں اور درختوں کے بیج محفوظ رکھتا ہے تاکہ اگر مستقبل میں یہ اقسام دنیا سے ختم ہو جائیں تو انھیں دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔ جزیروں کے تقریباً دو تہائی حصے کو سات قومی پارکوں اور 23 قدرتی محفوظ علاقوں کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں قطبی ریچھ، بارہ سنگھے اور کچھ سمندری جانور پائے جاتے ہیں۔ تقریباً 60 فیصد رقبے پر گلیشیئرز (برفانی تودے) چھائے ہوئے ہیں۔
تاریخ
[ترمیم]اٹھارہویں صدی میں ڈچ اور ڈنمارک کے قیدیوں کو سزا کے طور پر سوالبارڈ بھیجا جاتا تھا۔ انھیں وہیل مچھلی کا شکار کرنے والی بڑی کشتیوں کو چلانے کی سزا دی جاتی تھی۔ ان ممالک کے اکثر قیدی سوالبارد کی سخت سردی میں موت کی سزا پوری کرنے پر ترجیح دیتے تھے۔ تاہم موجودہ دور میں سوالبارد ناروے کا حصہ ہے۔ یہاں کی آبادی بہت کم ہے، لیکن دنیا کے کسی بھی ملک کا شہری یہاں آ کر کام کر سکتا ہے اور رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ سوالبارد کے لیے کسی خاص ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف ممالک سے آ کر بسنے والے چند افراد میں سے ایک شخص کے مطابق:
یہاں ایک نائٹ کلب ہے، سنیما ہال ہے اور ملازمتیں بھی دستیاب ہیں۔ ایک سماجی زندگی گزارنے کے لیے یہاں کافی کچھ موجود ہے۔ یہ ایک خوابوں جیسی دنیا ہے۔ ایک چھوٹے سے کمیونٹی کے لیے یہ جگہ نہایت پُرامن ہے۔।
—
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Population in the settlements. Svalbard"۔ Statistics Norway۔ 22 اکتوبر 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-03-24
- ↑ "The .bv and .sj top level domains"۔ Norid۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-03-24