شبینہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ایک شب میں مکمل قرآن پڑھنے کے عمل کو شبینہ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے قرآن پڑھنے یا ختم قرآن کے معنی میں لیا جاتا ہے۔ بطور دلیل یہ بیان کرتے ہیں،

تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ تمام رات جاگتے تھے اور ایک رکعت میں سارا قرآن شریف پڑھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ روایت آئی ہے: عن عبد اللہ بن زبیر انہ قرا القرآن فی رکعۃ حضرت سعید بن جبیر کے بارے میں آیا ہے : عن سعید بن جبیر انہ قرا القرآن فی رکعۃ فی البیت. حضرت اسود ہر دو رات میں ایک ختم قرآن فرماتے تھے،

ماہ رمضان میں تراویح کے دوران پورے قرآن کا پڑھنا سنت ہے۔ یہ سلسلہ پورے مہینے یعنی 29-30 دن پر محیط ہے۔

جواز[ترمیم]

سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ: شبینہ نوافل کی بجائے تراویح میں پڑھیں،اوراگر نوافل میں پڑھیں توباقاعدہ جماعت نہ ہو یعنی دو یا تین سے زائد مقتدی نہ ہوں؛ کیوں کہ اگر مقتدی تین سے زائد ہوئے تو یہ تداعی کے ساتھ نوافل کی جماعت ہوگی جو مکروہِ تحریمی ہے،نیزاگرنمازِ تراویح میں شبینہ پڑھا جائے تو اس میں بھی مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا لازم اور ضروری ہے :

(2)قرآن پاک کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے۔ (3) نام و نمود اور ریا کاری مقصود نہ ہو۔ (4) اس کے لیے فضول خرچی نہ کرنی پڑتی ہو۔ (5)اس میں لاؤڈ اسپیکر کا بلا ضرورت استعمال نہ ہو، بلکہ صرف بقدرِ ضرورت استعمال کیا جائے۔ (5)اس کی وجہ سے معتکف اور ذکر،تلاوت اورنماز میں مشغول شخص یا آرام کرنے والے یا کسی بیمار کو تکلیف نہ ہو۔ (7)فرائض و واجبات کی طرح اس کی پابندی نہ ہو۔ (8)اس میں شرکت کرنے والے اپنے ذوق و شوق سے شرکت کریں ، شرکت نہ کرنے پر کم ہمت ہونے کا طعن و تشنیع نہ کیا جائے۔ (10)جلدی کی وجہ سے نماز کے ارکان و شرائط کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جاتی ہو۔ (11)شبینہ پڑھانے والے حضرات مشروط یا معروف طور پر اجرت نہ لیں۔ (12) سننے والے کلامِ پاک پورے ادب و احترام کے ساتھ سنیں۔

مذکورہ بالا تمام شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے بھی بہتر یہ ہے کہ ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنے کی بجائے کم سے کم تین راتوں میں ختم کیا جائے۔

قباحت[ترمیم]

آج کل شبینہٴ مروجہ عام طور پر مفاسد سے خالی نہیں ہوتے، نوافل کی جماعت، نمائش وریا، نماز تراویح اور قرآن کی بے ادبی وبے احترامی وغیرہ امورِ قبیحہ شبینہ کے جز ولازم ہو گئے ہیں، عموماً حفاظ آداب واصول تجوید کی رعایت نہیں رکھتے، اس قدر تیز پڑھتے ہیں کہ بہت سے حروف کٹ کر ایک ایک رکعت میں بیسیوں لحن جلی (تجوید کی بڑی غلطیاں )ہوتی ہیں، نیز بسا اوقات جو کچھ پڑھا جاتا ہے، وہ مقتدیوں کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پڑھا، نیز بعض جگہ تو شبینہ ہوتے ہوئے بہت سے لوگ چائے پانی ہنسی مذاق بلکہ ٹھٹا تک لگانے میں مصروف رہتے ہیں، ایسی صورت میں شبینہ مروجہ کا ناجائز ہونا ظاہر ہے

اختراع[ترمیم]

کتاب و سنت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ صحابہ نے کبھی شبینہ نہیں پڑھا۔ شبینہ کا لفظ بھی فارسی ہے لہٰذا یہ ہمارے برصغیر کی ایجاد ہے۔ عربی زبان میں ایسی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ وہ تو تبھی ہوتی جب اس کا ثبوت اللہ کے رسولﷺ سے ہوتا۔ صحیح احادیث کے مطابق اللہ کے رسولﷺ نے زیادہ سے زیادہ تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دی ہے، اس سے کم وقت میں اجازت نہیں دی اور یہ اس وجہ سے کہ قرآن کا حق ادا کیا جائے اور وہ حق یہی ہے کہ سمجھ کر پڑھا جائے۔ ترتیل سے پڑھا جائے تلفظ کی صحیح ادائیگی کی جائے آج کل ایک دن میں قرآن حکیم کا شبینہ کرانے کا رواج بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے جو سنت کے خلاف ہے۔ احادیث کی رو سے کم از کم تین دن میں قرآن مکمل کیا جانا چاہیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور انھیں مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انھوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت عطا فرما دی


حضرت جندب بن عبد اﷲ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :

’’قرآن پڑھتے رہو جب تک تمھارا دل زبان کی موافقت کرتا رہے (یعنی جب تک اکتاہٹ نہ ہو) اور جب دل اور زبان میں اختلاف ہو جائے تو اٹھ جاؤ۔‘‘ (مسلم)

شرائط[ترمیم]

قرآن پاک کا سننا اور سنانا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا اوربھی زیادہ ثواب کی بات ہے کیونکہ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور قرآن کریم کا اس کے ساتھ ایک خاص ربط بھی ہے،لیکن اصولی طور پر ہر نیک کام کے کچھ آداب اور حدود و شرائط ہوتي ہیں،جب تک وہ نیک کام اپنی تمام شرائط اور حدود کے اندر اندر ہو تو باعث ِ اجر و ثواب ہے ورنہ باعث ِ گناہ ہے،چنانچہ رمضان المبارک میں جو شبینہ ہوتاہے اس کے جائز ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نوافل کی بجائے تراویح میں پڑھیں،اوراگر نوافل میں پڑھیں توباقاعدہ جماعت نہ ہو یعنی دو یا تین سے زائد مقتدی نہ ہوں کیونکہ اگر مقتدی تین سے زائد ہوئے تو یہ تداعی کے ساتھ نوافل کی جماعت ہوگی جو مکروہ ِ تحریمی ہے،نیزاگرنمازِ تراویح میں شبینہ پڑھا جائے تو اس میں بھی مندرجہ ذیل شرائط کا خیال رکھنا لازم اور ضروری ہے : (1)قرآن پاک کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے (2) نام و نمود اور ریاء کاری مقصود نہ ہو (3) اس کے لیے فضول خرچی نہ کرنی پڑتی ہو(4)اس میں لاؤڈ اسپیکر کا بلا ضرورت استعمال نہ ہو بلکہ صرف بقدر ِ ضرورت استعمال کیا جائے(5)اس کی وجہ سے معتکف اور ذکر،تلاوت اور نماز میں مشغول شخص کو تکلیف نہ ہو،نیز سونے والے کے آرام میں خلل واقع نہ ہو اور نہ ہی کسی بیمار کو تکلیف ہو (6)فرائض و واجبات کی طرح اس کی پابندی نہ ہو(7)اس میں شرکت نہ کرنے والے پر کم ہمت ہونے کا طعن و تشنیع نہ کیا جائے(8) جلدی کی وجہ سے نماز کے ارکان و شرائط کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کی جاتی ہو(9) شبینہ پڑھانے والے حضرات مشروط یا معروف طور پر اجرت نہ لیں(10) سننے والے کلامِ پاک پورے ادب و احترام کے ساتھ سنیں ۔ لہٰذا اگر مذکورہ بالا تمام شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے تراویح میں شبینہ پڑھاجائے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ،نیز اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ ایک رات میں قرآن مجیدختم کرنے کی بجائے کم سے کم تین راتوں میں ختم کیا

شبینہ میں اکثر لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل بھی کراہیت سے خالی نہیں ہے۔ تلاوت قرآن سننا واجب ہے اور قرآن نہ سننے والا شریعت کی نظر میں گنہگار ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا مناسب اور دانش مندانہ بات یہ ہے کہ شبینہ کے لیے اوّل تو لاؤڈ سپیکر نہ لگایا جائے اور اگر اس کا استعمال ناگزیر ہو تو اس کے لیے اندرونی نظام ہو تاکہ اس کی آواز مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ جا سکے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]