مندرجات کا رخ کریں

شیخ غلام رسول نجفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ غلام رسول نجفی (کتی شو) (1933-2010)

[ترمیم]

شیخ غلام رسول نجفی (رحمۃ اللہ علیہ) پاکستان کے شمالی علاقہ جات، بلتستان کے ضلع کھرمنگ کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں کتی شو گمبہ راء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کے نام غلام علی تھا، جو اس وقت گاؤں کے اہم سرکردہ شخصیات میں سے ایک تھا۔ شیخ غلام رسول نجفی  (رحمۃ اللہ علیہ) تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔آپ کی ابتدائی زندگی دیہی ماحول کی سادگی، خلوص اور دینداری کی فضا میں گزری۔

تعلیم

[ترمیم]

شیخ غلام رسول نجفی نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ محمدیہ ٹرسٹ مہدی آباد سے حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کے گاؤں کتی شو میں نہ کوئی  سرکاری اسکول موجود تھا اور نہ کوئی باقاعدہ تعلیمی ادارہ۔ اس وجہ سے آپ رسمی اردو تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ آپ کے والد گرامی حاجی غلام علی، جو خود بھی ایک نیک اور درد دل رکھنے والی شخصیت تھے، نے آپ کو 18 برس کی عمر میں جامعہ محمدیہ  مہدی آباد میں داخل کرایا۔ جامعہ محمدیہ مہدی آباد  میں آپ دو سال تک زیرِ تعلیم رہے، جہاں آپ نے بنیادی دینی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں اس وقت کے معروف علماء، جناب شیخ علی نجفی اور جناب آخوند غلام حیدر مرحوم شامل تھے۔ ان دونوں اساتذہ نے نہایت اخلاص اور محنت سے آپ کی تربیت کی اور آپ کو دینی علوم کی ابتدائی بنیاد فراہم کی۔اس دو سالہ مختصر عرصے میں آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ عربی ادبیات (صرف،نحو) اور توضیح المسائل کے دروس میں بھی شرکت فرمائی۔

جناب آخوند غلام حیدر آپ کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ" تمھارے کاندھے پر قوم کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ان لوگوں کو صحیح راستے پر لانا ہے، جو علم و شعور کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ اس راستے میں تمہیں بہت سی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہمت اور صبر کے ساتھ تمہیں یہ فریضہ انجام دینا ہوگا" اساتذہ کرام کی ان نصیحتوں نے آپ کی شخصیت میں اعتماد اور قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا، جو آپ کی پوری زندگی میں جھلکتا رہا۔ ان نصائح اور کلمات حسنہ کو ذہن میں رکھتے ہوئےسن 1958 ءسے قریب تر عرصے میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ارض بلتستان کو خیرباد کہہ کرارض مقدس نجف اشرف عراق کی طرف عازم سفر ہوئے۔آپ کے ساتھ جناب شیخ غلام حسین مقدس (سرپرست اعلیٰ جامعہ محمدیہ ٹرسٹ مھدی آباد) اورجناب مولانا محمد علی لاہوری( سابق خطیب جامع مسجد شاد باغ لاہور)بھی تھے۔ آپ کو اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ایک سال تک لاہور میں ررکناپڑا، اس دوران لاہور کے ایک مدرسہ میں آپ نے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا اورصرف ایک سال کے مختصر عرصے میں آپ نے قرآن مجید کے 12سپاروں کو حفظ کر لیا، جناب شیخ محمد اسماعیل (کواردو )آپ کے ہم جماعت تھے۔ آپ لاہورمیں قیام کے دوران بھاٹی دروازہ کی ایک مسجد میں ایک موذن کی حیثیت سے فرائض دینی بھی انجام دیتے رہے۔

سن 1960ء کے قریب آپ لاہور سے نجف الاشرف، عراق کی طرف عازم سفر ہوئے۔ لاہور سے آپ نے بذریعہ سڑک کوئٹہ کا سفر کیا، جہاں چند دن قیام کیا۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران آپ نے امام بارگاہ بلتستانیہ میں مجالسِ عزاء کے انتظامات میں بھرپور حصہ لیا، جو آپ کی مذہبی ذمہ داریوں سے گہری وابستگی کا ثبوت تھا۔پھرکوئٹہ سے مشہد مقدس ایران تشریف لے گئے۔اس وقت ایران میں ایک جلیل القدر مجتہد آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی کی رحلت ہوئی تھی۔نجف الاشرف عراق سے طلبہ کا ایک نمائندہ وفد فاتحہ خوانی اور تعزیت کے سلسلے میں ایران آیا ہوا تھا ، اس وفد میں جناب حجۃ السلام شیخ حسن علی چھٹپہ کتیشو (مرحوم) بھی موجود تھے، جو اس وقت حوزہ علمیہ نجف الاشرف میں زیر تعلیم تھے۔آپ ان کے ہمراہ نجف الاشرف عراق چلے گئے، جو آپ کی منزل مقصود تھی۔شیخ حسن علی (مرحوم) نے آپ کی بہت رہنمائی فرمائی۔

حوزہ علمیہ نجف الاشراف میں اپ کو مدرسہ پاکستانیہ میں داخلہ ملا اور کچھ عرصہ وہاں زیرتعلیم رہے۔پھر مدرسہ آل کاشف الغطاء میں داخلہ لیا ، چنانچہ کچھ عرصہ آپ اس مدرسہ میں حصول علم میں مشغول رہے ۔ اس دوران آپ نے عقائد، فلسفہ اور اصول فقہ ،شرح لمعہ کے دروس میں شرکت فرمائی۔ نجف الاشرف عراق میں آپ کا قیام 12 سالوں پر محیط رہا ۔ آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم الخوئی اور شھید صدر جیسی عظیم علمی شخصیات کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔

اساتذ ہ کرام:

شیخ غلام رسول نجفی مرحوم نے جن اساتذہ کرام سے  استفادہ کیا  ، ان کے نام ہیں:

آیت اللہ  العظمی سید ابو القاسم الخوئی

آیت اللہ العظمی سید روح اللہ خمینی رح

آیت اللہ العظمی سید محسن الحکم

شیخ محمد علی افغانی

حجۃ الاسلام سید مھدی روندی

حجۃ الاسلام شیخ محمد جو کواردو

حجۃ الاسلام شیخ علی شگری

دینی خدمات

[ترمیم]

یہ حقیقت ہے کہ دینی اور ملی خدمات کا جذبہ ہر اس شخص میں موجود ہوتا ہے جو دینی علوم سے وابستہ ہوتا ہے۔ علم دین حاصل کرنے والے علما کرام اور طلبا کے لیے یہ جذبہ ایک فطری امر ہے، کیونکہ جب بھی کسی طالب علم کو کسی دینی درسگاہ میں داخلہ ملتا ہے، تو اس کی ابتدائی تعلیم ہی معرفتِ خداوندی، تزکیۂ نفس، اور خدمتِ خلق جیسے اعلیٰ موضوعات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہی موضوعات اس کے کردار میں وہ جوہر پیدا کرتے ہیں جو اسے دین اور معاشرے کی خدمت کے لیے وقف ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔

شیخ غلام رسول نجفی (رحمۃ اللہ علیہ) زمانۂ طالب علمی میں بھی نہایت متحرک اور دینی امور کی انجام دہی کے لیے ایک پرجوش شخصیت کے حامل تھے۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران نہ صرف آپ نے علمی میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ دینی محافل اور مجالس کے انتظامات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ آپ کا یہ جذبہ صرف ایک طالب علم کا نہیں بلکہ ایک ذمہ دار مبلغ اور دین کے خادم کا تھا، جو اپنی صلاحیتوں کو ہر لمحہ دین کی خدمت میں صرف کرتا رہا۔

سنہ 1972 میں جب آپ نجف اشرف سے واپس پاکستان تشریف لائے تو بلتستان کا خطہ علمی و دینی لحاظ سے نہایت پسماندہ تھا۔ یہاں کے لوگ نہ صرف دینی تعلیمات سے محروم تھے بلکہ جدید دنیاوی علوم کی روشنی سے بھی دور تھے۔ اس علاقے میں نہ مناسب تعلیمی ادارے تھے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام جو دین اور دنیا دونوں کے تقاضے پورے کر سکے۔ اس معاشرے کو معلم اور مبلغ کی اشدضرورت تھی ۔آپ کے گاؤں (کتی شو) کی حالت اس وقت تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے انتہائی پسماندہ تھی۔ 95 فیصد لوگ دینی تعلیمات سے ناآشنا تھے، اور معاشرتی سطح پر علم و شعور کی روشنی تقریباً مفقود تھی۔اور آپ شیخ حسن مہدی آبادی کےحکم پر عراق سے واپس اپنے گاؤں تشریف لائے ،  ایسے میں حجۃ الاسلام شیخ حسن مہدی آبادی (بانی جامعہ محمدیہ ٹرسٹ) نے آپ کے ساتھ کتی شو کا دورہ کیا۔شیخ حسن مہدی آبادی نے وہاں کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " الحمد اللہ، کتی شو پہلے اندھیرے میں تھا، لیکن اب اللہ کے فضل سے روشنی آ گئی ہے۔"

یہ الفاظ اس علاقے کے لیے نہ صرف ایک حوصلہ افزا پیغام تھے بلکہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامت بھی بن گئے۔

دینی خدمات اور شعور کی بیداری:

کتی شو میں آپ نے اپنی خدمات کا آغاز نمازِ جماعت کے قیام سے کیا۔ آپ نے لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے نہایت حکمتِ عملی سے کام لیا

1.      نمازِ جماعت: باقاعدگی سے نمازِ جماعت کا اہتمام کیا، جس نے لوگوں کو دینی مرکزیت کا شعور دیا۔

2.     تعلیمِ قرآن: بچوں اور بڑوں کو قرآن کی تعلیم دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے 60 فیصد لوگ قرآن پڑھنے کے قابل ہو گئے۔

3.    عقائد اور توضیح المسائل: دین کے بنیادی عقائد اور فقہی مسائل کی تعلیم کا بھی آغاز کیا، تاکہ لوگ عملی زندگی میں دین کے احکام پر عمل پیرا ہو سکیں۔

4.    فارسی ادب کا تعارف: آپ نے طلبہ کو کتابوں کی اہمیت سے روشناس کرانے کے لیے فارسی کی مشہور کتاب "بوستان سعدی" پڑھانا شروع کی۔ یہ ایک منفرد اقدام تھا، جو اس دور میں علم و ادب سے طلبہ کو جوڑنے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔

شیخ غلام رسول نجفی(رحمۃ اللہ علیہ) ایک مایہ ناز خطیب تھے ۔چنانچہ بلتستان کے لگ بھگ 70 سے زیادہ گاؤں میں آپ نے مختلف مناسبتوں میں ،خاص کر ایام عزاء میں مجالس پڑھیں۔ یونین کونسل کتی شو کے تمام گاؤں داپا ، چھٹپا، بلتی کھر،بروق کھر، سندو، شمائل، کولطور اورقولیوا آپ کے نورانی کلمات سے خاص طور پر مستفید ہوئے ۔ جبکہ کتی شو خاص(گمبہ راہ،گونگمہ راہ) کے آ پ مستقل خطیب تھے۔ آپ مھدی آباد ، سکمیدان سکردو، شگر چھورکا،اور گمبہ سکردو کی امام باگاہوں میں بھی مختلف مناسبتوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے۔اس طرح آپ تقریبا 45 سال تک خدمت دین میں مصروف رہے۔

سیاسی خدمات

[ترمیم]

علمائے نجف سیاست سے ہمیشہ دور رہتے تھے ۔ ان کے طرز فکر ہمیشہ مذہبی رہا ، خطابت ، درس و تدریس ان کی اولین ترجیحات تھیں۔ اگر چہ علاقہ کے سیاسی نمائندئے ہمیشہ ان علما کرام کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرتے تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ان تمام سازشوں سے دور رکھا۔جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم بھی ان علما میں سے تھے، جنھوں نے کبھی کسی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی، البتہ جب سنہ 1997 میں تحریک جعفریہ پاکستان نے ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا ، تو ان کا بھر پور ساتھ دیا ایسے میں جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم کو 5 سال کے لیے یونئن کونسل کتی شو کا صدر منتخب کیا گیا ۔ آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے ایک کارکن کی حیثیت سے علاقے میں ہونے والے تمام پروگراموں میں شرکت کیاکرتے تھے۔اس کے علاوہ مرکزی سطح پر ہونے والے پروگراموں میں بھی آپ نے بھرپورنمائندگی کی۔

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات:

[ترمیم]

مشکلات انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔  دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے  جس نے  مشکلات کا سامنا نہ کیا ہو۔ چاہے ان کا تعلق امیر طبقے  سے  ہو یا غریب طبقے سے۔ خاص کردینی علوم سے وابستہ علما کرام  کو زیادہ مشکلات کا سامنا  کرنا پڑتا ہے۔بلتستان میں اس وقت کے نجفی علما کرام کافی مشکلات میں رہے۔نجف سے واپسی پر ان علما کرام کے پاس  علو م آل محمد کا خزانہ تو مو جود  تھا لیکن یہ لوگ اقتصادی طو ر پر بد حالی کا شکار تھے۔تاہم انھوں نے جس مقصد  اور ہدف کو سامنے رکھ کر علم دین حاصل کیا  تھا اس پر ثابت قدم رہتے ہوئے تبلیغ ِ دین میں مصروفِ، عمل رہے،یقینا اسی انداز فکر کا نتیجہ ہے کہ بلتستان  کے عوام آج بھی ان  علما  کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم  کوبھی زندگی میں ایسی ہی مشکلات کا سامنا رہا۔آپ کا تعلق جس علاقے سے تھا وہاں کے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ لوگ  تعلیمی اور اقتصادی   حوالے سے بھی بد حالی کا شکار تھے۔آپ کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں تھ ے جبکہ جسمانی طور پر معذور بھی تھے۔ اس عالم میں آپ نے اس معاشرے میں قدم رکھا۔آپ کے لیے سب سے  مشکل کام جہالت سے نبر آزما ہونا تھا۔کیونکہ لوگ صدیوں سے  جس فرسودہ تہذیب و ثقافت سے وابستہ رہے تھے، ان میں تبدیلی لانا اوراس معاشرے میں اسلامی اقدار کو زندہ کرنا بہت ہی سخت کام تھا۔جن میں بعض اوقات لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت  کا سامنا  بھی ہوتاتھا۔ آپ نے ان تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے  خدمت دین  جاری رکھی۔

وفات

[ترمیم]

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے آپ محض 64 سال کی عمر میں بیمارہوگئے اورعلاج و معالجہ کے لیے وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے بروقت علاج بھی نہیں کراسکے۔سنہ 2009 میں جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کوسی ایم ایچ سکردو منتقل کیا گیا، وہاں پر آپ کے پتے کا کامیاب آپریشن ہوا۔ لیکن اس کے ایک سال بعد یعنی 25 نومبر 2010 بمطابق 18 ذی الحج 1431ھ بروز جمعرات کو آپ کی علالت ایک بار پھر شدت اختیارکرگئی ، تب علی الصبح 8 بجے عید غدیر کے پروگرام کے بعد آپ کو ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو منتقل کیا گیا ، لیکن منظور خداوندی کچھ اور ہی تھا لہذا اسی دن سہ پہر 3 بجے آپ اپنے چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کے جسد خاکی کو آبائی گاؤں کتی شو منتقل کیا گیا اور وہاں پر آپ کو دفن کیا گیا۔اس وقت آپ کی عمر 74 برس تھی ۔

آپ کی وفات پر قائد بلتستان علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے نماز جمعہ کے خطبہ میں مرحوم کو خراج عقیدت و ہدیہ تعزیت پیش کرتے ہوئےے فرمایا " شیخ غلام رسول ایک عالم باعمل تھے اور ان کے دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں "۔اسی طرح مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی نے بھی آپ کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور فرمایا" شیخ رسول مرحوم نجف الاشرف میں ہمارے رفقا میں سے تھے خدا ان کی مغفرت کرے" جبکہ آپ کے قریبی رفقا میں سے شیخ محمد عیسی نجفى بھی تھے انھوں نے شیخ غلام رسول مرحوم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا" شیخ غلام رسول نجفی صاحب ایک انتہائی باعمل اور خوددار عالم دین تھے،اور انھوں نے سادگی میں زندگی گزاری، علاقہ کتی شو میں ان کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں،انھوں نے پوری زندگی مجالس حسینی کی خدمت میں گزاری"