شیخ غلام رسول نجفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جناب شیخ غلام رسول نجفی 1933 کو بلتستان کے ایک پسماندہ گاؤں کتی شو گمبہ راء میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی غلام علی جو کتی شو کی ایک معروف شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اورتین بھائیوں میں آپ سب سے بڑے تھے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی دینی تعلیم آپ نے جامعہ محمدیہ ٹرسٹ مھدی آباد سے حاصل کی۔ اس وقت گاؤں میں کوئی اسکول یا تعلیمی ادارہ موجود نہیں تھا، اس لیے اردو تعلیم حاصل نہیں کرسکے ۔ آپ کے والد محترم جناب حاجی غلام علی نے آپ کو جامعہ محمدیہ میں داخل کرایا اس وقت آپ کی عمر 18 برس تھی اور دو سال تک آپ اس مدرسہ میں حصول علم میں مشغول رہے۔آپ کے ابتدائی اساتذہ میں جناب شیخ علی نجفی اور جناب آخوند غلام حیدر مرحوم تھے جو اس وقت جامعہ محمدیہ میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ دو سال کے اس مختصر عرصے میں آپ نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ عربی ادبیات (صرف،نحو) اور توضیح المسائل کے دروس میں بھی شرکت کی۔جناب آخوند غلام حیدر آپ کو ہمیشہ یہ نصیحت فرماتے تھے کہ" تمھارے کاندھے پرقوم کی ایک بہٹ بڑی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح راستے کی طرف لانا،جس کے لیے آپ کو مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی" اساتذہ کی ان نصائح اور کلمات حسنہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے 1958 ءسے قریب تر عرصے میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ارض بلتستان کو خیرباد کہہ کرارض مقدس نجف اشرف عراق کی طرف عازم سفر ہوئے۔آپ کے ساتھ جناب شیخ غلام حسین مقدس (موجودہ سرپرست اعلیٰ جامعہ محمدیہ ٹرسٹ مھدی آباد) اورجناب مولانا محمد علی لاہوری( سابق خطیب جامع مسجد شاد باغ لاہور)بھی تھے۔ آپ کو اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ایک سال تک لاہور میں ررکناپڑا، اس دوران لاہور کے ایک مدرسہ میں آپ نے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا اورصرف ایک سال کے مختصر عرصے میں آپ نے قرآن مجید کے 12سپاروں کو حفظ کر لیا، جناب شیخ محمد اسماعیل (کواردو )آپ کے ہم جماعت تھے۔ آپ لاہورمیں قیام کے دوران بھاٹی دروازہ کی ایک مسجد میں ایک موذن کی حیثیت سے فرائض دینی بھی انجام دیتے رہے۔

ایک سال بعدیعنی تقریبا 1960 میں آپ لاہور سے نجف الاشرف عراق کی طرف عازم سفر ہوئے۔ لاہور سے بائی روڈ کوئٹہ پہنچے ، کچھ دنوں کے لیے کوئٹہ میں قیام کیا۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران امام بارگاہ بلتستانیہ میں مجالس عزاٰء کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پھر وہاں سے مشھد مقدس ایران چلے گئے۔اس وقت ایران میں ایک جلیل القدر مجتہد آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی کی رحلت ہوئی تھی۔نجف الاشرف عراق سے طلبہ کا ایک نمائندہ وفد فاتحہ خوانی اور تعزیت کے سلسلے میں ایران آیا ہوا تھا ، اس وفد میں شیخ حسن علی چھٹپہ کتیشو (مرحوم) بھی موجود تھے، جو حوزہ علمیہ نجف الاشرف میں زیر تعلیم تھے۔آپ ان کے ہمراہ نجف الاشرف عراق چلے گئے جو یہی آپ کی منزل مقصود تھی۔شیخ حسن علی (مرحوم) نے آپ کی بہت رہنمائی کی۔ نجف الاشراف میں اپ کو مدرسہ پاکستانیہ میں داخلہ ملا اور کچھ عرصہ وہاں زیرتعلیم رہے۔پھر مدرسہ آل کاشف الغطاء میں داخلہ لیا چنانچہ کچھ عرصہ آپ اس مدرسہ میں حصول علم میں مشغول رہے ۔ اس دوران آپ نے عقائد، فلسفہ اور اصول فقہ ،شرح لمعہ کے دروس میں شرکت کی۔ نجف الاشرف عراق میں آپ کا قیام 12 سالوں پر محیط رہا ۔ آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم الخوئی اور شھید صدر جیسی عظیم علمی شخصیات کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔

اساتذ ہ کرام:

شیخ غلام رسول نجفی مرحوم نے جن اساتذہ کرام سے  استفادہ کیا  ، ان کے نام ہیں:

آیت اللہ  العظمی سید ابو القاسم الخوئی

آیت اللہ العظمی سید روح اللہ خمینی رح

آیت اللہ العظمی سید محسن الحکم

شیخ محمد علی افغانی

حجۃ الاسلام سید مھدی روندی

حجۃ الاسلام شیخ محمد جو کواردو

حجۃ الاسلام شیخ علی شگری

دینی خدمات[ترمیم]

یہ حقیقت ہے کہ دینی اور ملی خدمات کا جذبہ کم و بیش تمام دینی علوم سے وابستہ علما کرام اور طلاب میں موجود ہوتا ہے۔کیونکہ جب بھی کسی مدرسہ یا دینی درسگاہ میں اسے داخلہ ملتا ہے تو ابتدائی دروس میں ہی معرفت خدا وندی ، تزکیہ نفس اور خدمت خلق جیسے موضوعات پرگفتگو ہوتی ہے۔

شیخ غلام رسول نجفی مرحوم زمانہ طالب علمی ( عراق) میں بھی محافل و مجالس کے انتظامات کے سلسلے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے ،سنہ1972 کی دہائی میں آپ نجف سے واپس تشریف لائے یہ وہ وقت تھا کہ جب ارض بلتستان دینی اور دنیاوی علوم کی نعمت سے یکسر محروم تھی اور اس معاشرے کو معلم اور مبلغ کی اشدضرورت تھی ۔ خاص کر جس علاقہ (کتی شو) سے آپ کا تعلق تھا وہاں کے لوگ تعلیمی ، اقتصادی غرض ہر میدان میں زبوں حالی کا شکار تھے۔گاؤں کے 95 فیصد لوگ دین کی بنیادی تعلیمات سے ناآشنا تھے۔ ایسے میں جناب شیخ حسن مھدی آبادی (بانی محمدیہ ٹرسٹ) آپ کے ساتھ کتی شو گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکرآپ نے فرمایا کہ " کتی شو پہلے اندھیرے میں تھا لیکن اب اللہ کے فضل سے روشنی آگئی ہے" کتی شو میں آپ نے باقاعدہ نماز جماعت کا اہتمام کیا۔ بچوں کے لیے قرانی تعلیمات، عقائد اور توضیح المسائل کے دروس بھی شروع کروائے۔ گاؤں کے 80 فیصد لوگوں کو قران کی تعلیم دی۔اس کے ساتھ ساتھ "بوستان سعدی "-جو فارسی اشعار پر مشتمل ایک مفید کتاب ہے، اسے پڑھانا شروع کیا جو اس دور میں طلبہ کو کتابوں سے قریب لانے کے لیے ایک قابل تعریف اقدام تھا۔

شیخ غلام رسول نجفی ایک مایہ ناز خطیب تھے چنانچہ بلتستان کے لگ بھگ 70 سے زیادہ گاؤں میں آپ نے مختلف مناسبتوں میں ،خاص کر ایام عزاء میں مجالس پڑھیں۔ یونین کونسل کتی شو کے تمام گاؤں داپا ، چھٹپا، بلتی کھر ،بروق کھر، سندو، شمائل، کولتور اورقولی وا آپ کے نورانی کلمات سے خاص طور پر مستفید ہوئے ۔ جبکہ کتی شو خاص(گمبہ راہ،گونگمہ راہ) کے آ پ مستقل خطیب تھے۔ آپ مھدی آباد ، سکمیدان سکردو، شگر چھورکا،اور گمبہ سکردو کی امام باگاہوں میں بھی مختلف مناسبتوں میں خطاب فرمایا کرتے تھے۔اس طرح آپ تقریبا 45 سال تک خدمت دین میں مصروف رہے۔

سیاسی خدمات[ترمیم]

علمائے نجف سیاست سے ہمیشہ دور رہتے تھے ۔ ان کے طرز فکر ہمیشہ مذہبی رہا ، خطابت ، درس و تدریس ان کی اولین ترجیحات تھیں۔ اگر چہ علاقہ کے سیاسی نمائندئے ہمیشہ ان علما کرام کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرتے تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ان تمام سازشوں سے دور رکھا۔جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم بھی ان علما میں سے تھے، جنھوں نے کبھی کسی سیاسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کی، البتہ جب سنہ 1997 میں تحریک جعفریہ پاکستان نے ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا ، تو ان کا بھر پور ساتھ دیا ایسے میں جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم کو 5 سال کے لیے یونئن کونسل کتی شو کا صدر منتخب کیا گیا ۔ آپ تحریک جعفریہ پاکستان کے ایک کارکن کی حیثیت سے علاقے میں ہونے والے تمام پروگراموں میں شرکت کیاکرتے تھے۔اس کے علاوہ مرکزی سطح پر ہونے والے پروگراموں میں بھی آپ نے بھرپورنمائندگی کی۔

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات:[ترمیم]

مشکلات انسانی زندگی کا حصہ ہیں ۔  دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے  جس نے  مشکلات کا سامنا نہ کیا ہو۔ چاہے ان کا تعلق امیر طبقے  سے  ہو یا غریب طبقے سے۔ خاص کردینی علوم سے وابستہ علما کرام  کو زیادہ مشکلات کا سامنا  کرنا پڑتا ہے۔بلتستان میں اس وقت کے نجفی علما کرام کافی مشکلات میں رہے۔نجف سے واپسی پر ان علما کرام کے پاس  علو م آل محمد کا خزانہ تو مو جود  تھا لیکن یہ لوگ اقتصادی طو ر پر بد حالی کا شکار تھے۔تاہم انھوں نے جس مقصد  اور ہدف کو سامنے رکھ کر علم دین حاصل کیا  تھا اس پر ثابت قدم رہتے ہوئے تبلیغ ِ دین میں مصروفِ، عمل رہے،یقینا اسی انداز فکر کا نتیجہ ہے کہ بلتستان  کے عوام آج بھی ان  علما  کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

جناب شیخ غلام رسول نجفی مرحوم  کوبھی زندگی میں ایسی ہی مشکلات کا سامنا رہا۔آپ کا تعلق جس علاقے سے تھا وہاں کے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ لوگ  تعلیمی اور اقتصادی   حوالے سے بھی بد حالی کا شکار تھے۔آپ کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں تھ ے جبکہ جسمانی طور پر معذور بھی تھے۔ اس عالم میں آپ نے اس معاشرے میں قدم رکھا۔آپ کے لیے سب سے  مشکل کام جہالت سے نبر آزما ہونا تھا۔کیونکہ لوگ صدیوں سے  جس فرسودہ تہذیب و ثقافت سے وابستہ رہے تھے، ان میں تبدیلی لانا اوراس معاشرے میں اسلامی اقدار کو زندہ کرنا بہت ہی سخت کام تھا۔جن میں بعض اوقات لوگوں کی طرف سے سخت مخالفت  کا سامنا  بھی ہوتاتھا۔ آپ نے ان تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے  خدمت دین  جاری رکھی۔

وفات[ترمیم]

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے آپ محض 64 سال کی عمر میں بیمارہوگئے اورعلاج و معالجہ کے لیے وسائل میسر نہ ہونے کی وجہ سے بروقت علاج بھی نہیں کراسکے۔سنہ 2009 میں جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کوسی ایم ایچ سکردو منتقل کیا گیا، وہاں پر آپ کے پتے کا کامیاب آپریشن ہوا۔ لیکن اس کے ایک سال بعد یعنی 25 نومبر 2010 بمطابق 18 ذی الحج 1431ھ بروز جمعرات کو آپ کی علالت ایک بار پھر شدت اختیارکرگئی ، تب علی الصبح 8 بجے عید غدیر کے پروگرام کے بعد آپ کو ڈی ایچ کیو ہسپتال سکردو منتقل کیا گیا ، لیکن منظور خداوندی کچھ اور ہی تھا لہذا اسی دن سہ پہر 3 بجے آپ اپنے چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑ اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔آپ کے جسد خاکی کو آبائی گاؤں کتی شو منتقل کیا گیا اور وہاں پر آپ کو دفن کیا گیا۔اس وقت آپ کی عمر 74 برس تھی ۔

آپ کی وفات پر قائد بلتستان علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے نماز جمعہ کے خطبہ میں مرحوم کو خراج عقیدت و ہدیہ تعزیت پیش کرتے ہوئےے فرمایا " شیخ غلام رسول ایک عالم باعمل تھے اور ان کے دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں "۔اسی طرح مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی نے بھی آپ کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا اور فرمایا" شیخ رسول مرحوم نجف الاشرف میں ہمارے رفقا میں سے تھے خدا ان کی مغفرت کرے" جبکہ آپ کے قریبی رفقا میں سے شیخ محمد عیسی نجفى بھی تھے انھوں نے شیخ غلام رسول مرحوم کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا" شیخ غلام رسول نجفی صاحب ایک انتہائی باعمل اور خوددار عالم دین تھے،اور انھوں نے سادگی میں زندگی گزاری، علاقہ کتی شو میں ان کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں،انھوں نے پوری زندگی مجالس حسینی کی خدمت میں گزاری"