صارف:Sumirs/ریتخانہ
عرض منصف ایک عرصہ دراز سے میرے دل میں یہ خواھیش تھی کہ پختونون قوم پر ایک کتاب تحریر کروں.مجھے اپنی پشتو زبان سے بہت محبت ہیے. اومید ہیے ہر پختون کو ہوگی.مجھے اس کتاب کے لکھنے سے پہلے کسی اور کتاب کے لکھنے کا موقع نہیں ملا.یہ میری پہلی کتاب ہیے جس پر میں نے قلم اٹھا یا.اس موضوع کے حوالے سے میں نے پشتو کے تاریخی کتابوں میں پہلی کتاب ( تاریخ صوبئہ سرحد) پڑھی.جس سے مجھ میں بھی کتاب لکھنے کا شوق پیدا ہوا اس کتاب کے لکھنے سے پہلے میں نے پشتوزبان میں تحریر کردہ کتابوں کے مصنفین سے ملاقاتیں کیں.جن سے مجھے کتاب لکھنے میں بہت سے معلومات حاصل ہوئی.جن میں سہر فہرست سعادت سحر خٹک کا نام ہیے. جو بہت اچھے منصف اور شاعرہیے.جو خٹک قبیلے کا ایک پھول ہیے. میں سحر صاحب کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی. اور اشرف خان خٹک نے بہت اچھے مشورے دیئے.اسی طرح سعداللہ خان حیران جو پشتوشاعری کا ایک اچھا شاعر ہیے اس کی ایک کتاب (پٹے سلگئی)میں نے مطالعہ کی.تو میں ان سے ملاقات کے لئے ان کے گاوں لاچی گیا.مگر وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ دنیائے فانی سے رخلت فرما چکے ہیں .یہ سن کر بڑا افسوس ہوا.وانااللہ راجعون یہ بات مجھے حیران صاحب کے کزن حافظ امان عاصی نے بتائی.حافظ امان صاحب خود بھی شعرا کے صف میں شامل ہیے. غرض میری بہت اچھے راٹرز اور شعرا سے ملاقاتیں ہوئی.پشتو شاعری کا مایہ ناز شاعر اور صوبائی اسمبلی کا ممبر جناب اجمل خٹک صاحب سے ملاقات کے لئے گیا مگر ملاقات نہیں ہوسکی اگر زندگی نے ساتھ دیاتوانشااللہ تو جناب سے ملاقات ہوجائگی .میں ان تمام لوگوں کی قدر کرتا ہوں جو پشتو زبان کی قدر کرتے ہیں. یمہ پختون شم بہ پختونہ قربان نہ دے پختون چی سوک پختونہ کوئی
( شاعر.امتیازساقی خٹک)
لر او بر خٹک تحریر امتیاز خان
.یہ تحریر ان بہادر خٹکوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی شوبے میں خٹک قوم کانام روشن کیا ہیے.
اسلم خان خٹک
پاکستانی سیاستدان اور بیورکریٹ۔ 5 اپریل 1908ء کو چترال میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد قلی خان تھا جو خود بھی صوبہ خیبر پختونخوا کے سیاسی رہنما تھے۔ اسلم خٹک نے اکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی زمانے میں چوہدری رحمت علی کے اس مشہور کتابچے اب یا کبھی نہیں کی تدوین میں ان کا ہاتھ بٹایا، جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان تجویز کیا گیا۔ اس کے علاوہ رائل سوسائٹی لندن کے فیلو بھی رہے۔ حصول تعلیم کے بعد ریڈیو سٹیشن پشاور کے پہلے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ بعد ازان محکمہ تعلیم صوبہ سرحد کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ڈائریکٹر صنعت و حرفت کی حیثت سے ریٹائر ہوئے۔ 1957ء تا 1959ء افغانستان اور 1960ء تا 1961ء عراق میں پاکستان کے سفیر رہے۔ 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1971ء میں سرحد اسمبلی کے رکن بنے۔ مئی 1972ء تا فروری 1973ء سرحد اسمبلی کے سپیکر رہے اور 1973 تا مئی 1974ء صوبہ سرحد کے گورنر رہے۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لاء کے دور میں مجلس شوری کے رکن اور صوبہ سرحد مجلس شوری کے نائب چیرمین نامزد ہوئے۔ 1985ء کی غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ محمد خان جونیجو کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں بھی کابینہ میں شامل رہے۔ مواصلات جیسی اہم وزارت ان کے پاس رہی۔ بعد کے الیکشنز میں نواز شریف سے علیحدہ ہو کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے داماد نوابزادہ محسن علی خان بھی صوبہ سرحدکے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ عمرکے آخری حصے میں سیاست سے دستبردار ہوگئے۔ اپنے علاقے کرک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ انڈس ہائی وے جیسا منصوبہ بھی ان کی وزارت میں شروع ہوا۔ جس نے کرک جیسے پست ماندہ علاقے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ پانی اور بجلی کی سہولیات کے نظام کو بھی کرک میں بہتر بنایا گیا۔ متعدد کتابوں کے مصنف رہے ۔ اردو پنجابی ، پشتو ، انگریزی ، فرانسیسی اور فارسی بولنے اور لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔اکتوبر 2008ء میں ان کا انتقال ہوا۔
(خدرخیل)
خدرخیل. . . ضلع کوہاٹ سے30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں کا نام ہے۔اس کا ضلع کوہاٹ اورتحصیل لاچی ہے۔ اس گاؤں کی سرحدیں ڈھوڈہ شریف۔مسلم آباد مندوری. درویزی بانڈہ شیخ بلندبانڈہ آور داودخیل سےملے ہوئی ہے، یہاں کی زراعت کا انحصار ذیادہ تر بارشوں پر ہے۔اس گاؤں میں ایک ہائی سکول مردانہ آور ایک زنانہ ہائی اسکول ہے،تین پرائمری سکول، ایک ڈاکخانہ سرکاری ہسپتال اور ٹیلیفون ایکسچیج ہے۔ افراسیاب خٹک، ایڈوکیٹ طارق ماما، اور ایس پی فضل حسین خان اس گاؤں مشہور شخصیات ہیں۔اس گاؤں میں سب سے زیادہ گندم کی کاشت ہوتی ہے۔ دوسری بڑی فصل موم پلی ہے لیکن ایرفورس نے فائرنگ رینج کے لئے 42000 کنال زیرکاشت زمین خریدی جس کے بعد مونگ پلی کی کاشت تقریبا ختم ھوگئی۔ ایئرفورس نے جس زمین پر قبضہ کیا وہ درویزی ڈیم سے سیراب ہوتی تھی اب وہ ڈیم کسی کام کا نہیں رہا۔ خدرخیل کی تاریخ[ترمیم]
خدرخیل تحصیل لاچی سے 12 کلومیٹر مشرق میں واقع ایک گاؤں ھے. جس کی آبادی 5000 سے ذیادہ ھے جو تمام خٹک قوم سے تعلق رکھتے ھیں یہ اس گاوں کی تاریخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے کہ تقصیم ھند سے پہلے یہاں کی ادھی آبادی ہندو تھی.
یہ گاوں تین بڑے محلوں میں تقصیم ھے. محلہ مالکان. محلہ کشیدخیل. محلہ لداخیل. محلہ مالکان.. میں طارق ماما شیرین دلخان (عرف کانے ) ملک عجب خان گل سری خان رحمت خان ذوالفقار علی خان فریدخان میجرعنایت خان میجر ڈاکٹر اورنگزیب کرنل امتیاز کرنل ھارون اور خالد خان جو کسی ملک میں سفیر ھے وغیرہ وغیرہ اہم شخصیات ہیں.
ملک عارف pti حلقہ پی کے 39 کے صدرکا تعلق بھی محلہ مالکان سے ھے.
محلہ کشیدخیل.. یہ محلہ گاوں جنوب میں واقع ھے اس محلے کی مشہور شخصیات میں ملک ta خان سیف الرحمن جو فارن افس میں ملازمت کرتا ہے. امین خان میاں شریف خان کمال شاہ خلیل الرحمن حبیب خان عنایت اللہ اور پتھر کے مشہور کاریگر مہمندخان اس محلے میں رہتے ھیں.
محلہ لداخیل... یہ محلہ گاوں کے مشرقی طرف میں واقع ایک بڑا محلہ ھے اس کی آبادی باقی دونوں محلوں کے تقریبا برابر ھے sp فضل حسین خان شمس العارفین سکول ٹیچر گل شہزادہ احمدگل رحمت علی شاہ قیوم خان ڈاکٹر نعیم رشید خان وغیرہ وغیرہ اس محلے کے باشندے ھیں. علی خان خیل
حضرت ڈانڈفقیر باباحضرت ڈانڈ فقیر بابا کا مزار ہے جو علی خان خیل کے اونچے پہاڑ جٹہ پر واقع ہے.یہاں پر ایک خوبصورت تالاب ہے جس میں سال کے 12مہینے پانی ہوتا ہے۔
حضرت عمر خان نیکہحضرت عمر خان نیکہ کے عمر کا بشتر حصہ تبلیغ دین کرتے ہوئے گذرا .عمر خان نیکہ حضرت سید علی ترمذی (پیر بابا) کے مرید اخونددرویزہ کے مرید تھے.انہوں نے تبلیغ اسلام کیلئے کئی ملکوں کے اسفار کئے. آج کل ضلع کرک کے گاوں جٹہ علی خان خیل میں ان کا مزار ہے.ان کے مزار کے گرد ایک چھو ٹی سی چاردیواری ہے جو سادے پتھروں سے بنائی گئی ہے
میرے غزل