علی عباس حسینی
علی عباس حسینی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 فروری 1893ء غازی پور ضلع ، اتر پردیش |
تاریخ وفات | 27 ستمبر 1969ء (76 سال) |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | الہ آباد یونیورسٹی |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | افسانہ نگار ، ادبی نقاد ، ڈراما نگار ، معلم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
علی عباس حسینی بھارت سے تعلق رکھنے اردو زبان کے نامور ترقی پسند افسانہ نگار،نقاد، معلم، مترجم اور ڈراما نویس تھے۔ وہ 3 فروری 1897ء کو موضع پارہ، ضلع غازی پور ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ مشن ہائی اسکول الہ آبادسے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کیا۔کیننگ کالج لکھنؤ سے بی اے مکمل کرنے کے بعد جامعہ الہٰ آباد سے تاریخ میں ایم اے کیا۔گورمنٹ جوبلی کالج لکھنؤ میں درس وتدریس سے وابستہ رہے۔یہیں سے 1954 میں پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔27 ستمبر 1969ء کو ان کا انتقال ہوا۔علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دلچسپی تھی۔ دس گیارہ برس کی عمر میں الف لیلہ کے قصے ،فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو میں لکھے جانے والے دوسرے افسانوی ادب کا مطالعہ کر چکے تھے۔ 1917ء میں پہلا افسانہ غنچۂ ناشگفتہ کے نام سے لکھا۔ اور 1920 میں ’سر سید احمد پاشا‘کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول’قاف کی پری‘ لکھا۔’شاید کہ بہار آئی‘ ان کا دوسرا اور آخری نال ہے۔ رفیق تنہائی،باسی پھول،کانٹوں میں پھول،میلہ گھومنی،ندیا کنارے،آئی سی ایس اور دوسرے افسانے،یہ کچھ ہنسی نہیں ہے،الجھے دھاگے،ایک حمام میں، سیلاب کی راتیں کے نام سے افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے۔ ایک ایکٹ کے ڈرامے ان کے ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ علی عباس حسینی کی ایک پہچان فکشن کے نقاد کے طور پر بھی قائم ہوئی۔ انھوں نے پہلی بار ناول کی تنقید و تاریخ پر ایک ایسی مفصل کتاب لکھی جو آج تک فکشن تنقید میں حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عروس ادب کے نام سے ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ شائع ہوا۔[1][2][3]