لسانیات میں خواتین
ماہر السنہ ہونا، زبان دانی میں غیر معمولی مہارت اور قواعد و نحو کی تاریخ یا مختصرًا لسانیات میں خواتین کے رول کی تاریخ غالبًا کافی پرانی ہے، کیوں کہ زبانیں، خواہ وہ رواں اور زندہ ہوں یا مردہ ہو چکی ہوں، ان کا سیکھنا، پڑھنا اور استعمال کرنا تحریری تاریخ سے کافی پہلے سے چلا آ رہا ہے اور عورتیں انسانی معاشرے کا ہمیشہ سے حصہ رہی ہیں۔ یہ ایک دوسری بات ہے کہ کئی معاشروں میں قدیم دور میں عورتوں کی تعلیم اور خواندگی پر کم توجہ دی گئی تھی۔ امریکی مؤرخین کے مطابق ساکاگاوی نامی ایک خاتون وجودہ لوسیانا میں لوئس اور کلارک کی مہم میں 1804ء میں معاون ہوئی تھی۔ اس مہم کا مقصد وہاں کے امریکی قبائل سے بات کرنا تھا جو صرف اپنی زبان جانتے تھے، جس سے یہ مہم جو حضرات یکسر نابلد تھے۔ ساکاگاوی، جو اس وقت خود ایام حمل سے گذر رہی تھی، لوئس اور کلارک کے لیے معاون اور مترجم کا کام انجام دی۔ وہ اپنے شوہر ٹروسینٹ شاربونو کے ہمراہ شوشون زبان کی مترجم کا کام کر رہی تھی۔ زبان دانی کے علاوہ نامعلوم مقام پر کھانے کے قابل پودوں کی شناخت کرتے ہوئے اسے مہم جوؤں کی جان بچانے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ [1]
کیرل چاؤسکی
[ترمیم]جدید طور پر کئی خواتین لسانیات اور ترجمہ کے میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں۔ تاہم ان میں امریکی نژاد ناؤم چاؤسکی کی اہلیہ کیرل چاؤسکی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ حالاں کہ شوہر لسانیات کو ایک مجرد شعبہ قرار دیتے ہیں، کیرل نے اس میں بچوں کی زبان اخاذی پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ انھوں نے اولین تحقیق کی تاسیس رکھی جو اس موضوع پر ہوئی اور بچوں میں لسانی ارتقا کے پیچیدہ مراحل کو کم تر پیمائش کردہ بتایا، جیسے کہ یہ طے کرنا کہ وہ زبان کی ترتیب کی سمجھ کیسے اخذ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریری لفظ کے بچوں کے پڑھنے پر بھی کام کیا۔ انھوں نے متواتر پڑھنے کی ایک تکنیک ایجاد کی جس سے بچے پڑھنے میں مزید روانی لا سکتے ہیں۔ [1]