محمد نور عالم چشتی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

حافظ محمد نور عالم چشتی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔


حافظ محمد نور عالم چشتی
ذاتی
پیدائش(1248ھ بمطابق 1823ء)
کڑی شریف سنگھوئی جہلم
وفات(3 رمضان 1311ھ بمطابق 10 مارچ 1894ء)
کڑی شریف سنگھوئی جہلم
مذہباسلام
والدین
  • حافظ غلام علی (والد)
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامکڑی شریف سنگھوئی جہلم
دورانیسویں صدی
پیشروشمس العارفین
جانشینحافظ عبد الحمید

ولادت[ترمیم]

محمد نور عالم کی ولادت 1248ھ بمطابق 1823ء کو کڑی سنگھوئی ضلع جہلم میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا نام حافظ غلام علی تھا۔ خاندانی سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے۔

تعلیم اور اساتذہ[ترمیم]

محمد نور عالم کے والد ماجد ان کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔ آپ کے برادر کلاب حافظ غلام مصطفی آپ کو ملوانہ ضلع گجرات میں حافظ ہست ملوانوی کے پاس چھوڑ آئے۔ جہاں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور چند ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ بعد ازاں اپنے عم زاد حافظ الہ دین ساکن سود نواحی ڈنگہ ضلع گجرات کے ہمراہ بڑی محنت و مشقت سے دہلی پہنچے۔ وہاں تھوڑا عرصہ قیام کیا کہ آپ کو پتہ چلا میکی ڈھوک ضلع اٹک میں مولانا عبید اللہ کا مدرسہ ہے جہاں صرف و نحو اور اصول حدیث و فقہ پر خوب محنت کی جاتی ہے تو آپ اپنے اساتذہ کی اجازت سے میکی ڈهوک تشریف لے آئے۔ میکی ڈھوک میں آپ کی تشنگی علم تسکین نہ پاسکی۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ کرسال شریف ضلع چکوال میں قاضی احمد الدین کر سالوی نے مسند درس و تدریس بچھائی ہوئی ہے تو آپ باجازت استاد گرامی میکی ڈھوک سے کر سال شریف پہنچے اور بارہ سال کے عرصہ میں علوم متداولہ پر دسترس حاصل کی۔ سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد قاضی احمد الدین کر سیالوی کے ارشاد کے مطابق چار سال آپ کے مدرسہ میں درس دیا اور آپ کے خصوصی مشیر رہے۔

قرآن مجید کی برکت سے بینائی لوٹ آئی[ترمیم]

جب حافظ محمد نور عالم میکی ڈھوک سے کرسال شریف کے لیے روانہ ہوئے تو دوران سفر قاضی احمد الدین کر سالوی کی علالت اور بینائی سے محرومی کا سن لیا لیکن آپ شوق زیارت لے کر قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ قاضی صاحب ایک درخت کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور بینائی سے محروم ہیں۔ آپ نے بصد ادب سلام عرض کیا۔ آپ کے استفسار پر طلب علم ہونا اور حصول علم کی تڑپ کا اظمار اپنے الفاظ میں عرض کیا۔ قاضی احمد الدین کرسالوی نے بینائی کی محرومی اور آنکھوں کے درد شدت کی وضاحت کی تو آپ نے عرض کیا : حضور! میں نے راستہ میں آپ کے تفصیلی حالات سے آگاہی حاصل کرلی تھی لیکن شوق زیارت کشاں کشاں آپ کی خدمت معلی میں لے آیا۔ آپ بڑے خوش ہوئے اور فرمایا : کیا نام ہے؟ آپ نے اپنا نام بتایا۔ پھر تعلیم کے متعلق پوچھا۔ آپ نے حفظ القرآن اور باقی تعلیم کے بارے میں وضاحت کے ساتھ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا :حافظ! تم بہت نیک لڑکے معلوم ہوتے ہو۔ تم ہی دم کرو شاید اللہ تعالی شفا عطا فرما دے۔ حافظ محمد نور عالم نے قرآن مجید کی سات منازل کے مطابق تلاوت کی اور ہر منزل کے اختتام پر پھونک مارتے رہے۔ ساتویں منزل کے اختتام پر قاضی احمد الدین کی آنکھوں کا مرض کافور ہو گیا اور بینائی عود کر آئی بلکہ پہلے سے بینائی تیز ہو گئی۔ قاضی صاحب آپ کی اس کرامت سے بہت مسرور ہوئے۔

سیال شریف حاضری[ترمیم]

یہ وہ دور تھا کہ خواجہ شمس العارفین سیالوی کا شہرہ پنجاب کے گوشہ گوشہ میں اور باقی علاقوں میں دور دراز تک پھیل چکا تھا۔ علما، سادات اور امرا و رؤسا کا ایک طبقہ آپ کے علم اور ولایت سے فیض یاب ہورہا تھا۔ دونوں استاد شاگرد حافظ نور عالم اور قاضی احمد الدین عازم سیال شریف ہوئے۔ سیال شریف کے قیام کے دوران میں قاضی احمد الدین کر سالوی کو بائیں طرف شدید درد شروع ہو گیا۔ قاضی صاحب نے اپنے محبوب شاگرد کو خواجہ سیالوی کی خدمت معلی میں بھیجا۔ آپ نے لنگر شریف کے ماہر طبیب کو حکم فرمایا کہ قاضی صاحب کا علاج معالجہ کریں۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھنا چاہی تو قاضی صاحب نے فرمایا : حکیم صاحب خواجہ سیالوی سے عرض کریں کہ اس درد کا علان دہلی کے نامور علما سے کروا چکا ہوں۔ اگر آپ کے پاس روحانی علاج ہے تو کریں۔ حکیم صاحب نے خواجہ سیالوی کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ساری بات بیان کی۔ حضرت اپنی مسند سے اٹھے کہ قاضی احمد الدین کے پاس تشریف لائے۔ قاضی صاحب درد کی شدت سے تکلیف میں تھے۔ خواجہ سیالوی نے فرمایا : قاضی جی درد کہاں ہے؟ قاضی صاحب نے درد کی جگہ پر ہاتھ رکھا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہاں تو کوئی درد نہیں ہے۔ یہ ارشاد فرمانا تھا کہ درد ایسا گیا کہ پھر ساری زندگی یہ درد نہ ہوا۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

جب قاضی احمد الدین کرسالوی کا جام عقیدت لبریز ہو گیا تو بیعت کی درخواست کی۔ خواجہ سیالوی نے بیعت سے مشرف فرمایا۔ حافظ محمد نور عالم نے بھی نہایت انکسار سے بیعت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا حافظ صاحب! آپ تو ہمارے پہلے ہی مرید ہیں۔ چنانچہ قاضی احمد الدین کر سالوی کو تو چالیس دن رکھا اور خرقہ خلافت عطا فرما کر الوداع کیا اور مولانا حافظ محمد نور عالم کو چار سال بعد خلافت و اجازت سے نوازا۔

شیخ سے محبت[ترمیم]

حافظ نور عالم کو اپنے شیخ کامل سے کمال درجہ کی عقیدت اور محبت تھی۔ پیادہ سیال شریف تشریف لے جاتے۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی بھی آپ پر بے حد نوازش فرماتے تھے۔ جب کبھی آپ کی محفل پاک میں مولانا حافظ نور عالم کا ذکر ہوتا تو خواجہ سیالوی آپ کے درع و تقوی اور عملی قوت کا ذکر فرمایا کرتے۔

انداز تبلیغ[ترمیم]

نور عالم چشتی کا انداز تبلیغ و ارشاد ہمیشہ فاضلانہ اور علم پر محمول نظر آتا ہے۔ جس نے عامتہ الناس کو آپ کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔ ایسے سادہ اور موثر انداز میں ارادت مندوں اور دیگر شناسا لوگوں کو سمجھایا کرتے تھے کہ وہ نہی عن المنکر پر صرف کاربند نہ ہوئے بلکہ امر بالمعروف کے مظہر بن گئے۔ آپ جلال پور شریف سے پیدل تشریف لا رہے تھے کہ موضع بھمبر کی مزروعہ زمینوں میں دو آدمی ماه رمضان المبارک میں حقہ پی رہے تھے۔ ان آدمیوں نے جب آپ کو دیکھا تو حقہ کو لات مار کر گرا دیا۔ منہ نیچا کر کے کن انکھیوں سے دیکھنے لگے۔ آپ نے اپنی چادر مبارک کا پردہ ان کی طرف کرتے ہوئے آہستہ سے فرمایا پردہ ہونا چاہیے۔ ان دونوں پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ کافی دیر روتے رہے۔ آخر فیصلہ کیا کہ آئندہ ہم بھی اور گھر والوں کو پابند صوم و صلوة بنائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی انھوں نے کیا اور اس طرح کئی گھروں نے ان سے ہدایت حاصل کی۔

درس و تدریس[ترمیم]

حافظ نور عالم چشی بعد از بیعت و خلافت خواجہ سیالوی کے ارشاد کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ کرسال شریف سے فراغت کے بعد کڑی شریف میں تعلیم و تدریس کی مسند بچھائی۔ بعد ازاں موضع جانی چک متصل ڈنگہ ضلع گجرات کے روساء اپنے پاس لے گئے اور آپ نے وہیں درس و تدریس اور تبلیغ و ارشاد کا سلسلہ جاری فرمایا۔ بقول مولانا غلام جیلانی ساکن دهلیان ضلع گجرات حافظ الہ دین ولد حافظ غلام مرتضی ساکن کوٹ بلوچ نزد منڈی بہاء الدین نے جانی چک میں آپ سے درس لیا اور علوم در سیہ کی تکمیل کی۔ اس کے بعد جلالپور شریف محبوب سبحانی جلال پوری کے مدرسہ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ اس دوران مولانا نور الدین چکوڑوی نے اپنے فرزند ارجمند خواجہ محمد امین چکوڑوی کی تعلیم کے لیے چند اشخاص بھیج کر بلوایا لیکن آپ نے معذرت کر دی۔ بعد ازاں کڑی شریف میں بھی سلسلہ درس و تدریں جاری رکھا۔

تلامذہ[ترمیم]

چند معروف تلاند ہ کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. سید محمد قائم الدین شاہ جلال پوری
  2. قاضی محمد عبد الباقی کرسالوی
  3. مولانا محمد عبد الرحیم ساکن کڑی شریف (پسر)
  4. مولانا سید نیک عالم شاہ ساکن کوٹلی شہانی ضلع جہلم
  5. مولانا محمد عالم ساکن سنگهوئی تحصیل و ضلع جہلم
  6. مولانا حفظ اللہ دین ساکن کوٹ بلوچ ضلع گجرات
  7. مولانا محمد امین ساکن کھرکا تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
  8. مولانا عبد اللہ ساکن جانی چک ضلع گجرات
  9. مولانا احمد شاه ساکن دیالی علاقہ پٹھوار راولپنڈی
  10. مولانا محمد امین ساکن کڑی شریف (پسر)

کتب خانہ[ترمیم]

محمد نور عالم چشتی کا ایک بہت ہی قیمتی اور نادر کتب خانہ تھا جس میں ہر نوع کی کتب موجود تھیں۔ اس کتب خانہ کے واحد مالک مولانا حافظ نذر حسین شاہ فاروقی (پوتا) ہیں۔ حافظ صاحب موصوف عالم و فاضل اور شعبہ تصنیف وتالیف سے تعلق رکھتے ہیں۔ خطیب بھی چوٹی کے ہیں۔

سیرت و کردار[ترمیم]

حافظ محمد نور عالم چشتی منکسر المزاج اور عاجزی پسند تھے۔ اپنے تلامذه اور مریدین کو ہمیشہ سادی زندگی گزارنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور خود بھی نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ مختلف کتب پر جو مختلف مضامین کی تھیں آپ نے اپنے دست مبارک سے بہت سے مشکل مقامات کی تشریح لکھی ہے۔ بہ نفسی کا یہ عالم ہے کہ نام تک درج نہیں۔ بلند اخلاقی کی یہ کیفیت تھی کہ آپ ہر مخالف و موافق سے مفید انداز میں پیش آیا کرتے تھے۔ جس سے وہ بے حد متاثر ہوتا تھا۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی نے آپ کو یوں سند اعتماد عطا فرمائی : مولوی نور عالم متورع و متقی صوفی اور عالم باعمل ہیں۔ آپ جید حافظ اور قاری قرآن مجید تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جید عالم باعمل اور حافظ الحدیث تھے۔ علم کا غلبہ کچھ ایسا تھا کہ اس میں محویت کا درجہ تھا۔ آپ کے درس میں ہروقت علمی و روحانی محفلیں رہا کرتی تھیں۔ معاصرین علما و مشائخ سے روابط کا یہ عالم تھا کہ ضلع گجرات جہلم اور دیگر اضلاع کے علما و فضلاء کی اکثر آپ کے پاس آمدورفت رہتی تھی۔

وصال[ترمیم]

حافظ محمد نور عالم چشتی کا وصال 3 رمضان 1311ھ بمطابق 10 مارچ 1894ء کو بروز اتوار ہوا۔ آپ کا مزار کڑی شریف سے جانب جنوب ایک بختہ چار دیواری میں موجود مرجع خلائق ہے۔

اولاد[ترمیم]

حافظ محمد نور عالم چشتی کی شادی ایک مجذوب صفت بزرگ مولانا حافظ الہ دین موضع ڈهليان نواحی ڈنگہ کی صاجزادی سے ہوئی۔ جن کے بطن سے تین فرزند اور دو صاجزادیاں پیدا ہوئیں۔ جن کے نام اس طرح ہیں۔

  1. محمد عبد الرحیم
  2. مولانا محمد امین
  3. مولانا حافظ عبد المجيد (سجادہ نشین)
  4. عائشہ بی بی
  5. فضل بیگم [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 469 تا 477