مرزا حسین تہرانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

آیۃ اللہ العظمی ٰمرزا حسین تہرانی ایک اصولی شیعہ فقیہ تھے اور ایرانی جمہوری انقلاب کے وقت اہل تشیع کے چارمراجع میں سے تھے۔ انھوں نے آخوند خراسانی اور شیخ عبداللہ مازندرانی کے ساتھ مل کر ایشیا کے پہلے جمہوری انقلاب، یعنی 1907 میں آنے والے ایران کے انقلاب مشروطہ کی حمایت کی اور جمہوریت کی حمایت میں نجف کے حوزے سے جاری ہونے والے آخوند خراسانی کے تمام اہم بیانات پر تائیدی دستخط کیے۔ [1]

علمی و سیاسی خدمات[ترمیم]

آیات ثلاث: (دائیں سے بائیں) آیۃ اللہ العظمی ٰ شیخ عبد الله مازندرانی، آیۃ اللہ العظمی ٰ مرزا حسین تہرانی اور آیۃ اللہ العظمی ٰ آخوند خراسانی

1891 میں وہ مرجع بن گئے اور 1895 میں مرزا شیرازی کے انتقال کے بعد سے ان کا شمار عظیم فقہا میں ہونے لگا اور تہران کے بہت سے لوگوں نے ان کی تقلید اختیار کی۔ [2] جب پارلیمنٹ شاہی دربار کے عالم شیخ فضل اللہ نوری کے تکفیری پروپیگنڈے کی زد میں آئی تو مرزا تہرانی نے نجف کے دیگر فقہا کے ساتھ مل کر جمہوریت کا ساتھ دیا اور جمہوریت کے حق میں کلامی اور فقہی دلائل بیان کیے۔ [3] انھوں نے غیبت کے دور میں 'نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے ' کے قرآنی حکم پر زور دیا، اوراسے جمہوریت کا جواز قرار دیا اور جمہوری آئینی تحریک کی مخالفت کو ' امام زمانہ کے خلاف جنگ' قرار دیا۔ [4] آخوند خراسانی ، مرزا حسین تہرانی اور شیخ عبد اللہ مازندرانی ، نے امام مہدی کی غیبت میں مذہبی سیکولرازم کا تصور پیش کیا، جو آج بھی نجف اور قم کے شیعہ مراکز میں حاکم ہے۔ [5]

23 جون 1908 کو محمد علی شاہ قاجار کی درخواست اور مولوی فضل الله نوری کے فتوے پر پہلی پارلیمنٹ پر روسی بمباری سے لے کر 16 جولائی 1909 کو شاہ کی معزولی تک کے دور کو جدید ایران کی تاریخ میں استبداد صغیر کہا جاتا ہے۔ شاہ نے غیر دینی حلقوں سے لڑنے اور اسلام کا دفاع کرنے کا بہانہ بنا کر انتخابات کو ملتوی کیاتھا۔ محمد علی شاہ نے اپنے اس غیر آئینی اقدام کے حق میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے نجف میں موجود مراجع تقلید کو خطوط لکھے، جن میں بابیوں اور دیگر غیر مسلموں کی سازشوں کا خوف دلا کر حمایت کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم، آخوند خراسانی، مرزا تہرانی اور مرزا عبد اللہ مازندرانی نے جمہوریت کے حق میں فتوے دیے اور شاہ کو معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے اور نوآبادیاتی مداخلت کے خلاف ملک کا دفاع کرنے کے لیے آئینی فریم ورک کے اندر کام کرنے کا مشورہ دیا۔ [6]

وفات[ترمیم]

ان کا انتقال 1908ء میں ہوا [1]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Farzaneh, Mateo Mohammad (2015). “The Iranian Constitutional Revolution and the Clerical Leadership of Khurasani”. Syracuse, New York: Syracuse University Press. p. 13. ISBN 978-0-8156-5311-0.
  2. Hermann, Denis (1 May 2013). “Akhund Khurasani and the Iranian Constitutional Movement”. Middle Eastern Studies. 49 (3): p. 440. doi:10.1080/00263206.2013.783828. ISSN 0026-3206.
  3. Mangol Bayat (1991)۔ Iran's First Revolution: Shi'ism and the Constitutional Revolution of 1905-1909۔ Studies in Middle Eastern History۔ Oxford, New York: Oxford University Press۔ صفحہ: 181۔ ISBN 978-0-19-506822-1 
  4. Hermann, Denis (1 May 2013). “Akhund Khurasani and the Iranian Constitutional Movement”. Middle Eastern Studies. 49 (3): p. 435. doi:10.1080/00263206.2013.783828. ISSN 0026-3206.
  5. Ghobadzadeh, Naser (17 October 2013). “Religious secularity: : A vision for revisionist political Islam. Philosophy & Social Criticism. 39 (10): p. 1009. DOI:10.1177/0191453713507014. ISSN 0191-4537.
  6. Bayat, Mangol (1991). Iran's First Revolution: Shi'ism and the Constitutional Revolution of 1905-1909. Studies in Middle Eastern History. Oxford, New York: Oxford University Press. p. 232. ISBN 978-0-19-506822-1.