مندرجات کا رخ کریں

معجم الکبیر طبرانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معجم الکبیر طبرانی
(عربی میں: المعجم الكبير ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مصنف سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

المعجم الکبیر اہل سنت کے مشہور اور مستند عالم ابو القاسم امام طبرانی کا مرتب کیا ہوا احادیث کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 25 جلدوں میں 7800 صفحات پر مشتمل ہے۔

حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (360ھ) نے معجم کے نام سے تین کتابیں لکھیں (معجم کبیر، معجم اوسط اور معجم صغیر) یہ ان کی مشہور و معروف تصانیف ہیں جو علم حدیث کی بلند پایہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں، محدثین کی اصطلاح میں معجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں شیوخ کی ترتیب پر حدیثیں درج کی گئی ہوں۔اس کتاب میں امام طبرانی نے اپنے شیوخ کی روایات کو جمع کیا اور ان کے ناموں کو حروف معجم پر مرتب کیا۔

اس میں صحابہ کرام کی ترتیب پر ان کی مرویات شامل کی گئی ہیں۔ اور اس میں مشہور صحابی ابو ہریرہ (ف59ھ) جن کی مرویات کی تعداد 5374 ہے اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ وہ مصنف نے علاحدہ کتاب لکھی ہے، یہ کتاب 12جلدوں میں ہے اور اس میں 60 ہزار احادیث جمع کی ہیں۔[1] اس کتاب کو اکبر معاجم الدنیا کہا جاتا ہے یعنی دنیا کی سب سے بڑی معجم کا خطاب ملا ہے محدثین کے ہاں جب مطلق لفظ معجم بولا جاتا ہے تو یہ معجم مراد لی جاتی ہے اگر کوئی اور معجم مراد ہو تو ساتھ نام کی قید لگائی جاتی ہے۔[2]

موضوعِ کتاب

[ترمیم]

کتاب المعجم الكبير امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی کی سب سے بڑی حدیثی تصنیف ہے، جس کا بنیادی موضوع صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی معرفت اور ان کی روایات ہے۔ امام طبرانی فرماتے ہیں:

> "یہ کتاب ہم نے ان تمام افراد کے ذکر کے لیے تالیف کی ہے جن تک ہماری رسائی ہوئی اور جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، خواہ مرد ہوں یا عورتیں اور ان سب کے ناموں کو ہم نے حروفِ تہجی کے مطابق مرتب کیا ہے: الف، باء، تاء، ثاء۔"

شرطِ مصنف اور منہج

[ترمیم]

امام طبرانی نے اس کتاب میں درج ذیل اصول و ضوابط کی پابندی کی: صحابہ کے ناموں کو حروفِ معجم کے اعتبار سے مرتب کیا۔ ہر صحابی، خواہ مرد ہو یا عورت، سے ان کی روایت کردہ احادیث میں سے ایک، دو یا تین یا حسبِ روایت زیادہ احادیث ذکر کیں۔

جن صحابہ کی روایات کم تھیں، ان کی تمام مرویات ذکر کیں۔ جو صحابہ روایات نقل نہیں کرتے تھے لیکن جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد یا صحبت کا ذکر آتا ہے، انھیں بھی ذکر کیا—اور ان کی فضیلت و سوانح دوسرے صحابہ کی مرویات سے بیان کی۔ امام طبرانی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کو الگ "مسند أبي هريرة" میں جمع کیا، اس لیے اس کتاب میں ان کا مسند شامل نہیں کیا۔

حافظ ذہبی فرماتے ہیں: > "اس میں ابو ہریرہ کا مسند شامل نہیں اور نہ اس نے محدثین صحابہ کی تمام روایات کو جمع کیا۔" امام طبرانی کا بنیادی مقصد صحابہ کرام کی شناخت، ان کی فضیلت اور ان سے مروی احادیث کا تعارف تھا، نہ کہ تمام روایات کو اکٹھا کرنا، خصوصاً محدث صحابہ کی۔[3] [4]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ذہبی تذکرۃ الحفاظ۔ شاہ عبد اللہ العزیز محدث دہلوی بستان المحدثین
  2. الرسالہ المستطرفہ، مؤلف: ابو عبد اللہ جعفر الكتانی، ناشر: دار البشائر الإسلامیہ
  3. أبو القاسم سليمان بن أحمد الطبراني۔ حمدي السلفي (مدیر)۔ المعجم الكبير (بزبان عربی)۔ القاهرة: مكتبة ابن تيمية
  4. شمس الدين الذهبي۔ سير أعلام النبلاء (بزبان عربی)۔ بيروت: مؤسسة الرسالة۔ ج 16۔ ص 119