محترم مزمل الدین صاحب السلام علیکم،
سندھ کے مشہور و معروف عالم دین، یگانہ روزگار شخصیت اور شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کی شخصیات پر مضمون لکھتے ہوئے مجھے کچھ عجیب سے تجربات محسوس ہوئے۔ وہ تجربات میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ جب ناچیز نے یہ مضمون شروع کیا تو میرے ہاتھ کانپنے لگے (حالاں کہ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا اور کچھ لوگ اسے میری مبالغہ آرائی تصور کریں گے)، دل میں آیا کہ تم ناچیز (یعنی میں) مخدوم صاحب پر جتنا بھی لکھ لوں وہ کم ہے اور مخدوم صاحب کی شخصیت کا احاطہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ دوسرا احساس یہ تھا کہ راقم نے جب یہ مضمون شروع کیا تو میرا ارادہ مخدوم صاحب کی تالیفات کو آخر میں اور مختصراً صرف نام لکھنا کا تھا اور اس ترتیب کو قائم کرنے میں، میں کامیاب بھی ہوگیا۔ لیکن ایک انہونی یہ ہوئی کہ تالیفات کا دائرہ بڑھ گیا اور وہ آپ کے سامنے ہے (اور یہ ابھی ابتدا ہے کیوں کہ مخدوم صاحب کی تالیفات کی تعداد 100 سے زیادہ ہے اور زیادہ تر عربی زبان میں ہیں)۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں تالیفات کا باب مکمل کرسکوں گا یا نہیں۔ آپ دعا کریں کہ مضمون مکمل ہو اور مخدوم صاحب کی شخصیات کے شایانِ شان ہو۔ یاد رہے کہ اس مضمون کی تیاری میں میرے تایا محترم پروفیسر میر محمد سومرو کی ذاتی دلچسپی بھی شامل ہے اور ان کی ہمت افزائی بھی۔ تمام کتب جو اس مذکورہ مضمون میں حوالاجات کے کام آئیں ہیں وہ بھی میر محمد سومرو کی عطا کردہ ہیں۔ میر محمد سومرو سے اس مضمون کے حوالے سے بہت سی نشتیں ہوئیں اور انہوں نے میری بہت رہنمائی کی۔ آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اس مضمون کو ایک نظر دیکھ لیں اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔