ڈبلیو زیڈ احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈبلیو زیڈ احمد
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 20 دسمبر 1916ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 اپریل 2007ء (91 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فلم ہدایت کار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

وحیدالدین ضیاالدین احمد کی پیدائش 20 دسمبر 1915ء کو لاہور میں ہوئی۔ اُن کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں وسطی اور جنوبی ہند کے مختلف اضلاع میں متعین رہے اور وحید الدین کو بھی گجرات میں قیام کے دوران فلم سازی کے چیلنج کا سامنا ہوا۔

کام کی ابتدا انھوں نے 1939ء میںاسکرپٹ رائٹنگ سے کی لیکن جلد ہی انھیں محسوس ہو گیا کہ ان کے لکھے ہوئے مناظر کو درست طریقے سے سکرین پر منتقل نہیں کیا جاتا چنانچہ اگلے تین سال کے اندر اندر انھوں نے پونا اور مدراس میں اپنے سٹوڈیو تعمیر کرلیے اور فلم سازی کا باقاعدہ کاروبار شروع کر دیا۔

بطور فلمساز و ہدائتکار اُن کی پہلی فلم ’ایک رات‘ 1942ء میں ریلیز ہوئی جس میں مرکزی کردار کرشمہ کپور اور کرینہ کپور کے پردادا، رشی کپور کے دادا اور راج کپور کے والد پرتھوی راج نے ادا کیا تھا۔ اگلے ہی برس اُن کی فلم پریم سنگیت منظرِ عام پر آئی جس کے ہیرو جے۔ راج تھے۔

انھیں پہلی بڑی کامیابی 1944ء میں حاصل ہوئی جب اُن کی فلم ’من کی جیت‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی کہانی ٹامس ہارڈی کے معروف ناول ’TESS‘ پر مبنی تھی۔ اس میں ہیرو شیام کے مقابل راج کماری اور نِینا نے کام کیا تھا۔ نِینا کا چہرہ انتہائی معصوم لیکن آنکھیں کسی گہرے راز کی امین معلوم ہوتی تھیں، شاید اسی لِیے فلمی اشتہارات میں اس کا نام پُراسرار نِینا لکھا جاتا تھا۔ نِینا کا اصل نام شاہدہ تھا اور بعد میں ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے اُن سے دوسری شادی بھی کر لی تھی۔ اُن کی پہلی شادی سر ہدایت اللہ کی صاحبزادی صفیہ سے ہوئی تھی جن کے بطن سے فرید احمد پیدا ہوئے جو بعد میں خود بھی فلم ڈائرکٹر بنے۔

فلم وعدہ کے دو کردار: صبیحہ اور سنتوش فلم من کی جیت کا ایک گانا اتنا مقبول ہوا کہ لوگ برسوں بعد تک اسے گنگناتے رہے۔ بول تھے: اک دِل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا

تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جو فلمیں بنائیں اُن میں آخری فلم ’میرا بائی‘ تھی جو 1947ء میں ریلیز ہوئی۔ [1][2][3][4]

پاکستان آنے کے بعد اگرچہ انھوں نے صرف دو فلمیں بنائیں لیکن یہ دونوں ہی ہماری فلمی تاریخ میں نمایاں حیثیت اختیار کر گئیں۔ فلم وعدہ کا ذکر ہم کر چُکے ہیں جو اپنی دلچسپ کہانی، صبیحہ اور سنتوش کی یادگار اداکاری، سیف الدین سیف کے لافانی گیت ’جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں‘ اور رشید عطرے کی بے مثال موسیقی کے باعث ہمیشہ یاد رہے گی، لیکن اُن کی دوسری فلم ’روحی ‘ کا تذکرہ ابھی باقی ہے۔

روحی دراصل پاکستان میں اُن کی اوّلین پروڈکشن تھی جو 1954ء میں ریلیز ہوئی۔ اس کی کہانی اور منظر نامہ خود ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے لکھا تھا۔ [1][5]

روحی کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ سینسر بورڈ کے ہاتھوں بین ہونے والی یہ پہلی پاکستانی فلم تھی۔ اس پر پہلا اعتراض تو یہ تھا کہ اس میں امیر اور غریب کا ایسا ٹکراؤ دکھایا گیا ہے جو طبقاتی تضاد کو ہوا دیکر طبقاتی نفرت میں تبدیل کر سکتا ہے اور یوں معاشرے میں عمومی بے چینی اور بے امنی کا سبب بن سکتا ہے۔

پاکستان کے بزرگ فلم ساز و ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد 15 اپریل 2007ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ [1] اُن کی عمر 92 سال تھی۔ آخری برسوں میں وہ اپنی یاد داشت کھو چُکے تھے اور کچھ عرصے سے مستقل نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ Shoaib Ahmed (17 April 2007)۔ "W.Z. Ahmed passes away"۔ Dawn 
  2. Gulazāra، Saibal Chatterjee (2003)۔ Encyclopaedia of Hindi Cinema۔ Popular Prakashan۔ صفحہ: 58۔ ISBN 978-81-7991-066-5 
  3. Ashok Raj (1 November 2009)۔ Hero Vol.1۔ Hay House, Inc۔ صفحہ: 56۔ ISBN 978-93-81398-02-9 
  4. Rashmi Doraiswamy، Latika Padgaonkar (1 June 2011)۔ Asian Film Journeys: Selections from Cinemaya۔ SCB Distributors۔ صفحہ: 430۔ ISBN 978-81-8328-208-6