ڈھوڈا (مٹھائی)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ڈھوڈا

ڈھوڈاخوشاب شہر کی ایک خاص مٹھائی جو عالمگیر شہرت رکھتی ہے

ڈھوڈا کی ابتدا[ترمیم]

یہ مٹھائی کی ایک مشہور قسم ہے جسے بیسویں صدی کے آغاز میں خوشاب سے تعلق رکھنے والے لالہ ہنس راج نامی حلوائی نے بطور صحت بخش کشتہ کی صورت متعارف کروایا۔ لیکن اس کے دل پسند ذائقہ نے عوام میں بطور مٹھائی مقبولیت حاصل کر لی۔سینہ بسینہ ملنے والی معلومات کے مطابق لالہ ہنس راج ایک پہلوان تھااور جسمانی طاقت کو بحال رکھنے کے لیے مختلف دیسی ادویہ اور اجناس کے مرکبا ت تیار کرتا رہتا تھا جنھیں عرف عام میں ’’دیسی حلوا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب کی بار اس نے گند م کے موٹے آٹے ، خالص دودھ، دیسی گھی، گڑ، اخروٹ اور بادام جیسے میوہ جات کا ایک ایسا مرکب تیا ر کیا جو اپنے ذائقے اور بناوٹ میں ایک مکمل صحت بخش اور سادہ غذاتھی۔جسے معمول کے مطابق مسلسل استعمال کیا جا سکتا تھاکیونکہ اس میں مضر اثرات کا تناسب صفر تھا۔ لالہ ہنس راج نے اس مٹھائی کو ایک پیار بھرا نام دیا۔۔۔۔۔۔’’ڈھوڈا‘‘۔ دیا ڈھوڈا آج بھی اندرون اور بیرون ملک ہردلعزیز سوغات مانی جاتی ہے۔۔لالہ ہنس راج ملکاں والی گلی (موجودہ انار کلی بازار) کے رہائشی تھے اور ان کا خاندان ہندوستانی پنجاب کے شہر کوٹک پور میں آج بھی یہ مٹھائی بنانے کے حوالے سے مشہور ہے۔ڈھوڈا اصل میں ایک غذائی مرکب ہے جو جسمانی طاقت بڑھانے اور بحال رکھنے کے لیے تیار کیا گیا تھا تاہم اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے یہ جلد ہی ہر خاص و عام کی پسند بن گیا۔

امین کا ڈھوڈا[ترمیم]

قیام پاکستان کے بعد ہنس راج اور اس کی برادری کے دیگر لوگ ہندوستان چلے گئے لیکن جانے سے پہلے انھوں نے ڈھوڈا بنانے کا کام سنوچڑ خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں محمد امین اور محمد رمضان کو سکھا دیا جو ان کے پاس بطور ملازم کام کرتے تھے۔امین سنوچڑ کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے محمد بشیر سنوچڑ آج بھی سرگودھا روڈ پر ڈھوڈا فروخت کرنے کی دکان چلا رہے ہیں۔

تیاری[ترمیم]

اس کی تیاری کے لیے گندم کو کچھ دنوں کے لیے پانی میں بھگو کر رکھا جاتا ہے اور پھر اسے دستی چکی میں دلیے کی طرز پر پیس لیا جاتا ہے جسے عام زبان میں موٹا آٹا یا ڈھوڈے والا آٹا بھی کہتے ہیں۔'ان کا کہنا تھا کہ گندم کو بھگونے، سُکھانے اور چکی سے نکالنے کے بعد اس کی شکل باجرے کے دانوں کی مانند ہو جاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ترکیب کے مطابق آدھا کلو آٹے کا ڈھوڈا بنانے کے لیے کم از کم 10 کلو دودھ ڈال کر اس وقت تک پکایا جاتا ہے جب تک اس کی مقدار دو سے ڈھائی کلو نہ رہ جائے۔'بعد ازاں اس مرکب میں برابر مقدار میں دیسی گھی ڈال کر بھون لیا جاتا ہے اور جب اس کی رنگت سرخی مائل ہو جائے تو ایک مخصوص طریقے سے اس میں چینی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بادام، چاروں مغز اور دیگر خشک میوے شامل کر دیے جاتے ہیں۔

اصل اور نقل[ترمیم]

خوشاب میں قدم رکھتے ہی آپ کو جو چیز کثرت سے نظر آئے گی وہ ڈھوڈا فروخت کرنے کی دکانیں ہیں۔نئے اور پرانے لاری اڈے کے قرب و جوار میں درجنوں کی تعداد میں ایسی دکانیں موجود ہیں جن کی پیشانی پر یہ دعویٰ نمایاں الفاظ میں لکھا نظر آئے گا کہ 'اصلی ڈھوڈا' صرف انہی کے پاس دستیاب ہے اس حوالے سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ جو کام آپ ہزاروں روپے دے کر نہ کروا سکیں وہ ایک دو کلو ڈھوڈا بطور تحفہ دینے سے ہو جاتا ہے اصل دیسی گھی اور انتہائی محنت سے تیار ہونے والے ڈھوڈے کی پہچان اس سے آنے والی خاص خوشبو اور تازگی میں ہے جو دل کو ترواہٹ کا احساس دلاتی ہے۔

دکانوں کی بھرمار[ترمیم]

اب یہ فن ان دونوں بھائیوں کی اولادوں تک محدود نہیں رہا بلکہ بہت سے دیگر حلوائی اور مٹھائیاں بنانے والے بھی ڈھوڈا بنانے کے کاروبار میں آ چکے ہیں۔ آج کل خوشاب کا اصلی ڈھوڈاصرف چار دکانوں پر دستیاب ہے۔ جن میں حاجی انور صاحب کا ’’ انور ڈھوڈا ہاؤس (رجسٹرڈ)، محسن سندھو کا ’’انور ڈھوڈا ہاؤس (رجسٹرڈ)، امین ڈھوڈا ہاؤس (رجسٹرڈ) سرفہرست ہیں۔ بعد ازاں افضل ڈھوڈا ہاؤس (رجسٹرڈ) اور فلک شیرکے پرنس سویٹ پیلس کا نام آتا ہے۔ آج سے بیس پچیس سال قبل تک شہر بھر میں ڈھوڈا فروخت کرنے والی پانچ یا چھ دکانیں تھیں لیکن اب یہ حالت ہو چکی ہے کہ اصل اور نقل میں پہچان کرنا مشکل ہے۔انھوں نے بتایا کہ ہر دکان دار گاہکوں کو یہ کہہ کر بیوقوف بناتا ہے کہ وہی خالص اور اصلی ڈھوڈا بناتا ہے۔'ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ جب کوئی چیز مشہور ہو جائے تو اناڑی بھی کھلاڑی بن کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وقت یہی کچھ یہاں ہو رہا ہے اور دو نمبر طریقے سے ڈھوڈا بنانے والوں کی بھرمار کے باعث خوشاب والوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔'[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "آرکائیو کاپی"۔ 14 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2019