کفایت حسین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کفایت حسین 1890ء میں شکارپور ضلع بلند شہر، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کے سبھی آباء و اجداد شیعہ مسلک سے وابستہ تھے۔ ان کے والد کانام عبد اللہ تھا اور پیشہ تجارت تھا۔ عبد اللہ نے نیت کی تھی کہ اگر فرزند ہوا تو خدمت امام حسین کے لیے وقف کر دیں گے۔ اسی وجہ سے بچے کی پیدائش کے بعد نام کفایت حسین رکھا گیا ۔

تعلیم[ترمیم]

کفایت مولانا محمد عوض صاحب کے قائم کردہ مدرسہ احسن المدارس میں داخل کروایا گیا۔ جہاں انھوں نے حافظ مہدی حسن صاحب سے دس پارے یاد کیے۔ ان کے بعد حافظ سید غلام حسین صاحب مدرس مقرر ہوئے جن سے آخر تک قرآن حفظ کیا ۔

1903ء میں جب قرآن مکمل کر لیا تو کفایت کو مولانا حافظ فیاض حسین صاحب مدرس مدرسہ منصبیہ کی خدمت میں سنانے کی غرض سے بھیجا گیا جہاں وہ تین ماہ رہے۔ ثانوی تعلیم اوائل 1908ء سے 1911ء]] تک مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ سے حاصل کی 1912ء میں مولوی فاضل پنجاب یونیورسٹی سے، ملا فاضل الہ آباد یونیورسٹی سے اور مدرسہ ناظمیہ کے فاضل کے امتحانات اول پوزیشن میں پاس کیے۔ 1913ء میں منشی فاضل پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 1914ء میں ممتاز الافاضل کا امتحان دیا اور تمام طلبہ میں اول آئے، اس کی وجہ سے مدرسہ کا خاص انعام عبا اور عمامہ حاصل ہوا۔

خانہ آبادی اور اضافۂ اسناد[ترمیم]

1917ء میں مدرسۃالواعظین لکھنؤمیں داخلہ لیا۔ اوائل 1920ء میں اپنے ہی خاندان میں پہلی شادی ہوئی جن کے بطن سے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا موجود ہے۔ 1920ء مین تبلیغ کے لیے پشاور روانہ کیے گئے۔ 1921ء میں سرکار نجم العلماء اعلی اللہ مقامہ نے مبلغ ہونے کا سرٹیفکٹ عنایت فرمایا ۔

خدمات[ترمیم]

1925ء میں حکومت کی طرف سے سرحدی علاقے کا محکمہ قضا کفایت کے سپرد ہوا۔ چنانچہ وہ کرم ایجنسی تشریف لے گئے۔ وہیں چھ ماہ کی مدت میں پشتو زبان پر پوری دسترس حاصل کی تاکہ فیصلوں میں غلطی کا امکان نہ رہے۔ کرم ایجنسی میں انھوں نے انجمن شباب الشیعہ و انجمن حسینی کی بنیاد رکھی اور حفظ قرآن کا ایک مدرسہ قائم کیا ۔

13 جولائی 1925ء سیالکوٹ میں حفظ قرآن کے معرکہ آرا مظاہرے میں شریک رہے۔ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور سید محمد شاہ حنفی نے لکھ دیا کہ مولوی حافظ کفایت صاحب نہایت اعلی درجہ کے حافظ ہیں اور من حیث الحفظ خواص سے کم نہیں۔ صاحب موصوف نے عام مجمع میں پانچ پارے سنائے اور ایک گھنٹے سے ایک منٹ بھی زیادہ نہ ہونے دیا۔

اس کے بعد سے شیعیت کی تبلیغ کے لیے میدان ہموار ہو گیا ۔

  • 1932ء میں انھوں نے محکمہ قضاسے بحکم حضرت نجم العلماء استعفی دیدیا۔
  • 1933ء میں وہ منجانب حکومت پنجاب و سرحد کے محکمہ اوقاف کے نائب متولی مقرر ہوئے۔
  • 1934ء میں ان کو مبلغ اعلی کا اعزاز اور سرکار نجم الملت کی جانب سے ثالث النیرین کا خطاب ملا۔ 1939ء میں مولانا محسن علی عمرانی کے ساتھ مل کر شیعہ ایجی ٹیشن لکھنؤ میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
  • 1946ء میں نواب رامپور سر رضا علی مرحوم نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کے لیے ان کی خدمات حاصل کیں۔
  • 1947ء میں ہندوستان چھوڑکر لاہور تشریف لے گئے اور مرتے دم تک وہیں رہے۔
  • اپریل 1964ء میں ان پر کراچی میں فالج کا حملہ ہوا۔ 1966ء میں وہ زیارات مقامات مقدسہ اور حج بیت اللہ کے لیے گئے۔ آقائی محسن الحکیم نے اپنے طبیب خاص سے ان کا علاج کروایا۔ اسی سفر میں بحرین میں مفتی فلسطین سے ملاقات کی۔ کعبۃ اللہ جاکر مناسک حج بجالائے۔ کافی صحت مند ہوکر لاہور تشریف لائے۔ لیکن تقریر کے قابل انتقال نہ ہو سکے ۔

وفات[ترمیم]

4 اپریل 1968ء 5 محرم 1388ھ بروز پنجشنبہ رات کو نو بجے گنگا رام ہسپتال میں علامہ کفایت حسین کا ۔ 78 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ اس کے اگلے ہی دن بعد دوپہر لاہور کے سب سے قدیم امام باڑے کربلا گامے شاہ میں وہ سپرد خاک ہوئے ۔[1]

علامہ کفایت حسین

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "کفایت حسین رئیس الحفاظ"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2015