تائیوان کی تاریخ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تائیوان کی تاریخ (انگریزی: History of Taiwan) کا سب سے ابتدائی نمونہ ہزاروں سال قبل سے ملتا ہے۔[1][2] تائیوان چین کے مشرق میں ایک چھوٹا کا جزیرہ ہے جس کے جنوب میں فلپائن واقع ہے۔ اس جزیرہ میں تقریباً 3000 سال قبل مسیح میں زراعت کے آثار ملتے ہیں [3]۔ 17ویں میں نیدرلینڈز نے جزیرہ کو اپنی کالونی میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد تڑی تعداد میں ہان چینی اور ہکا نے فوجیان اور گوانگڈونگ سے ہجرت کر کے آبنائے تائیوان اور تائیوان میں پناہ لی۔ کچھ مدت کے لیے ہسپانیہ نے جزیرہ کے شمال میں اپنی کچھ بستیان بسائیں مگر 1642ء میں نیدرلینڈز نے انھیں بھگا دیا۔ 1662ء میں منگ خاندان کے وفادار کوشینگا نے نیدرلینڈز کو شکست دے کر مملکت تونگنینگ کی بنیاد رکھی۔ منگ خاندان نے 1644ء میں برعظیم چین کا اقتدار کھودیا تھا۔1683ء میں منگ خاندان کی فوج کو چنگ خاندان کی فوج نے شکست دے دی اور تائیوان کا کچھ حصہ چنگ سلطنت میں شامل ہو گیا۔1895ء میں پہلی چین جاپانی جنگ میں چنگ خاندان نے پنگہوسمیت پورے جزیرہ کی باگ ڈور سلطنت جاپان کو سونپ دیا۔ ۔تائیوان میں جاپان کو چاول اور چینی ملتی تھی اور دوسری جنگ عظیم میں جنوب مشرقی ایشیا میں جاپانی تسلط اور بحرالکاحل کے جزائر میں جاپانی حملوں کے دوران میں جزیرہ تائیوان جاپانیوں کی فوجگاہ تھا۔ تائیوان میں جاپانی سامراجی تعلیم کا نافذ کیا گیا اور کئی جنگوں میں تائیوانیوں نے جاپان کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد جمہوریہ چین کی نیشنلسٹ حکومت نے کومنتانگ کی قیادت میں تائیوان پر قبضہ کر لیا۔ 1949ء میں چینی خانہ جنگی میں اصل سرزمین چین کا تسلط کھونے کے بعد جمہوریہ چین نے کومنتانگ کی قیادت میں تائیوان کی طرف کوچ کیا اورچیانگ کائی شیک نے فوجی قانون نافذ کر دیا۔ اگلے 40 برسوں تک کومنتانگ نے آبنائے تائیوان کے بغل میں موجود جزیرہ کن مین، ووقیو اور ماتسو سمیت پورے تائیوان پر بحیثیت یک جماعت ریاست حکومت کی۔1980ء کی دہائی میں وہاں جمہوری تحریک و اصلاحات کا آغاز ہوا اور 1996ء میں براہ راست صدارتی انتخابات ہوئے۔ ما بعد جنگ کے زمانہ میں تائیوان میں سرعت صنعت کاری اور مالیاتی ترقی دیکھنے کو ملی۔ اس وقت تائیوان کو چار ایشیائی شیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Olsen & Miller-Antonio (1992).
  2. Jiao (2007), pp. 89–90.
  3. Jiao (2007), pp. 91–94.