احمد رشدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
احمد رشدی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 24 اپریل 1934ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست حیدرآباد ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 11 اپریل 1983ء (49 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (24 اپریل 1934–13 اگست 1947)
پاکستان (14 اگست 1947–11 اپریل 1983)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ پس پردہ گلوکار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
IMDB پر صفحات[1]  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

احمد رُشدی (24 اپریل، 1934ء - 11 اپریل، 1983ء) پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک مایہ ناز اور ورسٹائل گلوکار تھے۔ بر صغیر پاک و ہند میں رُشدی کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آواز کے اس جادوگر نے ریڈیو پر نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ نغمگی کا یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ انھوں نے اردو، گجراتی، بنگالی، بھوجپوری کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ احمد رُشدی کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے، اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔ آج کے دور میں فلموں کے کئی مشہور گلوکار رُشدی کو ہی اپنا استاد مانتے ہیں۔ انھوں نے تقریباً 583 فلموں کے لیے 5000 گانے گائے۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

احمد رُشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا رُشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رُشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔ انھوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم "عبرت"(1951ء) کے لیے گایا۔ پھر پاکستان آ کر 1954ء میں "بندر روڈ سے کیماڑی" گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد رُشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے۔

رُشدی کا فن[ترمیم]

احمد رُشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی۔ رُشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئڈل تھے اور کشور نے انگلستان میں رُشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انھوں نے غزل کی گائکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرز ایجاد کی۔ چاکلیٹ ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رُشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے ۔ ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔

انعامات او ر اعزازات[ترمیم]

احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے ۔ پاکستان کے صدر پرویز مشرف کی حکومت نے رُشدی کو "ستارہ ا متيا ز" کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ انکا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ سارے گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

انھوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا۔ رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انھوں نے بغیر معاوضہ لیے موسیقاروں کے لیے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے۔ احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔

تاثرات[ترمیم]

احمد رُشدی نے پس پردہ گلوکاری میں بہت نام کمایا۔ ان کے گائے ہوئے مقبول طربیہ، المیہ فلمی گیت اور غزلیں ان کی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا ثبوت ہیں۔ تیس سالہ کیرئیر میں رُشدی کی مترنم اور پرتاثر آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ گیت چاہے چنچل ہوتا یا پْردرد، اونچے سروں میں ہوتا یا دھیمے سروں میں، سننے والوں سے شرف قبولیت حاصل کر کے رہتا۔ انھوں نے نامور گلوکاروں کے مقابل وقت کے معروف موسیقاروں کی دھنوں کو پوری فنی مہارت سے گایا۔ فلمی موسیقی کے زرخیز دور میں رُشدی کو پسندیدہ ترین گلوکار کا درجہ حاصل رہا۔ جو شھرت ان کو حاصل تھی وہ ان کی زندگی میں کسی اور گلوکار کو حاصل نہیں ہو سکی۔

وفات[ترمیم]

روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

دوگانے[ترمیم]

احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔

احمد رشدی اور مالا[ترمیم]
مالا اور احمد رشدی کے گائے ہوئے دوگانے
نغمہ فلم سنہ نغمہ نگار موسیقار
چٹی کڑتی۔۔ دوپٹہ کالا۔۔ فیتیاں والا چوڑیاں 1963 - -
دیکھا جو انہيں ۔۔ چپکے سے کہاں ہائ۔ آشیانہ 1964 - -
جب رات ڈھلی۔ تم یاد آئے ۔۔ کنیز 1965 - -
بھولی ہوئی ہوں داستاں ۔۔ دوراہا 1967 - -
موسم حسین ہے لیکن تم سا کوئی نہيں ہے۔ آگ 1967 - -
اے بہارو۔ گواہ رہنا ۔۔ صاعقہ 1967 - -
تیری پائل کی جھنکار ۔۔ لوٹے دل کا قرار سنگدل 1968 - -
مجھے تلاش تھی جس کی۔ وہ ہم سفر تم ہو ۔ جہاں تم وہاں ہم 1968 - -
روٹھ گئی کیوں مجھ سے تیرے پائل کی جھنکار دل میرا دھڑکن تیری 1968 - -
پیار میں دغا کبھی نہ دینا۔۔ دیا اور طوفان 1969 - -
بہت یاد آئیں گے وہ دن ۔۔ انیلا 1969 - -
او میری محبوبہ۔ بتلا دو کیا ہوا۔ نئی لیلی نیا مجنوں 1969 - -
یہ ادا۔۔ یہ ناز۔ یہ انداز آپ کا ۔۔ روڈ ٹو سوات 1970 - -
ہونٹوں پہ تبسم۔ نظر سہمی سہمی مجرم کیوں 1970 - -
اک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ۔ بے وفا 1970 - -
چلے ٹھنڈی ہوا چھم چھم نجمہ 1970 - -
دو دلوں کی خوشیوں کا نام ہے ہنی مون ہنی مون 1970 - -
لاکھوں حسین ہيں مجھے تم کیوں پسند ہو ۔ خاموش نگاہیں 1971 - -
داڑ تنبہ تنبہ۔ داڑ چھلی چھلی جادو 1974 - -
وعدہ پیار کا ۔۔ سوہنے یار کا ۔ دل نشین 1975 - -
اب چھوڑ کے در تیرا۔ دیوانے کہاں جائیں نشیمن 1976 - -

بیرونی روابط[ترمیم]

  1. میوزک برینز آرٹسٹ آئی ڈی: https://musicbrainz.org/artist/76460af2-51ad-4f97-b1e9-4e153a57d042 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 ستمبر 2021