مفتی عبدالقادر یوگوی
مفتی اعظم مولانا عبد القادر بلتستان کے معروف عالم دین، خوش بیان مقرر اور ایک عظیم استاد تھے۔ اپنے آبائی بستی یوگو کی تاریخ میں سب سے اہم شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ہی وہ شخصیت ہے جن کی دعوت و تبلیغ، اعلٰی اخلاق اور بہترین حکمت عملی سے موضع یوگو کی سالم آبادی اہلحدیث یا سلفی العقیدہ ہو گئی۔ [1]
تعلیم و خدمات
[ترمیم]مولانا عبد القادر مرحوم علاقہ خپلو کے موضع یوگو میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائییی تعلیم دارالعلوم غواڑی سے حاصل کی، آپ کے دل میں مزید حصول علم کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
اس لیے ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا اور دہلی پہنچ کر شیخ الکل کے لقب سے مشہور سید میاں نذیر حسین کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ اور وہیں سے سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد آپ وطن مالوف واپس تشریف لائے۔
مفتی کریم بخش کی وفات کے بعد جامعہ دارالعلوم بلتستان غواڑی میں شیخ الحدیث اور افتاء وقضاء کی ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر پڑیں۔ آپ نے نہایت خوش اسلوبی اور حکمت عملی سے دونوں منصبوں کو سنبھالا۔
آپ کی علمی قابلیت اور افتاء و قضاء میں پختگی دیکھ کر علاقے کے حکام اور مقامی عدالت آپ سے فیصلہ کراتے اور اسے حرف آخر تصور کرتے۔ گویا آپ مفتی دیار بلتستان تھے۔
جو "مفتی اعظم" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ موجودہ دور کے اکثر علما آپ کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔
خصوصی کردار
[ترمیم]آپ پورے علاقے میں ہر دلعزیز اور نہایت ہی مقبول و مشہور تھے۔
آپ کے اعلی اخلاق اور حکمت عملی سے موضع یوگو کے سالم آبادی اہل حدیث ہو گئی۔ اور اکھٹے جمعہ پڑھنے لگے۔ اس سے پہلے دو الگ الگ مسجدوں میں نماز جمعہ ادا ہوتی تھی۔ جو آپ کے مواعظ حسنہ اور علم و حکمت کی پختگی کا ثبوت ہے۔ آپ ایک نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ غواڑی اور یوگو کے لوگ اب بھی آپ کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں۔
آپ کے آبائی گاؤں یوگو سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت شیخ ثناء اللہ احقر بلتستانی کے والد مولانا عبد الرحیم بھی ایک دینی عالم اور اپنے علاقے کے فعال سماجی کارکن تھے۔ دونوں ہم وطن ساتھیوں نے ساتھ مل کر اس وقت کے ہندوستان کی معروف شخصیت اور آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے رکن سیٹھ حمیداللہ سے اپنے گاؤںیوگو کے پہاڑی سلسلے تھنگوا میں بننے والے واٹر چینل کے لیے خصوصی اعانت حاصل کی تھی۔ اس واٹر چینل نے اس وقت سیلاب سے تباہ حال گاؤں کے باسیوں کی معاشی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ آپ کی اپنے وطن کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل کارنامہ اور بہت بڑی سماجی خدمت تھی۔
خاندانی و علمی ورثاء
[ترمیم]آپ کی وفات آخر مارچ 1983ء میں ہوئی۔ آپ کے وارثان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
بڑا صاحبزادہ ڈاکٹر حمیداللہ پروفیسر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی لاہور رہے۔ آپ بلتستان کے نامور فرزند ہیں جس نے پی ایچ ڈی (PhD) یا داکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری لی ہے۔ اس کے علاوہ فاضل مدینہ یونیورسٹی بھی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف بھی ہے۔ دوسرا صاحبزادہ حاجی ثناء اللہ صاحب ہے، جو محکمہ LB&RD میں بطور ایگزیکٹیو انجینئر تعینات رہے۔ اور خیر الناس من ینفع الناس کے فارمولے کے تحت دیہی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔[2]
مولانا مرحوم کی اہلیہ بھی عبادت گزار مؤمنہ تھیں۔ علما اہل حدیث بلتستان انھیں روحانی ماں تصور کرتے تھے۔
مولانا عبد القادر مرحوم کے خاص شاگردوں میں مندرجہ ذیل علما قابل ذکر ہیں:۔
(1) مولانا محمد حسن اثری (2) مولانا عبد الرحمٰن خلیق (3) مولانا عبد الواحد صاحب
(4) مولانا محمود اسماعیل (5) مولانا عبد الرحمٰن روزی (6) مولانا عبد الرحیم روزی (7) مولانا عبد العزیز حسن [3]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ یاسین سامی (THURSDAY, MAY 26, 2011)۔ "ابراہیم بن محمد"۔ بلاگ۔ بلاگر۔ اخذ شدہ بتاریخ 15/05/2020
- ↑ اسحاق بھٹی (2011)۔ گلستان حدیث۔ لاہور: مکتبہ قدوسیہ۔ صفحہ: 246۔ 11 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2020
- ↑ عنایت اللہ صدیقی (2000)۔ جماعت اہلحدیث اور غواڑی منزل بہ منزل۔ مکتبہ الشباب الاسلامی