خپلو
ཁལུ་ خپلو | |
---|---|
ملک | پاکستان |
Province | گلگت بلتستان |
District | Ghanche |
بلندی | 2,600.707, میل (8,532.504 فٹ) |
آبادی | |
• کل | 83,200 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | GMT+6 (UTC+6) |
ویب سائٹ | http://www.skardu.pk/khaplu-valley |
وادی خپلو گلگت بلتستان کے چھ اضلاع میں سے ضلع گانچھے کا صدر مقام ہے۔ پورے ضلع گانچھے کو بلتستان کے دیگر علاقوں کے لوگ خپلو بھی کہتے ہیں۔ جو وادی سکردو سے 103 کلومیٹر مشرق کی جانب واقع ہے۔ قدیم بلتستان میں یبگو سلطنت کا پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے لوگ بلتی زبان بولتے ہیں۔ خپلو قدیم ادوار سے لداخ کو بلتستان و دیگر علاقوں سے جوڑتا آیا ہے۔ یہیں سے سیاچین کو راستے جاہیں جس کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت مسلمہ ہے نیز اسی علاقے میں مشابرم جسی ببلند پہاڑیاں واقع ہیں۔ خپلو کو لوگ وادی شیوک کے نام سے بھی جانتے ہیں یہ دریا کا نام ہے جو اس کے ذیلی وادی چھوربٹ سے بہتا ہوا تقریبا پوری دوادی سے گذر کر کھرمنگ کے مقام پر دریائے سندھ میں جاگرتا ہے۔
تاریخ
[ترمیم]اگر بلتستان کو ایک پوشیدہ ملک کہیں تو اس کا زیادہ اطلاق خپلو پر ہوگا۔ اس چھوٹی سی بلتی سلطنت کا ذکر سب سے پہلے مرزا حیدر (1499ء–1551ء) کی مشہور کتاب تاریخ راشدی میں خپالو کے نام سے ہوا۔ مصنف نے خپلو کو بلتی کا ایک ضلع قرار دیا ہے۔ لیکن 17 ویں اور 18ویں صدی میں باہر کے لوگوں کو اس علاقے سے کافی شناسائی ہونے لگی جس کی وجہ اس علاقے کا لداخ سے جغرافیائی اور راجوں کے خاندانی رشتہ داری اور تعلقات تھے۔ یہاں کے راجے اکثر اوقات سکردو کے راجوں کے ماتحت ہی رہے اور یہ راجے ایک خاص مقدار میں ٹیکس بھی ادا کرتے تھے۔ ان راجگان کے دور میں اس خطے کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ علاقہ بھی غربت کی بھٹی میں پستا رہا عام لوگ راجوں کو اپنے زراعت اور مال مویشیوں میں سے خاص قسم کا ٹیکس دینے کے پابند تھے نیز راجا صاحب اپنی مرضی کے مطابق جس زمین کو چاہیں لوگوں سے ہتھیا سکتے تھے۔ راجگان کا یہ دور قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کہیں جاکے ختم ہوا اب بھی یہاں کے لوگ ان سے اسی حوالے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کیپٹن کلاڈی مارٹن واڈے (1794ء–1861ء) شاید پہلے یورپی تھے جو اس مقام پر پہنچے جنھوں نے 1835ء میں چھپنے والے ایک انگریزی مضمون ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں اسے چلو کے نام سے پکارا ہے۔ جبکہ مارکروفٹ ٹریبک نامی خاتون مصنف نے 1841ء میں چھپنے والی اپنی کتاب میں لکھا ہے " کفالون ایک صوبہ ہے جو نوبرا میں شیوک کے کنارے واقع ہے"۔ الیگزینڈر چیننگم نے 1854ء میں اس علاقے کا ایک تفصیلی نقشہ اور اس علاقے کے راجاوں کا شجرہ نصب بیان کیا ہے۔ ایک اور انگریز سیاح تھامس تھومسن نے نومبر 1847ء میں لکھا کہ تبت کا ناقابل بیان خوبصورت علاقہ۔ نائٹ اپنے سفر میں بیان کرتے ہیں کہ خپلو بلتستان کا سب سے بڑا مالدار علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے جنت کے باغیچوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ جین ای ڈنکن اس علاقے میں 1904ء میں پہنچی وہ یہاں تین ہفتے رہیں نیز لکھتی ہیں کہ یہ غالباً اس خطے کا سب سے پیارا نخلستان ہے۔
سیاحت
[ترمیم]یہ علاقہ سیاحوں کے لیے ایک پر کشش مقام ہے اور ہر سال سینکڑوں پاکستانی و یورپی سیاح یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔ یہ مقام قراقرم کے بلند پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے جہاں سے دنیا کی 21 ویں بلند ترین پہاڑی مشابرم نہایت نزدیک پڑتی ہے نیز یہاں کا علاقہ ہوشے مارخور کے شکار کے لیے انگریز دور ہی سے مشہور ہے۔ نیز یہاں کی تعمیرات بھی قابل دید ہیں جیسے مسجد چقچن جو خطے کی اولین مساجد میں سے ایک ہے جس کی تعمیر 13 ویں صدی میں ہوئی۔ دو سو سال پرناخپلو قلعہ بھی تبتی اور ایرانی فن تعمیر کا نظارہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ خپلو برق، خانقاہ معلیٰ خپلو کی عمارت اور مسجد تھقسی کھر بھی قابل ذکر مقامات میں سے ایک ہیں۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]Khapluآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ khaplu.pk (Error: unknown archive URL)
Complete History of Khaplu Ghanche Baltistan
پیش نظر صفحہ گلگت بلتستان کی جغرافیہ سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |