بلتستان
بلتستان | |
---|---|
نقشہ |
|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان |
جغرافیائی خصوصیات | |
متناسقات | 35°18′00″N 75°37′00″E / 35.3°N 75.616666666667°E |
رقبہ | 72000 مربع کلومیٹر |
بلندی | 1500 میٹر |
قابل ذکر | |
درستی - ترمیم |
بلتستان (بلتی زبان میں ' بلتیول' اور شینا زبان میں پَلول/پلے ) ایک قدیم خطہ اور ڈویژن ہے جو کبھی بلتی یل تبت خورد اور قبل مسیح میں پلو لو کے ناموں سے معروف تھی آج کل پاکستان کے زیر انتظام گلگت و بلتستان اور کچھ حصہ بھارت کے زیر انتظام یونین ٹیریٹری لداخ[1] میں شامل ہے۔ بلتستان میں دنیا کے تیس سے زیادہ اونچے ترین پہاڑ واقع ہیں جن میں کے ٹو شامل ہے۔ یہں قطبین کے بعد گلیشیئر کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی یہی موجود ہے جن میں سیاچن گلیشیر بلتورو گلیشیر اوربیافو گلیشیر مشہور ہیں۔ بلتستان کی سرحدیں چین اور بھارت سے ملتی ہیں۔ بلتستان پر 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں نے قبضہ کیا تھا۔ انگریزوں نے جو کشمیر ڈوگروں کو بیچا تھا اس میں گلگت و بلتستان شامل نہیں تھا مگر گلاب سنگھ کے صاحبزادے رنبیر سنگھ بادشاہ بنے تو ان کی افواج نے گلگت اور بلتستان کو فتح کرکے کشمیر کا حصہ بنا لیا۔[2] اس سے پہلے یہ مختلف آزاد ریاستیں تھی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت بلتستان کے لوگوں نے اپنی جنگِ آزادی لڑی۔ اگرچہ بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین مسئلہ کشمیر کے مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک نہیں ہوا اور نہ ہی انھیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن ستمبر 2009ء میں پاکستان کے صدر نے بلتستان و گلگت کو خود مختاری کے بل پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ علاقہ کشمیر کی طرح ایک پارلیمنٹ رکھ سکے گا۔ بلتستان کا تقریباً تمام علاقہ پہاڑی ہے جس کی اوسط اونچائی گیارہ ہزار فٹ ہے۔ لداخ بھی قدیم تاریخ سے بلتستان کا حصہ رہا ہے جو آج کل بھارت، چین اور پاکستان میں تقسیم ہو چکا ہے۔ گلگت و ہنزہ بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں بلتستان سے ملحق رہے ہیں۔ بلتستان کی غالب اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ ایک بڑی تعداد میں نوربخشی مسلمان بھی آباد ہیں۔ سکردو بلتستان کا سب سے بڑا شہر اور دار الخلافہ ہے۔
بلتستان کا جغرافیہ
[ترمیم]پاکستان کے انتہائی شمال میں قراقرم و ہمالیہ کے دامن میں 10 ہزار 118 مربع میل پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ بلتستان کہلاتا ہے جوبلتستان سکردو، روندو، شگر، کھرمنگ، گلتری اور خپلوکی وادیوں پر مشتمل ہے۔ انتظامی لحاظ سے یہ علاقہ دو اضلاع سکردو اور ضلع گانچھے میں منقسم ہے۔ بلتستان کے جنوب میں کشمیر، مشرق میں لداخ،کرگل مغرب میں گلگت اور دیامر جبکہ شمال میں کوہ قراقرم بلتستان کو چینی صوبہ سنکیانگ سے جدا کرتے ہیں ۔
قدیم تاریخ
[ترمیم]بلتستان کی قدیم تاریخ کے بارے میں کوئی دستاویزی شہادت موجود نہیں۔ البتہ لوک روایات اور داستانوں سے پتا چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے علاقہ ہائے تبت پر ایک کیسر نامی باشاہ (بلتی ہلفو کیسر) کی حکومت تھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ کیسر دیوتاوں کی اولاد ہے اور انھیں دنیا میں غربت ظلم وبربریت سے نجات دلانے آیا ہے۔ اس دور میں لوگ بون مت کے پیروکا تھے
تاریخی حوالوں سے 200 سال قبل مسیح کے دوران بدھ مت کے آثار ملتے ہیں بعد ازاں بون مت کے اختلاظ سے لاما ازم وجود میں آیا 5ء صدی میں بلتستان پر پلولا شاہی حکمرانوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ 900ء میں بلتستان تبت کا ایک صوبہ تھا لیکن جب تبت میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو بلتستان تبتی سلطنت سے الگ ہو گیا۔
- مقپون خاندان
بلتی بادشاہ شیر شاہ کے بیٹےعلی شیر خان انچن(1540ء تا 1568ء) کے دور مقپون خاندان کے عروج کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ علی شیر خان نے جو بعد میں انچن یعنی طاقتور کے نام سے مشہور ہوا پہلے پرکوتہ جس پر لداخ کے راجا کی حکومت تھی قبضہ کیا۔ اس کے بعد انچن نے لداخیوں کو شکست دیکر کھرمنگ پر قبضہ کیا۔ اسی طرح انچن نے یکے بعد دیگرے بلتستان اور لداخ[3] پر مکمل حکومت قائم کر لی ۔
اسی اثناء میں ریاست کشمیر کا مغل سلطنت سے الحاق ہو گیا۔ تو انچن نے اپنی بیٹی کارشتہ شہزادہ سلیم کے ساتھ کر دیا۔
انچن نے اس کے بعد مغرب میں اپنی حکومت کو وسعت دی اوراستور،گلگت اورچترال کو فتح کر لیا۔
انچن کی وفات پے اس کے بیٹے آدم خان اور عبدال خان میں جھگڑا ہو گیا اس کے بعد مقپون خاندان کا زوال ہو گیا۔ طویل جنگ و جدل کے بعد آخر سلطنت آدم خان کو ملی۔
- ڈوگرہ راج
1840ء میں زور آور سنگھ نے بلتستان پر حملہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی بلتی ریاست کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن 12 دسمبر 1841ء کو زور آور سنگھ قتل ہو گیا تو احمد شاہ نے بلتسان میں بغاوت کرادی۔ مگر آزادی کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہو سکی اور بلتستان واپس 1842ء میں ڈوگرہ حکومت کے قبضے میں چلا گیا۔ بلتستان میں ڈوگرہ حکومت 1948ء تک رہی۔ ڈوگروں نے بلتستان پر 108 سال حکومت کی۔
اشاعت اسلام
[ترمیم]اسلام سے پہلے بلتستان میں بدھ مت کا دور تھا۔ چودھویں صدی عیسوی میں ایران سے میر سید علی ہمدانی المعروف[[شاہ ہمدان ؒ]] یہاں تشریف لائے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ آپ نے خپلو میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جس کا نام چقچن ہے جو آج بھی بڑی شان و شوکت سے موجود ہے۔ اس کے بعدشاہ سید محمد نوربخش قہستانی یہاں تبلیغ اسلام کے لیے آئے پھر 1570ء میں سید ناصر طوسی اور سید علی طوسی دونوں بھائی یارقندسے سلتورو کے راستے خپلو پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کی۔ ان دونوں بزرگوں کے بعد دو اور نوربخشی بزرگ سید میر مختار اخیار اور سید میر یحیٰ بھی چینی ترکستان سے شگر پہنچے میر مختاراخیار نے بعد میں کریس میں سکونت حاصل کی اور وہیں وفات پائ وہ نوربخشی سلسلے طریقت کے پیر بھی تھے ان کا مزار آج بھی کریس میں مرجع خلائق ہے۔ آج بلتستان کے تقریباَ تمام موسوی سادات اور نوربخشی سلسلے کے موجودہ پیر سید محمد شاہ نورانی انہی کے اولاد سے ہیں۔
سیاحت
[ترمیم]” | بلتستان کاخطہ اپنےخوبصورت نظاروں، دلکش وادیوں، بُلند و بالا برفیلے پہاڑوں، روح فناکردینے والی گہری گھاٹیوں، ہزاروں سال قدیم انداز میں مقامی باشندوں کی بود و باش کی بدولت ملکی اورغیرملکی سیاحوں میں خاصا مقبول ہے | “ |
اسی سرزمین پر’ایورسٹ‘ کے بعد دنیا کی دوسری بُلند ترین چوٹی کے ٹو[4] واقع ہے۔ یہیں نانگا پربت کھڑا ہوا ہے جسے قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ انہی علاقوں میں قطبینکے بعد دنیا کے طویل ترین اور بڑے گلیشیر پائے جاتے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع سیاچن گلیشیر کے علاوہ ہسپر، بتورہ اور بلتورو قابلِ ذکر ہیں۔ یہیں دنیا کی آٹھ بُلند ترین چوٹیاں واقع ہیں جن میں کے ٹو8615میٹر، نانگاپربتاور راکا پوشی کے علاوہ رگشا بروم (8355میٹر)، براڈ پیک (8047 میٹر)اور مشابروم (7320میٹر) چوٹیاں بھی شامل ہیں جن کی بُلندی دو ہزار سے آٹھ ہزار میٹر کے درمیان ہے۔ جنہیں سر کرنے کے لیے ہر سال ہزاروں عیر ملکی کوہ پیما اور سیاح یہاں کا رُخ کرتے رہے ہیں۔ نیزکچورہ جھیل،سدپارہ جھیل،دیوسائی نیشنل پارک،قلعہ کھر پوچو،قلعہ راجہ خپلو مشہور ہیں۔
بلتستان اور پاکستان
[ترمیم]14 اگست کو جب پاکستان وجود میں آیا تو گلگت میں راجا خان اور کرنل مرزا حسن خان کی سرکردگی میں انقلاب آیاجسکو دیکھ کر بلتستان کے لوگوں نے بھی ناجائز ڈوگرہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔ چنانچہ گلگتیوں کی مدد سے بلتیوں نے 14 اگست 1948ء کو مکمل آزادی حاصل کی۔ نومبر 1948ء تک پوریگ تک کا سارا علاقہ آزاد کرا لیا گیا۔ لیکن 1971 میں بھارت نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ بلتستان کی آزادی کے فورا بعد بلتیوں نے پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق کر لیا( حوالہ درکار ہے)[حوالہ درکار]۔ 1972ء تک بلتستان کو پاکستان کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام ایک ضلع کی حیثیت حاصل رہی( حوالہ درکار ہے)[حوالہ درکار]۔ 1972ء میں پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے بلتستان کے دو اضلاع ضلع گانچھے اور سکردو بنا دئے گیئے۔ 2009ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو صوبائی طرز کی حثیت دے دی۔ 2013 میں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو مزید دو اضلاع ضلع کھرمنگ اور ضلع شگر کا اضافہ کیا گیا۔
بلتستان کے لوگ
[ترمیم]یہاں کی آبادی بلتی اور دردی ہے اور بلتی اور شینا زبان بولتے ہیں۔ بلتستان کے لوگ محنتی، سادہ، لوح، خوش اخلاق، جلد گھل مل جانے والے اور مذہبی قسم کے ہیں لیکن مزہبی شدت پسندی ان میں موجود نہیں.