پاکستان قومی زبان تحریک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پاکستان قومی زبان تحریک کا لوگو

پاکستان 14 اگست 1947ء میں معرض وجود میں آیا، تو اس وقت برصغیر میں قومی و سرکاری زبان انگریزی رائج تھی۔ فرنگی دور حکومت میں اس زبان کو بطور دفتری، تعلیمی اور عدالتی زبان استعمال کرنا مجبوری تھی، مگر آزادی کے بعد ضروری تھا کہ پاکستان میں کسی ایسی مشترکہ زبان کو قومی و سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے، جو عام فہم ہو اور ملک کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہو۔

فرمانِ قائد[ترمیم]

1948ء میں قائد اعظم محمدعلی جناح رح نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ پندرہ سال کے اندر اندر اردو کو ہر شعبۂ زندگی میں انگریزی کی جگہ نافذ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و خود مختاری اور اتحاد کے لیے ایک مشترکہ قومی زبان ضروری ہوتی ہے۔ اردو برصغیر کی واحد زبان ہے جو نہ صرف پاکستان ،بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

ذہنی غلاموں کا دورِ اقتدار اور بد دیانتی[ترمیم]

قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جاگیردارانہ و سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کا آغاز ہوا۔ آنے والے سیاہ ست دانوں اور جاگیرداروں نے خود کو فرنگیوں کا ذہنی غلام ثابت کرتے ہوئے انگریزی کا جبری تسلط برقرار رکھا۔ حالانکہ یہ کسی بھی پاکستانی کی زبان نہیں ہے۔

آئینِ پاکستان[ترمیم]

1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251 میں ایک بار پھر اردو کو بطور قومی زبان ہر شعبۂ زندگی میں نفاذ کا حکم شامل ہوا۔ مگر ساتھ ہی مزید پندرہ سال کا وقت بھی دے دیا گیا۔ اس مہلت کے گزرنے کے بعد بھی ذہنی غلام حکمران طبقے نے انگریزی کا جبری تسلط ختم نہیں کیا۔

غیر ملکی زبان کے اثرات[ترمیم]

انگریزی میڈیم کی وجہ سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں رٹا کلچر کے پہاڑ تلے دب کر مفلوج ہوگئیں اور ملک تعلیمی وسائنسی میدان میں ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوتا گیا۔ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر لوگ تعلیم سے دور ہوتے گئے۔انگریزی میڈیم کی وجہ سے تعلیمی ادارے سائنس دان پیدا کرنے کی بجائے کرپٹ بیوروکریٹ اور سیاست دان پیدا کرنے لگے۔

بے لوث محبانِ وطن اور تحریک کا آغاز[ترمیم]

تب کچھ درد دل رکھنے والے محبان وطن کی برداشت ختم ہو گئی اور انھوں نے اس حکمرانوں کی بددیانتی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔ ان عظیم ہستیوں میں پروفیسر عزیز ظفر آزاد، پروفیسر سلیم ہاشمی، محترمہ فاطمہ قمر سمیت دیگر مخلص اکابرین شامل ہوئے۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ تحریک شروع کی گئی، جس کا نام "پاکستان قومی زبان تحریک" رکھا گیا۔ جنرل حمید گل، ڈاکٹر عبد القدیر، اوریا مقبول جان، سمیعہ راحیل قاضی، سید عارف مصطفٰی اور جسٹس ناصرہ جاوید اقبال (علامہ اقبال رح کی بہو) جیسے مشہاہیر نے بھی اس تحریک کی حمایت کی۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ[ترمیم]

تحریک کی جانب سے عدالت عالیہ میں آئینی درخواست جمع کروائی گئی، جو کئی سال کے لمبے روایتی چکروں کے بعد منظور کر لی گئی۔ تاہم تاریخ پر تاریخ کی روایتی تاریخ برقرار رہی۔ بالآخر 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی زبان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو 90 دن کی مہلت دے دی۔ اور حکم دیا کہ نوے دن کے اندر اندر حکمران آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کریں۔

حکمرانوں کی آئینی خلاف ورزی[ترمیم]

اس نوے دن کی مہلت کو گذرے بھی عرصہ بیت گیا، مگر غدار حکمرانوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا۔ تاہم کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے اپنے ماتحت دفاتر میں قومی زبان نافذ کر دی ہے۔ عمل درآمد مکمل کب ہوگا، کچھ کہا نہیں جا سکتا، مگر اس تحریک کے لیے اپنی تمام توانائیاں خرچ کر دینے والے ہیرو ہمیشہ تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد رکھے جائیں گے۔ انھوں نے بغیر کسی ذاتی مفاد ولالچ کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کے اس بنیادی حق کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں، وہ قابل تعریف و تحسین ہیں۔

ایک کڑوا سچ[ترمیم]

سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں آج تک جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان سب نے اپنی اپنی قومی زبان میں دی گئی تعلیم سے ہی ترقی کی ہے۔ غیر ملکی زبان کے رٹا کلچر سے ڈگری تو مل سکتی ہے، مگر علم و سائنس کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ رٹا کلچر دراصل تخلیقی صلاحیتوں کے لیے زہرقاتل ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی عوام کو اپنی قومی زبان کا حق مانگنے کے لیے عدالتوں میں دھکے کھانے پڑے۔ ایسا تماشا اور کہیں نہیں ہے۔ چین میں چینی زبان رائج ہے، تو روس میں روسی زبان، جرمنی میں جرمن، تو ایران میں فارسی زبان رائج ہے۔ تعلیم کو سمجھنے کے لیے عام فہم زبان کو ہی ذریعۂ تعلیم بنانا ہوگا۔

ورنہ بطور شاعر:

جہالت بڑھتی گئی، جوں جوں پڑھتے گئے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. پاکستان قومی زبان تحریک www.pqzt.pk