تاریخ یوسفی عجائبات فرنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ ہے جو پہلے فارسی زبان میں تحریر ہوا اور اس کے بعد اسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا اسے اردو کا پہلا سفر نامہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کمبل پور سے قبل سیاحوں کی تفصیلات اسلامیہ کالج کلکتہ کے پروفیسر عبد القادر کے مضمون Early Muslim Visitors of Europe from India میں ملتی ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔ ان کے مطابق محمد کبھار بے پہلا مسافر تھا جو یورپ روانہ ہوا، اس کے بعد میر محمد حسین لندنی، احتشام الدین، ابو طالب اصفہانی وغیرہ کا ذکر ہے۔ یہ سب انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔

تحسین فراقی کا مقدمہ[ترمیم]

تحسین فراقی نے اپنے مقدمے عجائبات فرنگ میں کمبل پوش سے قبل یورپ کے سفر پر جانے والے کی سیاحوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے سوانحی کوائف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔  ان سفرناموں میں نہایت تفصیل سے اس پار کی روداد بیان کی گئی ہے ایسے اس پار میں میر محمد حسن لندنی شیخ حسام الدین تاج الدین شگرف نامہ ولایت 70 765 کا مصنف اور ابو طالب اصفہانی (مسجد طالبی فی البلاد افرنجی 1799 کا مصنف)  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔احتشام الدین اور ابو طالب اصفہانی کے سفرنامے تجسس کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز واقعات سے پر ہیں لندن کی تعریف کے سلسلے میں یہ سیاح یک زبان ہیں۔ وہاں کی تہذیب وتمدن، ترقی اور طرز معاشرت کی تعریف کرتے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ انگریزوں کی ہر شے سے حددرجہ مرغوب ہیں اور ان کی مداحی میں کوئی کسر روا نہیں رکھنا چاہتے۔ ابو طالب اصفھانی نے کمبل پوش کے برعکس انگریزی تہذیب و معاشرے کی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے شنگرف نامہ اور مسیرطالبی کے ترجمے اردو میں ہوئے مگر دیگر فارسی سفرناموں کے ترجمے شائع نہیں ہو سکے۔

یوسف خان کا کتابوں میں حوالہ[ترمیم]

تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ یوسف خان کمبل نوشکی سفرنامہ ہے جو اردو میں نقشہ بلھے یہ سفرنامہ فن سفر نامہ نگاری کے جدید میں آیات پر پورا اترتا ہے اس کا اسلوب انداز بیان اور تجسس اور حیرت انگیز معلومات میں سے آج بھی قابل مطالعہ بنایا ہوا ہے۔سید محسن علی نے "سراپا سخن" میں کمبل پوش کا تذکرہ اس طرح سے کیا ہے۔

"یوسف خان یوسف تخلص، ولد رحمت خان باشندہ لکھنؤ ،شاگرد خواجہ حیدر علی آتش [1]" ۔

کمبل پوش کے ایک معاصر تذکرہ نگار عبد الغفور نساخ نے ان تفصیلات کا اندراج کیا ہے

" یوسف تخلص یوسف خان ولد رحمت خان غوری بخشندہ لکھنؤ آتش [2]

کمبل پوش کے دور کے اہم ادبی تاریخ نویس اور خطبہ خان گارسیں دتاسی نے یوسف خان کے بارے میں یہ معلومات فراہم کی ہیں

"یوسف خان لکھنوی والدکانام رحمت خان غوری تھا قید خواجہ حیدر علی آتش کا شاگرد تھا ہندوستانی میں شعر کہتا تھا۔ اس کا لقب کمبل پوش ہے محسن نے اپنے تذکرہ میں کمبل پوش کے اشعار نقل کیے ہیں اس سلطنت میں ملازم تھا اس نے اٹھارہ سو 37 38 میں انگلستان اورفرانس کا سفر کیا اس نے اردو زبان میں اپنے سفرنامے کے حالات قلمبند کیے ایچ ایس ریڈ صاحب نے تحریر کیا جس میں انھوں نے سفر نامے کا موازنہ نوعیت Morier کے "حاجی بابا انگلینڈ "سے کیا مضمون نگار نے کمبل پوش کی بیجا جزئیات نگاری پر اعتراض کیا ہے اور ان کے خیال میں ایسی تفاصیل کا درج کرنا ضروری تھا جسے بلاشبہ یورپ کی برتری ثابت ہوتی [3]"

تاریخ نثر اردو میں تذکرہ[ترمیم]

احسن مارہروی کی کتاب "تاریخ نثر اردو " (نمونہ منثورات، 1929) میں کمبل پوش کے سفرنامے کی چند سطور نقل کرتے ہوئے احسن مارہروی نے تبصرہ کیفیت کے عنوان سے یہ اقتباس تحریر کیا ہے۔

"سفرنامہ پنڈ دھرم نارائن کے اہتمام سے مرتبہ العلوم مدرسہ دہلی میں چھپا ہے جس کا سنت بعد اٹھارہ سو سینتالیس ہیں کتاب کا حجم 297 صفحہ ہے اور اکثر صحتِ کتابت کا خیال رکھا گیا ہے۔ مگر عملا میں یائے معروف مجہول کا یک قلم لحاظ نہیں کیا گیا زبان عام فہم ہے البتہ پرانی ترکیبی موجود ہیں جن پر انتقال ذہنی اور توجہ نظر کے لیے لکیریں کھینچ دی ہیں۔ "

داستان تاریخ ادب اردو[ترمیم]

اردو کے معتبر تاریخ نویس حامد حسن قادری نے اپنی کتاب داستان تاریخ ادب اردو میں ایک باپ غیر مشہور مصنفین سے متعلق رقم کیا ہے۔ لکھتے ہیں

"یوسف خاں کمبل پوش حیدرآباد وطن اصلی دہ سیر و سیاحت کے لیے گھر سے نکلے تمام ہندوستان کی سیر کرکے انگلستان کا سفر کیا جو یورپ کی دوسرے مقامات اور مصر وغیرہ کی بھی سیر کی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی سیاحوں میں سب سے قدیم تھے آٹھ سو اٹھائیس سے شروع کی 837 میں ولایت کا سفر کیا حالات سفر لکھتے گئے جن کو اٹھارہ سو سینتالیس میں دہلی میں چھپایا پھر دوبارہ اٹھارہ سو تہتر میں مطبع نول کشور میں چھپا۔ یہ اردو میں سب سے پہلا سفرنامہ ہے اور بڑی خوبی یہ ہے کہ محض ایک سیاح کا سفر نامہ ہے جس کی کوئی قومی و ملکی یا تعلیمی غرض نہ تھی اور سب لوگوں کے سفر مثلاً مولوی مسیح الدین ، سرسیداحمدخان ، راجا رام موہن رائے وغیرہ کے اس سے بعد کے ہیں اور بغرض سیروسیاحت نہ تھے۔ پھر انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی میں بھی لوگوں نے یورپ کے سفرنامے لکھے ہیں۔"[4]

اشاعت کی تفصیل[ترمیم]

یہ سفر نامہ عجائبات فرنگ کے نام سے مشہور و معروف ہے، زیادہ اشاعت میں یہی عنوان رکھا گیا ہے مگر خود مصنف نے اس کا نام تاریخ یوسفی رکھا کتاب کی پہلی اشاعت دہلی کالج العلوم اسی عنوان سے منسوب ہے کتاب کے خطاب میں یہ عبارت درج ہے۔

"الحمد للہ کہ کتاب عجیب نسخہ غریب مسمی "تاریخ یوسفی" تصنیف سیاہ جہاں گردوسرد چشیدہ زماں صداقت کیش حقیقت کیش یوسف خان کمبل پوش کی"۔

خود کمبل پوش سفر نامے کی ابتدائی سطور میں اسے تاریخ یوسفی کا نام دیتا ہے اور تحریر کرتا ہے

"چونکہ اس کتاب میں سب حال اپنا گذرا بیان کیا ہے نام اس کا تاریخ یوسفی رکھا"۔

مختلف اخبارات اور سرکاری دستاویز میں سفرنامے کا نام سحر یوسفی سفر یوسف کمبل پوش درج ہے گارسی دتاسی نے اس کا نام سیروسفر دکھایا ظاہر ہے غلط ہے اولا عجائبات فرنگ کانوان مطبع منشی نول کشور سے شائع طبع دوم کے ساتھ منظر عام پر آیا اور پھر اسی نام سے مشہور ہو گیا۔

یوسف خاں کمبل پوش سفر نامہ پہلے فارسی میں لکھا بقول محمد اکرام چغتائی اس کا سن تالیف 1843 اور مادہ تاریخ "چہ حالِ غریب "ہے۔ مگر یہ فارسی مخطوطہ کبھی زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ اس مخطوطے کی اطلاع ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کلکتہ میں موجود فارسی مخطوطات کی فہرست میں دی گئی ہے۔[5]

اولین اشاعت دہلی کالج کے مطبع العلوم سے 1847 میں ہوئی،  25 سال بعد منشی نول کشور نے نئے عنوان سے شائع "عجائبات فرنگ" سے 1873 میں شائع کیا۔ افضل ذکر نسخہ نایاب ہے جبکہ نول کشور ی نسخہ اب بھی ہند و پاک کی قدیم لائبریریوں میں موجود ہے۔

ابتدائی دو ا شاعت کے 84 سال بعد 1983 میں تحسین فراقی نے اس سفر نامے کو مقدمے اور تحقیقی حواشی کے ساتھ شائع کیا۔ مقدمے میں تحسین فراقی نے دقت نظر، تحقیقی دروں بینی و بیش بہا معلومات سے اہمیت کا حامل بنا دیا۔ کمبل پوش کی سوانح اس کے مذہبی عقائد اور اردو فارسی میں سفر ناموں کی روایت پر سیر حاصل تبصرے شامل کتاب ہیں۔

سنگ میل پبلیکیشن سے 2004 میں محمد اکرام چغتائی نے تاریخ یوسفی کے عنوان سے اس سفرنامے کے آڈیشن شائع کیا اکرام چغتائی نے سفرنامے کی شاتی اول کا عکس چائے کرنے کے ساتھ ساتھ متن کو ازسرنو کمپوز بھی کروایا۔ احرام چودای نے اشاعت اول کا نقشہ برلن کے مرکزی کتب خانے سے حاصل کیا جہاں وہ سب ذخیرہ سپرنگر میں محفوظ تھا، سپرنگر دہلی کالج کے نامور پرنسپل اور ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کے سیکریٹری تھے۔

پاکستان میں جدید ترین نسخہ ادارہ بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے اور ہندوستان میں ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی نے اسے شائع کیا ہے۔

تحقیق و تدوین مظہر احمد[ترمیم]

مظہر احمد نے کمبل پوش کے سفرنامے میں سیروسیاحت ، مختلف تہذیبوں کے تقابلی مطالعے کے ساتھ مختلف مذاہب کا موازنہ کا تفصیلی ذکر پیش کیا ہے۔ کمبل پوش کے خود ساختہ مذہب "مذہبِ سلیمانی" کا تذکرہ تفصیل سے موجود ہے۔ بقول مظہر احمد

"یوسف خان کمبل پوش نے انگلستان کے سفر کا آغاز مارچ 837 میں کیا اور تقریبا آدھی دنیا کا سفر کرتے ہوئے انگلستان اور پیرس کی سیر سے لطف اندوز ہوتا ہوا مصر اور وسطی ہندوستان کے راستے لکھنؤ وارد ہوا اس کا یہ سفر 838 کے آخری دنوں میں تمام ہوا اس سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات اور سیاحتی مقامات کی تفصیلات ، جغرافیائی حالات ، مختلف معاشروں کی تہذیب و سخاوت طرز زندگی روزمرہ رسوم و عقائد رہن سہن تاریخی عمارات اور واقعات کی تفصیلات پر بے لاگ تبصرے اور اظہار خیال کرتے ہوئے نظر تحریر میں لاتا گیا بے ساختگی صاف گوئی اور بے باکی نہیں سفرنامہ کو خاص اہمیت کا حامل بنا دیا ہے سازیوں منظر نگاری سفرنامے کو خاصی چیز بنا دیتے ہیں انوکھی دلچسپ واقعات کے بیان میں حیرت انگیزی کا عنصر نمایاں ہے اور مناظر اپنے تمام تر حسن کے ساتھ دلچسپی کے باعث ہیں [6]۔

کمبل پوش کا اسلوب[ترمیم]

جس زمانے میں تاریخ یوسفی لکھی گئی اس زمانے میں اردونثرکے دو مختلف اسالیب تھے۔ ایک میر امن دہلوی کا اسلوب جو محاوروں اور روزمرہ کا برجستہ برملا استعمال جس سے زبان بڑی حد تک آسان اور سلیس ہو گئی تھی۔ دوسرا رجب علی بیگ سرور کا لکھنوی اسلوب جس کی زبان مقفیٰ مسجع تھی اور رنگینی عبارت کی شان دکھاتی فارسی آمیز نثر۔ کمال بوسٹن دونوں اسالیب سے برابر استفادہ کیا اور اس کی نثر میں دونوں اسالیب کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔ اسلوب پر داستان ویرنگ حاوی ہے کہ سیروسیاحت کے واقعات بیان کرتے ہوئے کمبل پوش نے درپردہ اپنی داستان ہی رقم کی ہے۔ ہندوستان کے سفر کے دوران دو مختصر اور دلچسپ منی داستانیں بھی شامل ہیں۔ کمبل پوش کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت مقفع عبارت آرائی ہے اسے قافیہ پیمائی کا شوق ہے اور یہ اس دور کے لکھنوی اسلوب کی نمایاں خصوصیت تھی۔ چند جملے

"مگر قدرتی الہی سے زنجیر لنگر کی نہ ٹوٹی۔ روح کسی ذی حیات کی نفس بدن سے نہ چھوٹی"

"آدمی وہاں کے سب حسین و جمیل۔ پر سر کے خوبصورت اور شکیل"

"یوسف حلیمیہ قصہ بے پایاں ہے۔ زبان کو نہیں تاب بیاں ہے۔"

"طراوت ان کی سے قطعی جنت شرمندہ دان کے موتیوں سے زیادہ تابندہ۔"

"بال ان کے ایسے پیچدار کہ پیچ و تاب زمانہ ان سے شرمسار۔"

کمبل پوش نے جملوں کی ساخت میں تعقید کا استعمال کیا ہے جو شیر میں تو عیب ہے ہیں نثر میں بھی اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔

سراپا نگاری اور منظر نگاری کمبل پوش کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں، خوبصورت حسیناؤں کا سراپا بیان کرنے میں اس نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔

تحسین فراقی نے کمبل پوش کے اسلوب سے متعلق یہ رائے قائم کی ہے:-

"کمبل پوش کا اسلوب مغلق یا پیچیدہ نہیں سیدھا صاف بیانیہ انداز ہے جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں جس طرح کمبل پوش کی اپنی شخصیت بے تکلفی شوخی سادگی کا جامع تھی اسی طرح اس کے اسلوب پر بھی اس کا گہرا پرتو ہے۔ اسلوب ایک بے تکلف رند مشرف اور آزاد رو شخصیت کا عکس ہے۔"

حوالہ جات[ترمیم]

  1.  سید محسن علی ، سراپا سخن 1875 ، ص 82  
  2. عبد الغفور نساخ: سخن شعرا 1874، ص 570 (بحوالہ تحسین فراقی)
  3. بحوالہ تحسین فراقی، ص 52
  4. داستان تاریخ ادب اردو، حامد حسن قادری، ص 372
  5. تفصیلات کے لیے ملاحظہ کریں تاریخ یوسفی از اکرام چغتائی
  6. سفرنامہ یوسف کمبل پوش، ڈاکٹر مظہر احمد، ص 27