صدیق سالک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
صدیق سالک
'برگیڈیر جنرل محمد صدیق سالک
پیدائشی ناممحمد صدیق سالک
پیدائش6 ستمبر 1935(1935-09-06)
گاؤں منگلیہ، ضلح گجرات,تحصیل کھاریاں، پنجاب, برطانوی ہند
وفاتاگست 17، 1988(1988-80-17) (عمر  52 سال)
بہاولپور, صوبہ پنجاب (Bahawalpur incident)
وفاداری پاکستان
سروس/شاخ پاکستان فوج
سالہائے فعالیت1960-1988
درجہ برگیڈیر جنرل
یونٹGuides Cavalry, Frontier Force Corps
آرمی عہدہبین الخدماتی تعلقات عامہ
Ministry of Media Broadcasting
پاک فوج کا ڈھانچہ
مقابلے/جنگیںپاک بھارت جنگ 1965ء
Aerial warfare in 1965 India Pakistan War
پاک بھارت جنگ 1971
East Pakistan Air Operations, 1971
اعزازاتستارہ امتیاز (عسکری)

برگیڈیر جنرل محمد صدیق سالک 1935 میں پیدا ہوئے، آپ تحصیل کھاریاں کے ایک گاؤں منگلیہ میں پیدا ہوئے۔ منگلیہ کے چوہدری رحمت خان کا بیٹا محمد صدیق سے صدیق سالک کیسے بنا یہ بھی ایک دلچسب کہانی ہے۔ ان دنوں وہ آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا اور سالانہ امتحان کے داخلہ فارم پر کیے جا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو ایک مشکل پیش آ رہی تھی۔ ایک ہی کلاس میں آدھ درجن سے زیادہ لڑکے "محمد صدیق" نام کے تھے۔ انھوں نے ایک حل تلاش کیا اور تمام صدیقوں کو کہا کہ ہر ایک اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافہ نام جوڑے۔ محمد صدیق جومستقبل میں صدیق سالک کہلایا اس اضافی نام کے لیے اپنے ہی تحت الشعور کے کونے کھدروں کو کھنگالنے لگا۔ وہاں پڑا ہوا سالک، محمد صدیق کے سامنے آکھڑا ہوا اور اس نے اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا اور محمد صدیق، محمدصدیق سالک ہو گیا۔ اس کی نشاندھی انھوں نے اپنے دوستوں اور اپنے بچوں کے سامنے کئی مرتبہ کی۔ انھوں نے کہیں عبدالمجید سالک کا نام پڑھ رکھا تھا اور وہی سالک ان کے ذہن کے نہا ں خانے میں محفوظ تھا جو انھیں سالک بنا گیا۔

خاندان[ترمیم]

ان کے والد چوہدری رحمت علی کاشت کار تھے ان کی معاشی حالت بہت کمزور تھی۔ صدیق سالک اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں

کہنے کو والدصاحب کے پاس تھوڑی سی زمین تھی اور وہ چودھری بھی کہلاتے تھے مگر زمین بارانی تھی اگر بروقت بارش ہو گئی تو سبحان اللہ ورنہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی تھی ۔ہمارا گھرانہ متوسط سے بھی کچھ نیچا ہی گھرانہ تھالہذا بچپن ہی سے لاشعور میں اپنے علاقے اور اپنی غربت کے علاوہ تعلیمی پسماندگی کا احساس بھی شدید رہا۔

صدیق سالک جب اڑھائی سال کے تھے تو 1938ء میں والد کا انتقال ہو گیا تو دکھوں کے سائے کچھ اور گہرے ہو گئے۔ سالک اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ان سے بڑی تین بہنیں تھیں۔ چار بچوں کی ذمہ داری اور آمدن برائے نام۔ ایک بہادر ماں کے لیے یہ مراحلہ کٹھن ضرور تھا مگر انھوں نے بڑی عالی ہمتی کا مظاہرہ کیا اورمحنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو پالا۔ اس دور میں صدیق سالک کے گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول نہ تھا۔ اس زمانے میں اسکول جانے آنے کا کچھ ایسا رواج بھی نہ تھا اور صدیق سالک کے گھر کے حا لات بھی کچھ ایسے نہ تھے۔ والدہ پر چار بچوں کی کفالت کا بوجھ ہی بہت تھا چنانچہ ان کے اسکول بھیجنے پر کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا تھا مگر ایک اتفاق نے انھیں اسکول بھیجنے کے لیے ماں کی مامتا کو مجبور کر دیا۔ اس کے بارے میں وہ خودکہتے ہیں "ایک مرتبہ شدید بارش ہوئی، طوفائی جھکڑ چلے اور میں اس باد وباراں میں گم ہو گیا ہمارے گھر کے علاوہ پاس پڑوس میں بھی شور مچ گیا کہ بچہ گم ہو گیا ہے۔ تلاش بسیار کے بعد ہم ٹھوٹھہ رائے بہاد رکے پرائمری اسکول میں پائے گئے یہ محض ایک اتفاق تھا لیکن بعد میں وتیر ہ ہو گیا کہ جب بھی موقع ملتا میں بھاگ کر اسکول چلا جاتا مجھے پڑھتے ہوئے بچے اچھے لگتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کی طرح پڑھوں میرے شوق اور لگن کو دیکھ کر گھر والوں نے لکڑی کی تختی ،سرکنڈے کا قلم اور ایک کتا ب دلاکر اسکول بھیج دیا۔ بچے تو پڑھائی کے خوف سے اسکول سے بھاگتے ہیں۔ میں پڑھنے کے شوق میں گھر سے بھاگا۔"

انھیں اسلامیہ پرائمری اسکول ملکہ میں داخل کروایا گیا۔ اس دوران انھوں نے اسکول کے اوقات کے بعد حافظ محمد حیات سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہاں سے انھوں نے چار جماعتیں پاس کیں پھر ڈی سی ہائی اسکول ٹھوٹھہ رائے بہادر میں چلے گئے جہاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اس وقت یہ تعلیمی ادارہ مڈل تک ہی تعلیم دیتا تھا۔ اس کے بعد ڈی بی ہائی اسکول ککرالی نزد کوٹلہ عرب علی خان میں داخلہ لیا لیکن مالی مجبوریوں نے اسکول سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا اوروہ اپنے بہنوئی چوہدری اقبال کے پاس چلے گئے جو اس وقت بہاولپور میں تھانیدار تھے۔ میڑک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا۔ ساڑھے آٹھ سو میں سے چھ سو چھیالیس نمبر حاصل کیے۔ ننھیال نے ان کی ذھانت دیکھتے ہوئے مد د کافیصلہ کیا اور انھیں زمیندارہ کالج میں سال اول میں داخل کروا دیا جہاں سے انھوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ڈی بی ہائی اسکول میں عارضی طور معلم کی حیثیت سے ملازمت کرلی جو دوسال تک جاری رہی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے انھوں نے 1955ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا،وہاں سے انگریری ادب میں بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی ادب کی ڈگری 1959ء میں مکمل کی۔ ابھی ایم اے کے نتائج کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ لائل پور(فیصل آباد) کے اسلامیہ کالج سے انھیں ملازمت کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔ اس ووران پبلک سروس کمیشن سے بھی ملازمت مل گئی اور ان کی بطور لیکچرر پہلی تعینا تی گورنمنٹ کالج مانسہرہ میں ہوئی ۔ چنانچہ ایک نئی اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ہفت روزہ "پاک جمہوریت" کو نائب مدیر کی حیثیت سے جائن کر لیا۔ ملازمت کا یہ عرصہ مختصر ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد یہ پرچہ بند ہو گیا اور اس کے تمام ملازمین کو مختلف شعبوں میں کھپانے کا فیصلہ کیا گیا انھیں محکمہ اطلاعات و نشریات میں پی۔ آر۔ او مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران فوج کی ایک مشتہر اسامی کے لیے انٹرویو دیا اور کامیاب ہو گئے ۔

فوج میں شمولیت[ترمیم]

1964ءمیں بطور کپتان مسلح افواج میں شامل ہو گئے اور دلچسب بات یہ ہے کہ ان کی ملازمت کے آغاز وہی دن تھا جو ان کی پیدائش کا دن تھا، 6ستمبر ،گویا یہ ایک شاہین کی ری برتھ تھی۔ ابتدائی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کا تقرر بطور پبلک ریلیشن آفیسر آئی ایس پی آر کے ہیڈ کواٹر میں کر دیا گیا۔ 1970میں میجرکے عہدے پر ترقی پا کر ڈھاکہ چلے گئے۔ پھر سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا۔ یہ بھی جنگی قیدی بنا لیے گئے دوسال ہندوستانی قید میں رہے۔ اسیری کے ان دو سالوں پر انھوں نے ایک کتاب “ہمہ یاراں دو زخ “ کے نام سے لکھی- رہائی کے بعد 1973ء میں واپس آئے۔1977ء میں لفٹینٹ کرنل بنا دیے گئے اسی سال فل کرنل ہو گئے۔ جب ضیا الحق نے زمامِ اقتدار سنبھالا تو انھیں چیف مارشل لا سیکریٹریٹ میں پریس سیکریٹری مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران وہ صدر کے لیے تقریر نویس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔1985میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر بنا دیے گئے۔ معروف مزاح نگار کرنل محمد خان ان کی پیش رو تھے مزاح نگاری سے شعف غالب کرنل محمد خان کی صحبت کا اثر تھا کیونکہ ایک لمبے عرصہ تک انٹر سروسز پبلک ریلیشز میں ان وونوں کا ساتھ رہا۔ زندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے اگرچہ ساتھ ساتھ صدر ضیا الحق کے پریس سیکرٹری اور تقرر نویس کا کام بھی چلتا رہا۔17اگست 1988ء کو وہ سانحہ بہاولپور کے فضائی حادثے میں اس جہان فائی سے کوچ کر گئے۔ پسماندگان میں تین بیٹاں اور ایک بیٹا چھوڑا ان کا بیٹا سرمد سالک صحافت اور ادب سے رشتہ وراثت میں لے کر پیدا ہوا اور آج بھی صحافی ہے اور اپنی ایک نیوز ایجنسی چلانے کے علاوہ مختلف نیوز چینلز اوراخبارات سے بھی وابستہ ہیں۔ دو بیٹوں صحیفہ سالک اور صائمہ سالک نے ایم اے انگریزی کیا اور سب سے چھوٹی صاحبزادی آئینہ سالک نے نفسیات میں ایم فل کیا۔ صدیق سالک ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس خیالِ خام کو غلط ثابت کیا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے تمام کٹھنائیوں کے باوجود نہ صرف اپنا راستہ تلاش کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے کیونکہ انھوں نے ادب کی تاریخ میں ایسا قیمتی اثاثہ شامل کر دیا جو ہماری ادبی تاریخ کا لازوال حصہ ہے ۔ صدیق سالک کو اپنے گاؤں سے بہت محبت تھی وہ یہاں علم کی ترقی اور ترویج کے شدید خواہش مند تھے انھوں نے طالبات کے ہائی سکو ل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ طالبات کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کے ایک ادارہ قائم کرنے میں بھی خاصا کردار ادا کیا ۔

تصنیفات[ترمیم]

زندگی کے ارتقائی سفر کے ساتھ ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور قرطاس ادب پر Witness to Surrenderکے بعد وہ ایک درخشنددہ ستارہ بن کر ابھرے پھر اسی کتاب کا اردو ورژن " میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا " ان کے قارئین میں بے پناہ اضافہ کا سبب بنا۔ بنیادی طور پر وہ ایک مزاح نگار تھے اگر چہ سانحہ مشرقی پاکستان نے ان کے قلم کا رخ گلکاریوں سے موڑکر کرب وبلا کی طرف کر دیا لیکن اپنی سرشتی خوبیوں کو چھپا نہیں سکے اور ان نے اردو ادب میں "پریشر ککر " اور "ہمہ یاراں دوزح "جیسے شاہکار بھی دیے۔ سیلوٹ ان کی آپ بیتی ہے جو وہ سوانحی ادب کا ایک منفرد شاہکار ہے ۔"تا دم تحریر" اور" ایمرجنسی "بھی ان کی خوبصورت کتابیں ہیں۔ یہ مکالہ صرف اپنے قارئین اور خاص طور پر طلبہ کو اپنے علاقے کے عظیم ہیروز کی زندگی سے شناسا کروانے کے مقصد سے لکھا جا رہاہے وگرنہ ان کی ہر کتاب ایسے ادبی محاسن کی حامل ہے کہ اس پر ایک ضحیم کتاب مرتب کی جا سکتی ہے ۔ کتابیات و حوالہ جات صدیق سالک ،سیلوٹ مقبول جلیس، سیلف میڈ لوگ صائمہ علی ،صدیق سالک حیات اور ادبی خدمات منگلیہ کی کچھ بزرگوں سے راقم کا انٹرویو

حوالہ جات[ترمیم]

[1] صدیق سالک ،سیلوٹ[2][3]

  1. ؎مقبول جلیس، سیلف میڈ لوگ
  2. صائمہ علی ،صدیق سالک حیات اور ادبی خدمات
  3. منگلیہ کی کچھ بزرگوں سے راقم کا انٹرویو