عبد الستار تونسوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الستار تونسوی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد عبد الستار
پیدائش 3 رمضان المبارک 1344ھ ،بمطابق 18 مارچ 1926ء بروزجمعتہ المبارک
بمقام تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان، برطانوی ہند (موجودہ ضلع تونسہ، پنجاب، پاکستان)
وفات 8 صفر المظفر 1434ھ ،بمطابق 21دسمبر 2012ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء (عمر 86برس)
بمقام تونسہ شریف
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت استاذ المناظرین حضرت مولانا محمد عبدالستارتونسوی
مذہب اسلام
رشتے دار احسان الحق تونسوی (بھائی)،عبد الغفار تونسوی (بیٹا)، عبد الحمید تونسوی (نواسہ)
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ محمودیہ تونسہ شریف ، دارلعلوم دیوبند ہندوستان
پیشہ تبلیغ وخطابت،تدریس،مناظرہ،تحقیق، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہل بیت ،مناظرے، تصانیف:کشف الغوامض في عقيدة الروافض(عربی)،بطلان عقائد الشیعہ،ازالتہ‌الشک عن مسئلہ فدک،حقیقت ماتم، جنازۃ الرسول،بنات سيد الكائنات،اخوة صديق وعلى،حقیقت فقہ جعفریہ
باب ادب

عبد الستار تونسوی ایک نامور پاکستانی سنی عالم دین،خطیب،مدرس،مبلغ،محقق،مناظر اور مصنف تھے۔ آپ تنظیم اہلسنت والجماعت کے قائد اور سرپرست تھے۔ آپ نے 60 سال سے زیادہ عرصہ دین کی اشاعت وخدمت، تبلیغ وتحریک اور تدریس ومناظرہ میں گزارا۔[1]

ولادت[ترمیم]

محمد عبدالستارتونسوی کی ولادت 3 رمضان المبارک 1344ھ بمطابق 18 مارچ 1926ء بروز جمعتہ المبارک بمقام تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان(موجودہ ضلع تونسہ) میں ہوئی۔[2]

نام[ترمیم]

رمضان المبارک میں آپ کی پیدائش ہونے کی وجہ سے بعض اقرباء نے آپ کا نام محمد رمضان تجویز کرنا چاہا مگر آپ کی والدہ نے اس وقت اس راز کو ظاہر کیا کہ ان کے والد نے مجھے ان کی پیدائش سے قبل بتایا تھا کہ متعدد بار خواب میں مجھے بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی پھر جمعرات کی شب ایک بتانے والے نے بتایا کہ اللہ تعالی انھیں ایک بینا عطا کریں گے جس کا نام محمد عبد الستار رکھا جائے۔ چنانچہ آپ کے والد نے گھر میں یہ تاکید کی ہوئی تھی کہ چونکہ وہ تدریس کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے ہیں اس لیے اگر ہمارے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو اس کا نام محمد عبد الستار ہی رکھا جائے اس لیے آپ کا نام محمد عبد الستار تجویز ہوا۔[3]

علاقائی نسبت[ترمیم]

شہر تو نسہ کی طرف نسبت کی وجہ سے تونسوی مشہور ہوئے۔

خاندان[ترمیم]

نسبی اعتبار سے آپ کا تعلق قوم سہانی بلوچ سے ہے۔

شجرہ نسب[ترمیم]

محمد عبد الستار بن حکیم اللہ بخش بن حاجی محمد بخش بن محمد رمضان بن محمد مقبول خان بن غلام حیدر خان مبانی بلوچ[4]

تعلیم[ترمیم]

آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور معمولی نوشت و خواندگی تو نسہ شریف میں ہی والد سے ہوئی آپ نے ناظرہ قرآن پاک پڑھنے کی سعادت محمد عثمان تونسوی سے حاصل کی درجہ کتب کی تعلیم کے لیے آپ کو مدرسہ محمودیہ تونسہ میں داخل کیا گیا اس وقت مدرسہ مذکورہ علم و عرفان کا مرکز تھا، تشنگان علوم دور دراز سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے تونسہ میں آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، مدرسہ محمودیہ میں نامور علما فارسی دعربی ، فقہ و منطق و فلسفہ و کلام اور تفسیر وحدیث کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فارسی و صرف کی کتب ماہر صرف وعلوم فارسی خالق داد سے پڑھیں ، دیگر نحو وفقہ کی کتابیں احمد جراح،اللہ بخش اور ادب کی کتب استاذ الاداب غلام رسول سے پڑھیں، منطق و معقول اور فلسفہ کے فنون عبد الستار شہلانی فاضل ریاست رام پور سے حاصل کیے اور فقہ، میراث تغییر وحدیث کی مبسوط کتب استاذ خان محمد (فاضل دار العلوم دیوبند) سے پڑھیں، ابتدائی کتب سے لے کر دورہ حدیث تک تمام علوم وفنون کی تکمیل جامعہ محمودیہ تونسہ میں کی۔[5]

دار العلوم دیوبند میں اکتسابِ علم[ترمیم]

دار العلوم دیوبند میں آپ نے 1946ء میں دورہ حدیث کرنے کا شرف حاصل کیا۔ وہاں آپ نے حسین احمد مدنی سے بخاری و ترمذی، اعزاز علی دیوبندی سے ابوداؤد اور شمائل ترمذی، بشیر احمد سے مسلم،محمد طیب قاسمی سے ابن ماجہ اورفخرالحسن سے نسائی پڑھیں ، علاوہ ازیں موطا امام مالک ، موطا امام محمد اور طحاوی علی الترتیب عبد الخالق (بانی دار العلوم کبیر والا) نافع گل اور عبد الحق اکوڑہ خٹک سے پڑھیں۔[6]

دارالمبلغین لکھنؤ میں حصول تعلیم[ترمیم]

عبدالشکور لکھنوی نے 1932ء کو لکھنؤ میں ایک خصوصی ادارہ "دارالمبلغین " کے نام سے قائم کیا جس میں فارغ التحصیل ذی استعداد علما کو داخلہ دیا جا تا تھا۔ تونسوی اپنے استاذ حسین احمد مدنی کے حکم پر علمی و تحقیقی ذوق کی تکمیل کے لیے وہاں پہنچے۔چنانچہ داخلہ امتحان ہوا۔ آپ کی علمی صلاحیت اور فن مناظرہ سے دلچسپی دیکھ کر عبد الشکور لکھنوی بہت خوش ہوئے اور داخلہ کا حکم جاری فرمایا۔آپ نے وہاں کے نصاب کے مطابق تفسیر آیات قرآنیہ، مشکوۃ المصابیح ، فن مناظرہ کی تربیت، روافض کے عقائد، مطاعن، مسائل، اعتراضات اور ان کے جوابات، کتب شیعہ کی مکمل معلومات و دلائل، عبد الشکور فاروقی لکھنوی سے ہی پڑھے ، کچھ اسباق عبد السلام فاروقی (صاحبزادہ عبد الشکور لکھنوی) اور محمد صدیق (استاذ دارالمبلغین لکھنؤ)سے بھی پڑھے۔[7]

مشہور اساتذہ[ترمیم]

بیعت و ارادت[ترمیم]

تونسوی نے ظاہری علوم و معارف کے استفادہ کے ساتھ باطنی اصلاح و تربیت کے لیے اپنے استاد حسین احمد مدنی ہی کو اپنا مربی ومرشد بنالیا اور یکم شعبان المعظم 1366ء / 20جون 1947ء کو حسین احمد مدنی سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت کی۔[8]

شادی خانہ آبادی[ترمیم]

عقد اول[ترمیم]

9 صفر 1362ھ /14 فروری 1943ء میں دوران تعلیم آپ کی اپنے رشتہ داروں میں شادی ہوئی۔ اس سے آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔ آپ کی اہلیہ سولہ سال کی مختصر مدت آپ کی معیت میں گزار کر داغ مفارقت دے گئیں۔

عقد ثانی[ترمیم]

1958ء میں آپ کی پہلی زوجہ کا انتقال ہوا، پھر آپ نے 1960ء میں ممتاز عالم دین محمد صدیق ڈیروی کی صاحبزادی سے دوسری شادی کی۔ اس سے آپ کے ہاں چار صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں متولد ہوئیں۔[9]

تحریک ختم نبوت میں کردار[ترمیم]

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی انگریز اور قادیانیوں کی ملی بھگت سے ظفر اللہ مرزائی کو ملک کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا مگر مرزائی ملک وملت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوئے ، جس کے باعث اکابرین نے تمام مکاتب فکر کے علما کو ساتھ لے کر قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی۔1953ء میں تونسوی نے اکابر علما کے ساتھ مل کر تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا اور محدث۔ محمد یوسف بنوری،سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہمراہ ملک بھر میں تقریریں کیں اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر خدمات وقف کر دیں۔

تحریک کے مطالبات[ترمیم]

اس وقت تحریک کے بنیادی مطالبات حسب ذیل تھے۔

  • مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے
  • چوہدری ظفر اللہ کو وزارت خارجہ کے عہدے سے برطرف کیا جائے
  • قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے الگ کیا جائے۔

تونسہ میں قائدانہ کردار[ترمیم]

دسمبر 1985ء میں تونسہ شریف کے مضافات میں واقع بستی شیر گڑھ کے اندر ایک قادیانی سردار امیر محمد قیصرانی کے مرنے پر قادیانیوں نے ایک سازش کے تحت بڑی ڈھٹائی سے اسے مسلمانوں کی مسجد کے صحن میں دفن کر دیا۔ شرعی لحاظ سے چونکہ ایک مرزائی کو مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن کرنے کی اجازت نہیں، چہ جائیکہ اسے مسجد میں دفن کیا جائے علما نے اس کی تدفین کے خلاف احتجاج کیا اور سب سے پہلا احتجاجی جلسہ عبد الستار تونسوی کے ہاں جامعہ عثمانیہ جامع مسجد قبا تونسہ میں ہی ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے علما نے شرکت کی ،مگر انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی یہاں تک کہ تحصیل تونسہ کے تمام مسلمان ( علما، طلبہ، تاجر، وکلا اور مزدور تک ) سراپا احتجاج بن گئے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ امیر محمد مرزائی کی لاش کومسجد سے بلا تاخیر نکالا جائے تاکہ خانہ خدا کا تقدس بحال ہو سکے۔ دو ماہ تک انتظامیہ کی بے حسی اور ٹال مٹول کرنے پر تمام مذہبی جماعتوں نے ، جس میں تحریک تنظیم اہل سنت والجماعت،مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام،مجلس احرار اسلام ،جمعیت علما پاکستان ،جمعیت اہل حدیث اور جماعت اسلامی شامل تھیں ، ڈیرہ غازی خان میں ضلعی انتظامیہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ حسب پروگرام 28 فروری 1986ء بروز جمعتہ المبارک، پاکستانی چوک ڈیرہ غازی خان میں احتجاجی جلسہ ہوا بعد ازاں ضلع بھر کے تقریباً پچاس ہزار سے زائد مسلمان جلوس کی شکل میں ڈی سی آفس کی طرف روانہ ہوئے اس احتجاجی جلوس کی قیادت، عبدالستارتونسوی نے کی۔ مسلمانوں کا یہ جم غفیر جب کچہری روڈ پر پہنچا تو ڈی سی ڈیرہ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ وہاں موجود تھا اور پولیس کا ایک معتد بہ حصہ گھوڑوں پر سوار خفیہ طور پر تیار تھا۔تو نسوی نے وہاں پر ڈی سی اور دیگر افسران کی موجودگی میں بڑی جرات و بے باکی سے خطاب کیا اور مرزائی کی لاش کو فوراً مسجد سے نکالنے کا مطالبہ کیا مگر پولیس نے اپنے پہلے سے مرتب کردہ پروگرام کے تحت بے حد اشک آور گیس استعمال کر کے سخت ترین لاٹھی چارج شروع کر دیا، اس وقت پولیس میں موجود رافضی قسم کے انسپکٹر اور سپاہیوں نے موقع پا کر عبدالستارتونسوی پر بے پناہ تشدد کیا جس سے آپ اور سینکڑوں مسلمان شدید زخمی ہوئے اور آپ کے سر اور جسم پر چودہ گہرے زخم آئے آپ کی گاڑی اور ڈرائیور کو پولیس نے حراست میں لے لیا، چند احباب آپ کو زخمی حالت میں ملتان لے آئے صبح جب آپ سمیت سینکڑوں مسلمانوں کے زخمی ہونے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا، ملتان گھنٹہ گھر چوک میں احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں عطاء الحسن شاہ بخاری اور حق نواز جھنگوی نے اپنے خطاب میں ڈیرہ غازی خان کی سفاک پولیس کی شدید مذمت کی اور چوبیس گھنٹوں میں مرزائی کی لاش کو مسجد سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا بصورت دیگر ملکی سطح پر تحریک چلانے کا الٹی میٹم بھی دیا مگر تونسوی اور سینکڑوں جاں نثاران نبوت کے جسموں سے نکلا ہوا خون رنگ لایا کہ اگلے روز حکومت نے امیر محمد مرزائی کی لاش کو مسجد سے نکال کر اسے اپنے گھر کے صحن میں دبا دیا۔[10]

مشہور تلامذہ[ترمیم]

  • غلام سرور جامعہ اشرفیہ لاہور
  • محمد عبد اللہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
  • عبد الشکور دین پوری خان پور
  • منظور احمدچنیوٹی چنیوٹ
  • عبد القادر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور
  • محمد عیسی گوجرانوالہ
  • احسان الحق تونسوی
  • محمد ضیاء القاسمی فیصل آباد
  • بشیر احمد الحسینی شورکوٹ
  • حق نواز جھنگوی جھنگ
  • عبد الغفار تونسوی تونسہ
  • ضیاء الرحمن فاروقی فیصل آباد
  • عبد العزیز زاہدائی ایران
  • غلام فخر الدین سجادہ نشین تو نسہ شریف
  • معین الدین ابن خواجہ نظام الدین
  • عبد الحئی عابد لاہور
  • محمد اسلم صاحب سندھی
  • مسعود اظہر بہاولپور

تصانیف[ترمیم]

  • کشف الغوامض في عقيدة الروافض(عربی)
  • بطلان عقائد الشیعہ
  • مناظرہ باگڑ سرگانہ ملتان
  • مناظرہ جھوک وڈھیل بہاولپور
  • ازالتہ‌الشک عن مسئله فدک
  • مدلل جواب
  • حقیقت ماتم
  • جنازة الرسول
  • بنات سيد الكائنات
  • اخوة صديق وعلى
  • حقیقت فقہ جعفریہ
  • شان صدیق اکبر
  • شان فاروق اعظم
  • شان عثمان ذی النورین
  • شان حیدر کرار
  • خطبات جمعہ و عیدین[11]

وفات[ترمیم]

محمد عبد الستار تونسوی چھیاسی سال کی عمر میں 8 صفر المظفر 1434ھ بمطابق 21دسمبر 2012ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء خالق حقیقی سے جاملے۔[12]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "علامہ عبدالستار تونسوی کی حیات وخدمات" 
  2. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 20۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قبا تونسہ 
  3. عبدالحمید تونسوی۔ نقوشِ زندگی صفحہ 20۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ 
  4. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 21۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  5. نقوش زندگی ا صفحہ 39,40,41ز عبد الحمید تونسوی ناشر مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف
  6. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 40,41۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  7. علامہ عبد الستار تونسوی حیات وخدمات از مولانا عبد الغفار تونسوی
  8. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 53۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  9. عبدالحمید تونسوی۔ نقوشِ زندگی صفحہ 38۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  10. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 270تا 273۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  11. عبدالحمید تونسوی۔ نقوش زندگی صفحہ 341۔ مکتبہ جامعہ عثمانیہ مسجد قباء تونسہ شریف 
  12. "علامہ عبدالستار تونسوی کی حیات وخدمات"