عمر کی یقین دہانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عمر کی یقین دہانی یا العہدۃ العماریہ ( عربی: العهدة العمرية)، خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ایلیا، یروشلم کا آخری رومی نام، کے لوگوں کو دی گئی حفاظت کی یقین دہانی ہے۔ یقین دہانی کے کئی متن موجود ہیں۔ [1]

عمر کی یقین دہانی خلیفہ عمر بن الخطاب کی طرف سے ایلیا (یروشلم) کے لوگوں کے لیے لکھا گیا ایک خط ہے جب مسلمان سن 638 عیسوی میں بیت المقدس میں داخل ہوئے، ان کے گرجا گھروں اور ان کی جائیدادوں کی حفاظت کی یقین کرائی گئی۔ عمر کی یقین دہانی کو بیت المقدس (یروشلم) کی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات میں شمار کیا جاتا تھا۔

یقین دہانی کی اہمیت پر ابتدائی مسلم مورخین جیسے الواقدی ( ت 747البلاذری (متوفی 892)، ابن الاثیر (1160-1232/3) اور ابو الفدا (1273-1331) نے مباحث کیے ہیں۔ دستاویز کا متن یا تو مختصر یا طویل متن کے طور پر، الیعقوبی (متوفی 897/8)، یوٹیچیئس (877-940)، الطبری ( سیف ابن عمر متوفی کے درمیان سے نقل کیا گیا ہے)، الحمیری، مجیر الدین الحنبلی اور ابن الجوزی (c. 1116-1201) [2] کی تصانیف میں موجود ہے۔

یقین دہانی کے مختلف مسودوں کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ [1] بہت سے مورخین نے اس معاہدے کے عیسائی نسخوں کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے اور دلیل دی ہے کہ اس طرح کی دستاویزات عیسائی کاتبوں نے کچھ مذہبی مقامات پر اپنے قبضے کو محفوظ بنانے کے لیے جعلسازی سے تیار کی تھیں۔ [3] [4] بعض مورخین الطبری کے نسخے کو مستند سمجھتے ہیں۔ [5] مثال کے طور پر، موشے گل الطبری کے نسخے پر بحث کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ "عہد کی زبان اور اس کی تفصیلات مستند اور قابل اعتماد معلوم ہوتی ہیں اور اس وقت یروشلم کے بارے میں جو کچھ جانا جاتا ہے اس کے مطابق ہے۔" [6]

تاریخی پس منظر[ترمیم]

سنہ 637ء تک مسلم فوجیں یروشلم کے آس پاس نمودار ہونے لگیں۔ یروشلم کا انچارج پیٹریارک سوفرونیئس تھا، جو بازنطینی حکومت کا نمائندہ تھا اور ساتھ ہی مسیحی چرچ کا رہنما تھا۔ جب خالد بن ولید اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کی کمان میں متعدد مسلم فوجیں شہر کو گھیرنے لگیں، سوفرونیئس نے ہتھیار ڈالنا قبول کر لیا لیکن اس نے امیر المومنین، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ خود ہتھیار ڈالنے کو قبول کریں۔

یہ سن کر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ سے یروشلم تشریف لے گئے۔

حضرت عمر کی یقین دہانی[ترمیم]

اس عہد کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ایک سے زیادہ طریقوں اور متون میں کیا گیا ہے اور یہ مختصر نصوص مثلاً یعقوبی کی عبارت اور ابن البطریق اور ابن الجوری کی مختصر  عبارتوں سے لے کر مفصل تک ہے۔ جیسا کہ ابن عساکر کا متن، الطبری کا متن، الطبری المقدسی کا متن اور یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ کا متن۔ اور انھوں نے اسے متعدد منابع سے منسوب کیا ہے اور یہ مسند احمد میں درج ہے۔ ان کے بیٹے عبد اللہ نے مسند کے ضمیمہ میں ذمیوں کے لیے کچھ شرائط بیان کی ہیں۔

متن جیسا کہ الطبری نے رپورٹ کیا ہے:

"اللہ کے نام سے جو مہربان اور رحم کرنے والا ہے، یہ حفاظت کی ضمانت ہے جو خدا کے بندے عمر، امیر المومنین نے ایلیا کے لوگوں کو دی ہے، اس نے انھیں حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اپنی جائیدادوں کے لیے، اپنے گرجا گھروں کے لیے، اپنی صلیبوں کے لیے، شہر کے بیماروں اور صحت مندوں کے لیے اور ان تمام رسومات کے لیے جو ان کے مذہب سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے گرجا گھروں میں نہ تو مسلمان آباد ہوں گے اور نہ انھیں تباہ کیا جائے گا۔ جس پر وہ کھڑے ہیں، نہ ان کی صلیب کو، نہ ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے گا، زبردستی ان کا مذہب تبدیل نہیں کیا جائے گا اور یہودی ان کے ساتھ ایلیا میں نہیں رہیں گے۔ یروشلم کے لوگوں کو دوسرے شہروں کے لوگوں کی طرح ٹیکس ادا کرنا چاہیے اور بازنطینیوں اور ڈاکوئوں کو انھیں ملک بدر کرنا چاہیے۔ یروشلم کے وہ لوگ جو بازنطینیوں کے ساتھ نکلنا چاہتے ہیں، اپنا مال و اسباب لے کر جا سکتے ہیں مگر ان کو  اپنے گرجا گھروں اور صلیبوں کو چھوڑنا ہوگا اور وہ محفوظ رہینگے جب تک کہ وہ اپنی پناہ گاہ نہ پہنچ جائیں۔ ارد گرد کے لوگ، جنھوں نے فتح سے پہلے یہاں پناہ لی تھی اگر وہ چاہیں تو شہر میں رہ سکتے ہیں لیکن انھیں شہریوں کی طرح ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ جو چاہیں وہ بازنطینیوں کے ساتھ جا سکتے ہیں اور جو چاہیں اپنے گھر والوں کے پاس واپس جا سکتے ہیں۔ ان کی فصل کاٹنے سے پہلے ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کے مطابق ٹیکس ادا کریں تو اس خط میں جو شرائط بیان کی گئی ہیں وہ اللہ کے عہد کے تحت ہیں، اس کے رسول کی ذمہ داری ہیں، خلفائے راشدین اور ایمان والوں کی ذمہ داری ہیں۔ گواہ: خالد بن ولید؛ عمرو بی العاص؛ عبد الرحمن بی العوف؛ معاویہ بی ابی سفیان (رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین)۔"

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Abu-Munshar 2007, p. 88.
  2. Abu-Munshar 2007, p. 89.
  3. M. G. Morony (2005)۔ مدیران: Hendrika Lena Murre-van den Berg، Theo Maarten Van Lint، Jan J. Ginkel۔ Redefining Christian Identity: Cultural Interaction in the Middle East Since the Rise of Islam۔ Peeters Publishers۔ صفحہ: 22–23۔ ISBN 978-90-429-1418-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2013 
  4. Peri ʻOded (2001)۔ Christianity Under Islam in Jerusalem: The Question of the Holy Sites in Early Ottoman Times۔ BRILL۔ صفحہ: 128۔ ISBN 978-90-04-12042-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 جنوری 2013 
  5. Abu-Munshar 2007, p. 94.
  6. Moshe Gil (1997-02-27)۔ A History of Palestine, 634-1099۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9780521599849