غلام زین الدین چشتی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
خواجہ غلام زین الدین چشتی
ذاتی
پیدائش(15 شعبان 1332ھ بمطابق 1912ء)
وفاتً (21 ذالحجہ 1398ھ بمطابق 22 نومبر 1978ء) (66 سال)
مذہباسلام
والدین
سلسلہچشتیہ
مرتبہ
مقامترگ شریف
دوربیسویں صدی
پیشروغلام محی الدین چشتی مکھڈوی، خواجہ نظام الدین تونسوی
جانشینغلام معین الدین چشتی

خواجہ غلام زین الدین چشتی نظامی مکھڈ شریف کے سجادہ نشین تھے۔

ولادت[ترمیم]

خواجہ غلام زین الدین چشتی نظامی 15 شعبان المعظم 1332ھ بمطابق 1912ء کو مکھڈ شریف ضلع اٹک میں خواجہ غلام محی الدین مکھڈوی کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد اپنے وقت کے نہایت ہی ممتاز عالم دین ، عارف کامل اور خانقاہ معلی مولانا محمد علی مکھڈوی کے سجادہ نشین تھے۔

خواجہ زین الدین اپنے والدین کے سب سے چھوٹے صاحبزادہ تھے اس لیے والد ماجد آپ سے نہایت پیار و محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ والد گرامی نے آپ کے متعلق پیشن گوئی فرمائی تھی کہ میرا یہ بیٹا بڑا ہو کر اپنے وقت کا کامل ولی بنے گا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ایک گوہر نایاب بن کر ابھرے گا۔ اندھیروں اور گمراہی و جہالت میں ڈوبے ہوئے ایک خطے کو آباد کرے گا اور وہاں رشد و ہدایت کے سدا بہار اور لازوال دیے جلائے گا۔

ابتدائی تعلیم[ترمیم]

آپ نے قرآن پاک کی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے پائی۔ اپنے والد محترم کے علاوہ قرآن پاک اور درس نظامی کی تعلیم اس وقت مکھڈ شریف کے شہرہ آفاق دینی درس گاہ کے ممتاز اساتذہ کرام اور علمائے دین سے حاصل کی جن میں مولانا نواب علی صاحب اور مولانا قطب الدین صاحب غور غشی والے قابل ذکر ہیں۔

والد گرامی کی وفات[ترمیم]

آپ نے ابھی اپنی زندگی کی آٹھ ہی بہاریں دیکھی تھی کہ آپ کے سر سے والد ماجد کا سایہ اٹھ گیا۔ والد گرامی کی جدائی کے بعد آپ کی عظیم اور بلند ہمت والدہ ماجدہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ کی والدہ محترمہ ایک نیک سیرت ، غریب پرور اور خدا شناس خاتون تھیں۔

اعلی تعلیم[ترمیم]

والدہ محترمہ کے ساتھ ساتھ آپ کے برادر بزرگ مولانا محمد الدین مکھڈوی اور تونسہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ نظام الدین تونسوی نے آپ کی تعلیم و تربیت میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔ انھیں برگزیدہ شخصیات کی روح پرور اور کیمیا گر سرپرستی کا نتیجہ تھا کہ خواجہ زین الدین حصول علم میں دل و جان سے مگن ہو گئے اور نہایت تیزی سے علم و دین کی منازل طے کرنے لگے۔ آپ نے تحصیل علم کی خاطر غور غشی نزد حضرو ضلع اٹک میں چودہ ماہ قیام کر کے شیخ الحدیث مولانا قطب الدین صاحب سے حدیث پاک کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے اجازت لے ہندوستان تشریف لے گئے اور وہاں کئی اسلامی مدارس میں جید علمائے کرام سے علم حدیث اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ جب آپ ہندوستان سے اسلامی علوم و فنون کی آخری منازل طے کر واپس مکھڈ شریف تشریف لائے تو اس وقت کے تونسہ شریف کے سجادہ نشین حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی نے علم دین کی تکمیل پر آپ کو اپنے دست اقدس سے دستار فضیلت پہنائی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ اپنے والد ماجد خواجہ غلام محی الدین کے مرید تھے اور آپ کو والد محترم نے دوسروں کو بیعت کرنے کی اجازت عنایت فرمائی تھی۔ ان کے علاوہ خواجہ نظام الدین تونسوی نے بھی آپ کو بیعت کرنے کی اجازت عطا فرمائی تھی۔

ترگ شریف آمد[ترمیم]

خواجہ غلام زین الدین چشتی جب اپنی تعلیم و تربیت سے فارغ ہوئے تو اپنے والد محترم کی بشارت کے مطابق کہ میرا بیٹا سر زمین کچھی کو آباد و شاد کرے گا بمطابق 1933ء میں آپ اپنا سازو سامان اور اثاثہ مکھڈ شریف میں چھوڑ کر ضلع میانوالی کی تحصیل عیسی خیل کے گاؤں ترگ شریف میں تشریف لے آئے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ اپنی والدہ ماجدہ اور اہل و عیال کو بھی اپنے ساتھ (ٹبہ شریف) ترگ شریف لے آئے۔

بارگاہ نبوی سے حدیث پاک پڑھانے کی اجازت[ترمیم]

خواجہ زین الدین چشتی کو حدیث پاک پڑھانے کی اجازت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حاصل ہوئی۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ حدیث پاک کی تعلیم دینے کے لیے خود رسول اللہ نے خواب میں مجھے اجازت عطا فرمائی۔ [1]

سرکار دو عالم سے والھانہ محبت و عقیدت[ترمیم]

حضرت خواجہ غلام زین الدین چشتی کو سید المرسلین رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات بابرکات سے نہایت محبت و عقیدت و عشق تھا۔ جو نہی سرکار دو عالم کا ذکر مبارک ہوتا آپ کی آنکھوں سے عقیدت و محبت کے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آتا۔ آپ کثرت سے نعت شریف سنتے تھے۔ آپ سات مرتبہ زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے مستفیض ہوئے۔ آپ نہایت انہماک ، خلوص اور کثرت سے درود پاک کا ورد کرتے تھے اور اپنے مریدین کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ آپ فرماتے تھے کہ وہی درود پاک قبول دربار رسالت ہوتا ہے اور درود پڑھنے میں اس وقت مزا اور سرور پیدا ہوتا ہے جب ایک مسلمان اس انداز سے انہماک و لگن اور تصور سے درود پاک پڑھے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے سرکار دو عالم کا روضہ اطہر اور گنبد خضری ہو اور وہ جناب رسالت مآب کے حضور صلوة و والسلام پڑھ رہا ہو اور ہدیہ درود و سلام بھیج رہا ہو اور جناب رسالت مآب اس کے اس درود پاک کو بنفس نفیس سن رہے ہوں۔ نبی کریم کی طرف سے اس مسلمان کے دل پر رحمت کا نزول ہو رہا اور اس کے دل کو اطمینان اور سکون حاصل ہو رہا ہو۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اسی تصور سے درود پاک بارگاہ رسالت میں پیش کیا جائے تو اس کا سب سے زیادہ اجر و ثواب ہے اور یہ بہت ہی بابرکت اور مقبول بارگاہ رسالت ہے اور زیارت رسول اللہ کا موجب ہے۔

اولیائے کرام سے عقیدت[ترمیم]

خواجہ صاحب کو مکھڈ شریف ، تونسہ شریف ، چشتیاں شریف ، پاکپتن شریف اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں سے نہایت محبت و عقیدت تھی اور اپنے مریدین کے ساتھ کثرت سے ان بزرگان دین کے مزارات پرانوار پر حاضری دیتے اور ان عظیم البرکت شخصیات کے عرائس مبارکہ پر حاضری دیتے۔ ان کے علاوہ آپ کئی مرتبہ اجمیر شریف اور دہلی میں موجود بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ [2] مٹھا خٹک کے مغرب پہاڑ کے دامن شرق میں دو بڑی قبور سو سو فٹ کی اور ایک چھوٹی قبر پچاس فٹ لمبائی پر مشتمل زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ روایت ہے کہ یہاں مدفون بزرگ دراصل صحابہ کرام ہیں لیکن سردار احمد خان خواجہ زین الدین چشتی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ چالیس گزے فقراء دراصل اولیائے کرام تھے جن کے نام قوت کشف سے ان پر منکشف ہوئے تھے۔ جن کے نام مقصود ، مسعود اور ولی اللہ ہیں۔ [3]

شب بیداری اور اخلاق حسنہ[ترمیم]

آپ نہایت عبادت گزار اور شب زندہ تھے۔ رات گئے نوافل ادا کرتے رہتے اور نہایت انہماک سے درود پاک کے ذکر میں مشغول رہتے اور نماز تہجد باقاعدگی کے ساتھ ادا فرماتے۔ آپ سادگی پسند تھے۔ خوراک سادہ استعمال کرتے ، لباس سادہ اور سفید استعمال فرماتے۔ صاحب جمال تھے اور جمال اتنا کہ دل چاہتا تھا کہ بس دیکھتے ہی رہیں۔ طبیعت میں اعتدال کا عنصر پایا جاتا تھا۔ میانہ روی اور اعتدال کے قائل تھے۔ آپ کی ان اوصاف حمیدہ کا عالم دل و جان سے معترف ہے۔

مدرسہ و مسجد زینت الاسلام کا قیام[ترمیم]

ترگ شریف آمد کے بعد آپ نے اعلائے کلمتہ الحق اور اشاعت علم دین کے لیے ایک وسیع علاقے پر ایک مسجد اور مدرسہ زینت الاسلام کی بنیاد رکھی۔ مسجد کو وہ شان ملی کہ پورے ترگ شریف اور مضافات سے ہزاروں لوگ نماز عید یہاں آکر پڑھتے ہیں۔ مدرسہ نے وہ مقام پایا کہ اکناف عالم سے طلبہ آ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔ درس نظامی کے علاوہ دورہ حدیث تک پڑھایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جید علمائے کرام اسی دینی درس گاہ میں خلق خدا کو زیور علم سے آراستہ و پیراستہ فرماتے ہیں اور خواجہ غلام زین الدین صاحب اساتذہ اور طلبہ کی آرام و آسائش کا بے حد خیال رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس دینی درس گاہ نے بے حد شہرت پائی۔ ممتاز اور جید علمائے کرام کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب خود بھی طلبہ کو درس نظامی کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ طلبہ کو اس انداز سے پڑھاتے تھے کہ سبق ذہن نشین ہو جاتا اور طلبہ بوجھ محسوس نہ کرتے۔ مشفقانہ اور ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ استاد کیا یہ شیوہ ہونا چاہیے کہ طلبہ کو پڑھانے سے پہلے سبق کا خود مطالعہ کر لے۔ آپ فرماتے کہ میں نے آج تک بغیر مطالعہ کیے کسی طالب علم کو سبق نہیں پڑھایا۔ فن حدیث پاک میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور آپ طلبہ کو حدیث پاک خود پڑھاتے تھے۔

بحیثیت مفتی[ترمیم]

آپ ایک اعلی درجے کے مفتی تھے۔ آپ جو فتوی دیتے اس پر عمل بھی کرواتے اور شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب اشخاص پر شرعی تعزیر بھی لگواتے۔ آپ کے فتوی کے خلاف کسی کو جرات نہ ہوتی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے کئی سال تک علم فتوی پڑھا۔ مطالعہ کرتے کرتے گھٹنوں پر نشانات پڑ گئے۔ ہر مسئلہ پر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایسا عبور حاصل ہے کہ مسئلہ جس کتاب میں جس صفحہ پر درج ہے وہ صفحات بھی یاد ہیں۔ مگر بغیر تحقیق کیے فتوی دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ آپ نے اپنی مبارک زندگی میں اکثر پیچیدہ مسائل کا حل فرما کر خلق خدا پر احسان عظیم کیا۔

بحیثیت مرد مجاہد[ترمیم]

خواجہ صاحب علم و عرفان کی لازوال دولت کے ساتھ ساتھ ایک مرد مجاہد اور خدا پرست بھی تھے۔ فسق و فجور اور باطل تحریکات کے خاتمے کے لیے آپ نے ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ نے اپنے دور میں چلنے والی متعدد اسلامی تحریکات میں اپنے مریدین کے ساتھ نہایت جوش و خروش اور ایمانی جذبے سے حصہ لیا۔ آپ نے تحریک مدح صحابہ (رضی اللہ تعالی عنہم) لکھنؤ میں ایک نہایت جاندار اور متحرک کردار ادا کیا اور اس تحریک میں ممتاز اور صف اول کے راہنماؤں میں شامل رہے۔ اسی تحریک میں آپ نے مولانا ظہور احمد بگوی کے ساتھ مل کر کام کیا اور اپنے مریدین کی ایک کثیر جماعت لے کر عازم لکھنؤ ہوئے۔ راستے میں واں بھچراں کے مقام پر گرفتارہو کر میانوالی جیل میں نظر بند کر دیے گئے۔ آپ کی مساعی جمیلہ سے بالآخر یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ اس کے علاوہ آپ تحریک جہاد کشمیر ، تحریک نظام مصطفی ﷺ اور تحریک ختم نبوت میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے قادیانی فتنہ کے خطر ناک نظریات سے لوگوں کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں اور ہمارے نبی کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا دجال کذاب اور کافر ہے۔ ان تحریکات میں اپنے مریدین کے ساتھ نہایت سرگرمی سے حصہ لیا اور کئی مرتنہ گرفتار بھی ہوئے۔

بحیثیت مقرر[ترمیم]

خواجہ صاحب کو فن تقریر میں ایک خاص مقام اور ملکہ حاصل تھا۔ آپ پنجابی اور اردو میں تقریر فرماتے تھے اور خطابات میں مولانا جامی ، علامہ محمد اقبال اور مولانا محمد علی مکھڈوی کے اشعار نہایت ترنم اور کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے خطاب میں نہایت شیرینی اور چاشنی ہوتی تھی جس سے سامعین نہایت محظوط ہوتے۔ آپ کو فن تقریر میں وہ ملکہ حاصل تھا کہ ایک گھنٹہ تقریر فرماتے تو اس کا مقصد لب لباب چند منٹوں میں بیان فرما دیتے۔ تبلیغ دین آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ خلق خدا کو دین حق کا راستہ بتایا اور ان کے دلوں میں عشق رسول کی شمع روشن فرمائی۔ آپ اکثر اپنے خطابات میں رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے حیات طیبہ کے واقعات و کرامات نہایت پر لطیف اور دل نشین انداز میں بیان فرماتے۔ محمد اقبال حسین کلیار صاحب فرماتے ہیں کہ ارد گرد کے علاقہ میں جب کبھی کوئی عالم خطاب کرنے کے لیے آتا تو خواجہ غلام زین الدین صاحب اپنے ساتھ بہت سی کتابیں لاتے اور اس مجلس میں شرکت فرماتے اور آپ سے جب پوچھا گیا کہ یا حضرت کیا وجہ ہے کہ آپ کتابیں ساتھ کیوں لاتے ہیں؟ فرمانے لگے کہ اکثر علما دوران تقریر کوئی بات کہہ ڈالتے ہیں اگر کوئی معترض اعتراض وارد کر دے تو جواب نہیں دے پاتے۔ میں کتابیں ساتھ اس لیے لاتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی بات ہو جائے تو میں مسلک حق اہل سنت و جماعت کی حقانیت ثابت کر سکوں اور معترض کو کتابوں کے حوالے سے جواب دے کر مطمئن کر دوں۔

بحیثیت مصنف[ترمیم]

خواجہ زین الدین چشتی ایک بلند پایہ کے مصنف تھے۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں درج ذیل شامل ہیں۔

  1. نجم الہدی فی مسئلہ حیات مصطفی ﷺ
  2. بدر الدجی
  3. نور الہدی
  4. شمس الضحی
  5. سعادت دارین
  6. فضیلت ذکر
  7. مجاہدین فی سبیل اللہ

نجم الہدی فی مسئلہ حیات مصطفی ﷺ آپ کی ایک نہایت مستند اور بلند پایہ تصنیف ہے جس میں آپ نے حضرت رسالب مآب کی حیات طیبہ اور مسئلہ حیات النبی کے متعلق مستند حوالے دیے ہیں اور اس کتاب کے ایک ایک لفظ سے آپ کی سرکار دو عالم سے عشق و محبت و عقیدت کا ثبوت ملتا ہے۔ کئی جید علمائے کرام نے اس کتاب کو ایک عارف و محقق کامل اور عاشق رسول کی والہانہ کاوشوں کا ایک شاہکار قرار دیا ہے۔

اسلامی مدارس و مساجد کا قیام[ترمیم]

خواجہ زین الدین چشتی نے اپنی پوری زندگی اشاعت اسلام اور ترویج علم دین کے لیے وقف کر دی اور علم کی روشنی کو پھیلانے کے لیے آپ نے پاکستان کے مختلف مقامات پر اسلامی مدارس اور مساجد قائم کیں اور ان میں ممتاز اور جید علمائے کرام ، قراء اور حفاظ کرام کو تعینات کیا۔ ان میں

  1. مدرسہ زینت الاسلام ترگ شریف عیسی خیل
  2. جامعہ محمدیہ نوریہ عیسی خیل
  3. مدرسہ زینت الاسلام شیخ آباد شریف عیسی خیل
  4. مدرسہ زینت الاسلام کمرمشانی عیسی خیل
  5. مدرسہ زینت الاسلام مکڑوال عیسی خیل
  6. مدرسہ عربیہ کندھ جیکب آباد سندھ
  7. مدرسہ جامع محمدیہ حنفیہ فریدیہ چشتیہ سلیمانیہ رجسٹرڈ مہاجر کیمپ کراچی
  8. جامع مسجد و مدرسہ انوار مدینہ گلشن اقبال کراچی
  9. جامعہ فیض محمدی
  10. جامع مسجد و مدرسہ تجلی نور نئی آبادی سعید آباد کراچی

وغیرہ شامل ہیں۔ ان مشہور مدارس و مساجد کے علاوہ اور بھی کئی دوسرے مدارس و مساجد قائم کر کے ملک کے کونے کونے میں علم دین کی مقدس شمع کو روشن کیا۔ [4]

وصال مبارک[ترمیم]

خواجہ غلام زین الدین چشتی بروز جمعرات 21 ذی الحجہ شریف 1398ھ بمطابق 22-23 نومبر 1978ء کی درمیانی شب بعد نماز عشاء سعید آباد کراچی میں ایک عالم کو روتا ہوا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔

وصال سے قبل آپ نے نماز عشاء کی امامت خود فرمائی۔ وصال کے وقت آپ کے مریدین خاص میں سے میاں نور محمد شاہ میانہ والا میانوالی اور صوفی بشیر احمد مگھیاں اٹک والے تھے اور جناب ملک میاں محمد کراچی والے موجود تھے جن کے گھر آپ ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ کے وصال کی خبر پورے ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

نماز جنازہ[ترمیم]

خواجہ صاحب کے وصال کے دوسرے دن کراچی میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس کے بعد آپ کا جسد مبارک کراچی سے فیصل آباد بذریعہ طیارہ اور پھر ادھر سے ترگ شریف لایا گیا۔ ترگ شریف میں آپ کی نماز جنازہ آپ کے بہترین دوست اور معتمد ساتھی اور میانوالی کے ممتاز عالم دین اور فقیہہ کامل مولانا فخر الدین گانگوی صاحب نے پڑھائی۔ متعدد علمائے کرام اور مشائخ عظام نے بھی آپ کی نماز جنازہ میں شرکت فرمائی۔ آپ کی نماز جنازہ میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ یہ آثم بھی اس نماز جنازہ میں شریک تھا۔ 24 نومبر 1978ء بمطابق 23 ذی الحجہ 1398ھ کو دوپہر کے وقت اس عظیم مرد مجاہد کے جسد انوار کو سپرد خاک کیا گیا۔

مزار اور عرس[ترمیم]

ترگ شریف میں خواجہ غلام زین الدین چشتی کا مزار عوام کے لیے زیارت گاہ ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر اسلامی سال کے 20 ، 21 اور 22 ذی الحجہ کو ترگ شریف تحصیل عیسی خیل ضلع میانوالی میں نہایت تزک و احتشام اور عقیدت سے منایا جاتا ہے جس میں ملک کے کونے کونے سے آپ کے مریدین شامل ہوتے ہیں۔ ممتاز علمائے کرام ، خطباء ، نعت خواں حضرات اور مشائخ عظام کی تقاریر ہوتیں ہیں اور عوام الناس ان روحانی محفلوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

اولاد[ترمیم]

حضرت خواجہ غلام زین الدین چشتی نظامی کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. غلام معین الدین چشتی
  2. قطب الدین چشتی
  3. نصیر الدین چشتی
  4. علاء الدین چشتی

خواجہ زین الدین چشتی کے بعد آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے خواجہ غلام معین الدین چشتی المعروف چن ماہی صاحب آپ کی درگاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ [5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے کرام سرزمین اولیاء میانوالی تالیف سید طارق مسعود شاہ کاظمی صفحہ 181 تا 185
  2. تذکرہ اولیائے کرام سرزمین اولیاء میانوالی تالیف سید طارق مسعود شاہ کاظمی صفحہ 188 تا 189
  3. تذکرہ اولیائے کرام سرزمین اولیاء میانوالی تالیف سید طارق مسعود شاہ کاظمی صفحہ 420 تا 422
  4. تذکرہ اولیائے کرام سرزمین اولیاء میانوالی تالیف سید طارق مسعود شاہ کاظمی صفحہ 184 تا 190
  5. حیات مرشد تالیف حاجی غلام قاسم شاہ