موت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مختلف سیاق و سباق میں موت کے معانی مختلف ہوتے ہیں- خلیے کی موت اور کثیر خلوی جانوروں کی موت دو بالکل مختلف مظاہر ہیں- کثیر خلوی جانوروں میں ان جانوروں کی موت کی تعریف مختلف ہے جن میں سینٹرل نروس سسٹم نہیں ہے اور ان میں مختلف ہے جن میں سینٹرل نروس سسٹم موجود ہے- انسان کی موت اس وقت ہوتی ہے جب شعور کی موت ہوتی ہے- ایسا شخص جس کا شعور مر چکا ہو اس کے جسم کو ہم چاہیں تو بہت دیر تک زندہ رکھ سکتے ہیں- یعنی دماغ انسان کے بہت سے سب سسٹمز میں سے ایک سب سسٹم ہے جو باقی تمام سب سسٹمز کو کنٹرول کرتا ہے- لیکن بہت سے سب سسٹمز دماغ کے براہِ راست کنٹرول کی عدم موجودگی میں بھی مصنوعی طور پر زندہ رکھے جا سکتے ہیں- گویا انسان کی موت اور انسان کے سب سسٹمز کی موت کا پیمانہ الگ ہے- پھر ان میں سے ہر ایک سب سسٹم میں ہر وقت خلیے مر رہے ہوتے ہیں، نئے خلیے بن رہے ہوتے ہیں اور یہ سب ایک کنٹرولڈ میکانزم کے تحت ہوتا ہے- اگر یہ کنٹرول ختم ہو جائے اور خلیے دھڑادھڑ بننے لگیں تو اس عضو کا فنکشن ناممکن ہو جاتا ہے- اس حالت کو ہم کینسر کہتے ہیں- گویا خلیوں کے لیول پر زندگی اور موت کی ڈیفینیشن بالکل ہی الگ ہے- خلیے کی موت اس وقت ہوتی ہے جب اس میں ہومیوسٹیٹس ختم ہو جائے اور وہ خلیے کی اندرونی حالت کو بیرونی حالت سے الگ نہ رکھ پائے- ایسا عموماً اس وقت ہوتا ہے جب خلیے کی بیرونی دیوار ٹوٹ جائے اور خلیے کا میٹیریل خارج ہو جائے- کسی بھی سب سسٹم میں خلیوں کے ساتھ ایسا ہر وقت ہو رہا ہوتا ہے- سب سسٹم کی موت اس وقت ہوتی ہے جب اس میں اتنے خلیے ناکارہ ہو جائیں یا کم از کم اپنا designated کام چھوڑ دیں کہ وہ سب سسٹم اپنا فنکشن ادا نہ کر سکے- دل کے مسلز کا کچھ حصہ مر جائے تو بھی دل اپنا کام کرتا رہتا ہے- یہی وجہ ہے کہ دل کے دورے کے بعد بھی نہت سے لوگ زندہ رہ جاتے ہیں اور ایک partially functional دل کے ساتھ بھی کم و بیش نارمل زندگی گزار سکتے ہیں- لیکن دل کے اتنے خلیے مر جائیں کہ دل پریشر ہی پیدا نہ کر سکے تو اسے دل کی موت کہا جا سکتا ہے- اس صورت میں اگر دل کو سرجری سے تبدیل کر دیا جائے یا مصنوعی دل لگا دیا جائے تو انسان زندہ رہ سکتا ہے اگرچہ اس کا اوریجنل دل مر چکا ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اسباب موت[ترمیم]

مغربی آسٹریلیا میں انکومینٹیشن لاش، 1905.
ترقی پزیر ممالک میں اسباب اموات تعداد اموات ترقی یافتہ ممالک میں اسباب اموات تعداد اموات
ایچ آئی وی-ایڈز 2,678,000 مرض قلب اقفاری 3,512,000
زیریں تنفسی عدوی 2,643,000 سکتہ (فالج) 3,346,000
مرض قلب اقفاری 2,484,000 مسدود مزمن مرض ریوی 1,829,000
اسہال 1,793,000 زیریں تنفسی عدوی 1,180,000
دماغی شریانوں کا مرض 1,381,000 پھیپھڑوں کا سرطان 938,000
امراض اطفال 1,217,000 حادثات مرور 669,000
ملیریا 1,103,000 سرطان معدہ 657,000
سل (ٹی بی) 1,021,000 بلند فشار خون 635,000
مسدود مزمن مرض ریوی 748,000 سل (ٹی بی) 571,000
حصبہ (خسرہ) 674,000 خودکشی 499,000

اسلام اور ادیان[ترمیم]

موت کے متعلق تمام ادیان اور سائنس متفق تو ہے، وہ ہمیں موت کے بارے میں باتیں بتاتے ہیں لیکن ایک حد ایسی آتی ہے جہاں سے آگے سوائے اسلام کے کوئی مذہب یا سائنس جواب نہیں دے سکتا۔ کچھ مختصر مفہومات درجہ ذیل ہیں:

اسلام، یہودیت اور مسیحیت[ترمیم]

ان تینوں مذہبوں میں دیگر کے نسبت موت پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مگر اسلام نے موت کو سب سے تفصیلاً بیان کیا ہے اور اپنے پیروؤں کو ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کو حقیقی زندگی مان کر دنیا میں صالح کردار پیش کرنے کی نصیحت کی ہے۔

جزء آخر[ترمیم]

جزء آخر (telomere)

جزء آخر جس کو انگریزی میں telomere کہا جاتا ہے دراصل لونی جسیمات یا کروموسومز کے سروں (اطراف) پر ڈی این اے کے جزء یا ٹکڑے ہوتے ہیں جو مختلف افعال انجام دینے کے ساتھ ساتھ ڈی این اے اور بالفاظ دیگر لونی جسیمات کی حفاظت کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔ ہر بار جب خلیہ تقسیم ہوتا ہے تو ان کی طوالت کچھ کم ہوجاتی ہے اور سائنسی شواہد اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ان کی طوالت کا گھٹتے چلے جانا، حیات کی طوالت یا یوں کہہ لیں کہ موت سے سروکار رکھتا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]