نغمہ بیگم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نغمہ (انگریزی: Naghma)، نے فلم پروڈیوسر اور کیمرامین اکبر ایرانی سے شادی کی اور اعلی فلم کے ہیرو حبیب. وہ پنجابی فلموں میں ایک سپرسٹار فلم نایکا تھی۔ یہ فلموں میں اب بھی سپورٹ اداکارہ ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو قائم ہوئے ویسے تو اڑسٹھ سال کا طویل عرصہ ہو گیا، مگر اس دوران اس میں بڑے نشیب و فراز آئے۔ 1948ء میں بننے والی پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ سے لے کر 1988ء تک کا عرصہ یعنی 40 سال تک تو بڑا پررونق رہا اور اس انڈسٹری نے بہت ترقی کی، مگر وی سی آر کے آجانے سے اس انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ انڈین فلمیں وی سی آر پر بے تحاشا آنے لگیں اور ویڈیو کے ذریعے اس وبا نے 1980ء سے لے کر 1990ء تک اس قدر انڈین فلموں کی نمائش کی کہ ہماری فلم انڈسٹری برُی طرح متاثر ہوئی۔ اس کے بعد سی ڈی اور ڈی وی ڈی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور پوری فلم انڈسٹری ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ حکومتی سطح پر اس کی کوئی پزیرائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس طرف کوئی دھیان دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے شمار فنکار بے روزگاری کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ اس صنعت سے دور ہو گئے، مگر آج بھی بہت سے ایسے فنکار موجود ہیں جنھوں نے اس انڈسٹری کا ساتھ نہیں چھوڑا اور معالج بن کر اس کا علاج کرتے رہے، مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ صبیحہ خانم، بہار بیگم، نیئر سلطانہ، آشا پوسلے، نیلو، راگنی، زینت، زمرد، فردوس بیگم، دیبا بیگم، سنتوش کمار، لالہ سدھیر، حبیب، اسد بخاری، یوسف خان، اعجاز، آزاد، ریحان اور نہ جانے کتنے اداکار اس انڈسٹری سے آج تک وابستہ ہیں۔ ان میں بہت سے فنکار تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر جو موجود ہیں، وہ آج تک اس انڈسٹری سے وابستہ ہیں، انھیں حکومت کی جانب سے تعاون ملنا چاہیے کیونکہ یہ لوگ ہمارے ملک کی شناخت ہیں۔ ان فنکاروں میں اداکارہ نغمہ بیگم بھی اسی دور کی ایک فنکارہ ہیں، جو نہ تو کسی تعارف کی محتاج ہیں اور نہ ہی انھیں کسی کی مدد کی کوئی خاص ضرورت ہے، کیونکہ انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کے ابتدائی دور سے لے کر آج تک بے انتہا محنت کی اور بہت عزت و شہرت حاصل کی۔ انھوں نے ہمیشہ وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھا اور اپنے سے بڑے سینئر کا احترام بھی کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کامیاب رہیں اور پنجابی فلموں کی ملکہ کھلائیں۔ نغمہ کا اصلی نام پروین بیگم ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے ڈائریکٹر ایم جے رانا کی پنجابی فلم ’’رانی خان‘‘ میں کام کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی بابا جی اے چشتی نے بنائی تھی۔ اس فلم میں نغمہ کو کوئی بڑا رول تو نہیں ملا تھا، مگر اس فلم سے ان کی شناخت ضرور ہو گئی تھی۔ اس فلم میں حسنہ، لیلیٰ، ظریف، اکمل، صبا، اجمل اور کامیڈی اداکار نذر شامل تھے۔ یہ فلم کامیڈی نوعیت کی تھی اور اس فلم میں نذر کا رول بھی بڑا تھا۔ یہ فلم 14 نومبر 1960ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ نغمہ کی دوسری فلم ’’چوہدری‘‘ تھی۔ یہ فلم بھی پنجابی تھی، اس فلم میں ان کا ہیروئن کا رول تھا، جبکہ اس فلم میں لیلیٰ جیسی اداکارہ بھی موجود تھیں۔ اس فلم کے ڈائریکٹر مظفر طاہر تھے اور اس فلم کی موسیقی طفیل فاروقی اور اے حمید نے مل کر بنائی تھی۔ اس فلم کے ہیرو اکمل تھے، اس کے علاوہ اس فلم میں آصف جاہ، سلمیٰ ممتاز، زینت اور اسد بخاری نے بھی کام کیا تھا۔ نغمہ بیگم اپنی دوسری فلم سے ہٹ ہوکر منظرعام پر آگئی تھیں۔ یہ فلم 12 مئی 1962ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ نغمہ بیگم کی پہلی اردو فلم ڈائریکٹر شباب کیرانوی کی فلم ’’مہتاب‘‘ تھی، جو سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم میں نیر سلطانہ اور حبیب ہیرو ہیروئن تھے، جبکہ اس فلم میں رخسانہ نے بھی سائیڈ رول پلے کیا تھا اور عوامی اداکار علاء الدین نے اس فلم میں گول گپے ایسے بیچے تھے اور ایسا گانا گایا تھا کہ آج بھی پورے پاکستان میں یہ گانا گول گپے بیچنے والے جگہ جگہ بجاتے ہیں۔ احمد رشدی کی آواز میں یہ گانا علاء الدین پر فلمایا گیا تھا اور یہ گانا دنیا کا واحد گیت ہے جو پچاس سال گذر جانے کے باوجود آج بھی سنائی دیتا ہے۔ نغمہ بیگم اس فلم سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔ اسی دوران ان کی دوسری اردو فلم ’’ماں کے آنسو‘‘ ریلیز ہوئی، اس فلم کے ڈائریکٹر بھی شباب کیرانوی تھے۔ اس فلم کے ہیرو حبیب تھے اور ہیروئن نیر سلطانہ تھیں۔ اس فلم میں نغمہ نے سائیڈ ہیروئن کا رول پلے کیا تھا۔ اس فلم میں ان کی جوڑی اداکار روشن کے ساتھ تھی اور ان پر فلمایا یہ گیت 1963ء میں بہت سنائی دیتا تھا۔ ’’سماں جب پیارا پیارا ہو، پیار کو دل کا سہارا ہو‘‘ یہ گانا نغمہ اور روشن پر فلمایا گیا تھا۔ فلم ’’ماں کے آنسو‘‘ بھی سپرہٹ ہوئی تھی جو 29 مارچ 1963ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اپنی دونوں اردو فلموں میں نغمہ بیگم نے بہت عمدہ اداکاری کی تھی۔ اس فلم کا ایک اور گانا بھی بڑا سپرہٹ ہوا تھا جس کے بول ہیں ’’اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا‘‘ اسی دوران نغمہ کی دو پنجابی فلمیں ’’زرینہ‘‘ اور ’’جمالو‘‘ بھی ریلیز ہوئی تھیں۔ فلم ’’زرینہ‘‘ میں یہ اداکار یوسف کے ساتھ تھیں، مگر اس فلم کی ہیروئن حسنہ تھیں اور نغمہ بیگم سائیڈ ہیروئن تھیں۔ فلم ’’زرینہ‘‘ بھی ہٹ ہوئی تھی۔ فلم ’’جمالو‘‘ میں یہ اداکار اسد بخاری کے ساتھ آئی تھیں۔ اس فلم میں مینا شوری اور ظریف وغیرہ شامل تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نغمہ بیگم سپراسٹار اداکارائوں میں شامل ہوگئیں۔ نغمہ بیگم کی ابتدائی فلموں میں اداکار اکمل خان تھے اور ان کی جوڑی ان کے ساتھ بے انتہا مقبول ہوئی تھی۔ نغمہ نے شمیم آرا کے ساتھ فلم ’’سازش‘‘ میں کام کیا۔ زیبا بیگم کے ساتھ فلم ’’سمیرا‘‘ میں انھوں نے اپنے فن کے جلوے دکھائے۔ فلم ’’ڈاچی‘‘ میں یہ نیلو کے ساتھ آئیں اور فلم ’’ممتا‘‘ میں یہ بہار بیگم اور یاسمین شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ لالہ سدھیر، محمد علی، وحید مراد، یوسف خان، اعجاز درانی، اسد بخاری اور علاؤالدین کے علاوہ تقریباً تمام سپرہٹ اداکاروں کے ساتھ یہ سنیما اسکرین کی زینت بنیں اور بے پناہ شہرت حاصل کی۔ نغمہ بیگم کی معروف جوڑی اکمل کے مرنے کے بعد حبیب کے ساتھ رہی اور انھوں نے ان کے ساتھ کئی درجن فلموں میں کام کیا اور یہ قربتیں اتنی بڑھیں کہ دونوں نے 1972ء میں شادی کرلی، مگر یہ شادی زیادہ عرصہ تک کامیاب نہ رہ سکی تھی، جلد ہی دونوں میں اتفاق رائے سے علیحدگی ہو گئی، مگر اس دوران ایک بیٹی ضرور پیدا ہوئی، جس کا نام زرینہ ہے جو لاہور میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہیں اور اداکار حبیب اور نغمہ اس سے ملتے رہتے ہیں۔ اداکارہ نغمہ نے صحیح معنوں میں اپنے کیریئر کی شروعات 1962ء سے کی اور ابھی تک وہ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ پچھلے سال ہی عیدالاضحی کے دن 25 ستمبر 2015ء کو ان کی ایک فلم ’’صنم‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی تھی، جس میں اداکار بابر علی اور صائمہ تھے۔ یہ فلم ڈائریکٹر سید نور نے بنائی تھی۔ اداکارہ نغمہ نے اپنے فلمی کیریئر میں تقریباً 250 کے قریب فلموں میں کام کیا ہے، جس میں 50 کے قریب ان کی اردو ہیں اور 180 کے قریب ان کی پنجابی فلمیں ہیں، اس کے علاوہ ان کی دو درجن کے قریب ایسی بھی فلمیں ہیں جو اردو اور پنجابی زبان میں ایک ساتھ ریلیز ہوئی تھیں (ڈبل ورژن) ان میں فلم ’’نادرہ‘‘، ’’نگینہ‘‘،’’مستان خان‘‘، ’’اسلحہ‘‘،’’راجا‘‘، ’’نمبرون‘‘، ’’مرد‘‘، ’’بیتاب‘‘، ’’امیر خان‘‘، ’’زخمی عورت‘‘ اور ’’رنگیلے جاسوس‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ نغمہ نے پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کے اشتراک سے بننے والی فلم ’’لو ان نیپال‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم فلمساز و ہدایتکار وزیر علیٰ نے بنائی تھی۔ اس فلم کی موسیقی روبن گھوش نے بنائی اور اس فلم میں شبنم، اظہار قاضی، اسماعیل شاہ، ششما شاہی اور شوکت اکبر وغیرہ شامل تھے۔ یہ فلم 6 مارچ 1987ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں بھی نغمہ نے بہت عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے زوال پزیر ہونے کے بعد بھی اداکارہ نغمہ بیگم پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ رہیں۔ اس دوران ان کی ہر سال کئی فلمیں ریلیز ہوتی رہیں۔ ان میں چند فلمیں یہ ہیں۔ ’’لو ان ہالینڈ‘‘ جو 2000ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں نغمہ بیگم، لیلیٰ، احسان خان اور مصطفیٰ قریشی کے ساتھ نمودار ہوئی تھیں۔ فلم ’’بارڈر‘‘ میں یہ اداکار شان شاہد اور ثناء کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ فلم ’’صاحب لوگ‘‘ میں نغمہ بیگم، صائمہ، ارباز خان اور معمر رانا کے ساتھ آئیں۔ فلم ’’کبھی پیار نہ کرنا‘‘ میں یہ اداکارہ زارا شیخ اور معمر رانا کے ساتھ جلوہ گر ہوئیں۔ 2008ء میں ڈائریکٹر پرویز رانا کی فلم ’’سہاگن‘‘ میں شان، نرگس اور بابر علی کے ساتھ شرکت کی۔ نغمہ بیگم نے مسلسل فلموں میں کام کرکے یہ ثابت کر دیا کہ فلمی صنعت نہ ہونے کے باوجود وہ ابھی تک اس انڈسٹری کا اہم حصہ ہیں۔ 2010ء میں فلم ’’پھول اور کانٹے‘‘ اور ’’الیاسا گجر‘‘ ان کی عمدہ فلمیں ہیں۔ 2012ء میں ریلیز ہونے والی ان کی یہ دو فلمیں ’’شریکا‘‘ اور ’’دل دیاں لگیاں‘‘ بھی اچھی فلموں میں شمار ہوتی ہیں۔ سیکڑوں فلموں میں کام کرنے والی پنجابی فلموں کی ملکہ اداکارہ نغمہ بیگم آج بھی فلموں کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے، مگر ان کی چند فلمیں یہ ہیں۔ ’’بارات‘‘، ’’ہتھ جوڑی‘‘، ’’باغی سپاہی‘‘، ’’انسپکٹر‘‘، ’’پلیلی صاحب‘‘، ’’مقابلہ‘‘، ’’یاردوست‘‘، ’’میں چپ رہوں گی‘‘، ’’منگیتر‘‘، ’’میرا ویر‘‘، ’’میلہ دو دن دا‘‘، ’’وساکی‘‘، ’’لنگوٹیا‘‘، ’’ضدی‘‘، ’’دلہن لے کے جائوں گا‘‘ اور ’’برسات کی رات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی سیکڑوں فلمیں ہیں، جن میں انھوں نے اپنے فن کا عمدہ مظاہرہ کیا۔ اداکارہ نغمہ بیگم آج بھی اپنے وقت کی پابند ہیں اور بڑے چھوٹے سب کی عزت کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ان کی عزت کرتا ہے۔ کاش نغمہ بیگم کی طرح حکومتی ادارے کو بھی اس کا احساس ہوجائے کہ یہ انڈسٹری ان کی بھرپور توجہ چاہتی ہے اور دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبے پر بھی توجہ دی جائے، خاص کر پنجاب حکومت اس ویران فلم انڈسٹری کو پھر سے اسی مقام پر لا سکتی ہے جو آج سے بیس پچیس سال پہلے تھی۔ کیا ایسا ممکن ہے؟