ہفت اورنگ
ہفت اورنگ مولانا جامی کی تصنیف ہے جو فارسی ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔
ہفت اورنگ کا مختصر جائزہ
[ترمیم]ہفت اورنگ فارسی کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، ہفت سے مراد سات اور اورنگ کے معنی تخت کے ہوتے ہیں، یعنی سات تخت یا سات درجات۔ دراصل یہ تصنیف شاعری کی وہ صنف ہے جس میں سات مثنویاں یا حکایات شعر کی شکل میں نظم کی جائیں۔ ہفت اورنگ کے دوسرے معانی جو خود مولانا جامی نے بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ: اُن سات ستاروں کو بھی ہفت اورنگ کہتے ہیں جو شمال میں واقع بنات النعش کا حصہ ہیں۔ وہ دیکھنے میں سات ہی معلوم ہوتے ہیں اور اُن کی ظاہری ساخت یوں دکھائی دیتی ہے جیسے ایک تخت پر دوسرا تخت رکھ دیا گیا ہو۔
- دین اسلام، فلسفہ اور رموز ہائے تصوف اِن مثنویوں میں جا بجا پائے جاتے ہیں جن سے مولانا جامی کی روحانی و فلسفی شخصیت ہمارے سامنے تصور میں آ جاتی ہے۔
سات مثنویاں
[ترمیم]اِس میں سات مثنویاں بشکل حکایات یوں ہیں:
- سلسلة الذهب: (سونے کی زنجیر)، یہ مثنوی سبق آموز حکایات پر مشتمل ہے۔
- یوسف و زلیخا: مثنوی یوسف و زلیخا کے نام سے لکھی گئی یہ مثنوی فارسی شاعری میں اہم مقام رکھتی ہے۔ اِس مثنوی میں عزیز مصر پوتیفار کی زوجہ زلیخا کا حضرت یوسف علیہ السلام سے عشق و محبت کی داستاں ہے جو عین اسلامی روایات کی بنا پر شعر کی شکل میں نظم کی گئی ہے۔
- سبحة الابرار: (پرہیزگاروں کی مالا)، بھی سبق آموز حکایات پر مشتمل مثنوی ہے۔
- سلامان و ابسال: یہ مثنوی بھی ایک برباد محبت کی کہانی ہے جس میں ایک شہزادے سلامان کی عشقیہ داستان اُس کی کنیز ابسال کے ساتھ شعری انداز میں بیان کی گئی ہے۔ دراصل یہ یونانی عشقیہ داستان ہے جسے اوائل عہد اسلامیہ میں عربی زبان میں ابن حنین نے ترجمہ کیا تھا۔ اُسی عربی ترجمہ سے مولانا جامی نے اِسے فارسی زبان میں ڈھال لیا اور اب تک یہ مثنوی کتاب ہفت اورنگ میں ایک شاہکار بنی ہوئی ہے۔ فارسی ماہر لسانیات علی اکبر دہخدا کے مطابق یہ ایک اسرائیلی داستان ہے جو زمانہ قبل از مسیح موجودہ فلسطین کے کسی قصبہ یا شہر میں انجام پائی۔ انگریزی شاعر ایڈورڈ فٹز جیرالڈ (پیدائش: 31 مارچ 1809ء - وفات: 14 جون 1883ء ) نے اِس کا انگریزی ترجمہ کیا تھا جو 1904ء میں لندن سے شائع ہوا۔
- تحفۃ الاحرار: (آزاد کے ہدیے)، اِس میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے صلے میں ملنے والی نیکیوں کا اجر بیان کیا گیا ہے۔
- لیلیٰ مجنوں: یہ مثنوی دو عظیم عشقیہ کردار لیلیٰ مجنوں کی عشقیہ داستان ہے۔ یہ بھی شاہکار تصور کی جاتی ہے۔
- خردنامهٔ اسکندری: (حکمت و نصائح سکندر اعظم)، اِس حصہ میں سکندر اعظم کی اُن حکایات و نصائح کا ذکر کیا گیا ہے جو اُس کی فتوحات کے زمانہ میں اُسے نے عوام اور اپنی شاہی فوج سے بیان کیں۔ یہ حکمت و نصائح کا مجموعہ فارسی ادب میں شاہکار مانا جاتا ہے۔
نسخہ فرئیر جامی
[ترمیم]1556ء سے 1565ء کے درمیانی عرصہ میں جب فرئیر مشہد کا گورنر تھا، تو اُسے ابراہیم مرزا نے امداد میسر کی تاکہ وہ ہفت اورنگ کو مصوری میں ڈھال دے۔ اِس نتیجے میں ہفت اورنگ کا وہ شاہکار دیکھنے میں آیا کہ آج تک فارسی ادب میں شاعری کو مصوری کے رنگ میں ڈھالا نہیں گیا۔ اب یہ نسخہ فرئیر جامی کہلاتا ہے اور نگارخانہ ہنر فرئیر واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہے۔
مزید پڑھیے
[ترمیم]- Simpson, J.R.R. Marianna Shreve (1997). Sultan Ibrahim Mirza's Haft Awrang: A Princely Manuscript from Sixteenth-Century Iran. Yale University Press. hardback: ISBN 978-0-300-06802-3