مندرجات کا رخ کریں

اجازت (فلم)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اجازت (فلم)
Film poster
ہدایت کارگلزار
پروڈیوسرR.K. Gupta
تحریرSubodh Ghosh (story)
Gulzar (screenplay & dialogues)
ستارےریکھا
نصیر الدین شاہ
Anuradha Patel
موسیقیآر ڈی برمن
سنیماگرافیAshok Mehta
ایڈیٹرSubhash Sehgal
تاریخ نمائش
  • 8 جولائی 1987ء (1987ء-07-08) (India)
دورانیہ
137 minutes
زبانہندی زبان

اجازت (انگریزی: Ijaazat)گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی بنگالی کہانی پر مبنی بالی وڈ فلم ہے جسے سبودھ گھوش نے لکھا ہے۔[1] اہم کرداروں میں ریکھا اور نصیر الدین شاہ ہیں۔ ان کے علاوہ انورادھا پٹیل اور ششی کپور بھی ہیں۔ اس فلم کو موسیقی میں دو قومیم اعزازات حاصل ہوئے۔[2][3][4]

پلاٹ

[ترمیم]

سودھا ایک عام سی ہندوستانی لڑکی ہے جس کی منگنی پانچ برس قبل مہیندر سے ہوجاتی ہے۔ مہیندر اس دوران طالب علم ہوتا ہے اور شادی ٹالتا رہتا ہے۔ مگر لڑکا چونکہ لڑکا ہی ہے لہذا اسے ایک لڑکی سے پیار ہوجاتا ہے جو دیوانی مستانی اپنی چال آپ چلنے والی مگر دلدار لڑکی ہوتی ہے۔ وہ مہیندر کے دل میں ایسی جگہ بناتی ہے کہ مہیندر سودھا سے شادی کو انکار کرتا ہے مگر جب گھر جاتا ہے تو مایا بھی جا چکی ہوتی ہے۔ ناچار مہیندر سودھا کو بیاہ لیتا ہے۔ مگر مایا تو مایا ہے۔ پھر لوٹ آتی ہے۔ اس کی بھی کیا غلطی ہے۔ دلدار ہے۔ پاگل ہے مگر کھلی مزاج کی ہے۔ اس کے دل میں ذرا بھی ڈر خوف نہیں۔ اور نہ کوئی لالچ اور دھوکا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ مہیندر سودھا کو چھوڑ دے اور نا خود مہیندر سے دور جانا چاہتی ہے۔

اس جگہ گلزار صاحب تینوں کردارو سے خوب اچھی طرح کھیلتے ہیں۔ بھنورے کو گلاب پسند ہے مگر موگرا اس کے زیادہ قریب ہے۔ گلاب تک وہ جا نہیں سکتا مگر اس کی خوشبو کے بنا رہ نہیں سکتا ہے۔ مایا بیمار ہوتی ہے اور مہیندر اس کی تیمارداری کرتا ہے۔ ادھر سودھا کو شک ہوتا ہے کہ مہیندر اب بھی مایا سے دور نہیں رہنا چاہتا لہذا وہ گھر چھوڑ جاتی ہے۔ کہاں؟ پتا نہیں۔ کیوں؟ پتا نہیں۔ بس وہ مہیندر کو دکھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ وہ مایا کا ہے اور اسی کا ہوکر رہے گا۔ آج کل کے لڑکوں کو سنسکاری بیوی کہاں پسند آتی ہے۔ اسے اسٹائلش لڑکی چاہیے جو اس کا دل بہلائے اور آزاد بھی ہو۔ مہیندر گھر آیا تو سودھا جا چکی تھی اور مایا کے گھر گیا تو وہ بھی ندارد۔ اب کیا تھا۔ وہ اکیلا پڑ گیا اور بیمار ہوا۔ اس کی بیماری سن کر مایا آئی اور اس کے ساتھ رہنے لگ گئی۔ ادھر سودھا نے دوسری شادی کرلی۔ ادھر مایا نے خود کشی کرلی۔ اور مہیندر اکیلا رہ گیا۔ وہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے قابل ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں بھاتے۔ لوگ انھیں خوش نصیب سمجھتے ہیں مگر وہ خود اپنے اندر غموں کی دنیا آباد رکھتے ہی۔ مہیندر دراصل ایسا ہی تھا۔

فلم کی پوری کہانی فلیش بیک میں چلتی ہے۔ آغاز کچھ یوں ہے کہ مہیندر ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں رات گزارتا ہے کیونکہ صبح اس کی ٹرین ہوتی ہے۔ اتفاق سے سودھا بھی اسی ویٹنگ روم میں ہوتی ہے۔ اور بس یہیں سے کہانی بار بار فلیش بیک میں جاتی ہے۔ رات کے ابتدائی حصہ میں کہانی شروع ہوتی ہے اور صبح کو اسی ویٹنگ روم میں کہانی ختم بھی ہو جاتی ہے جب سودھا کا دوسرا شوہر اسے لینے آجاتا ہے۔ مہیندر کا کیا۔ وہ پہلے بھی اکیلا تھا اب بھی اکیلا ہے۔

اس فلم کی خوبی یہ ہے کہ مہیندر، مایا اور سودھا تینوں ہی ایماندار ہیں مگر تینوں ہی اپنی مراد نہیں پاتے۔ آپ کہیں گے مایا اور مہیندر کا تو ٹھیک ہے مگر سودھا تو خوش ہے اپنے شوہر کے ساتھ۔ بھائی صاحب یہ گلزار کی فلم ہے۔ فلم کے آخری پانچ منٹ میں سودھا کو احساس ہوتا ہے کہ مہیندر کو چھوڑ کر جانا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

مہیندر کا کردار نصیرالدین شاہ نے کیا ہے۔ سودھا ریکھا ہیں اور مایا انورادھا پٹیل بنی ہے۔

کردار

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Gulzar، Govind Nihalani، Saibal Chatterjee (2003)۔ Encyclopaedia of Hindi cinema۔ Popular Prakashan۔ صفحہ: 337۔ ISBN 81-7991-066-0 
  2. "The Master at His Best"۔ اخذ شدہ بتاریخ December 14, 2018 
  3. "Gulzar to make a Bengali film"۔ timesofindia.indiatimes.com۔ اخذ شدہ بتاریخ December 14, 2018 
  4. "Relationship status: it's complicated"۔ thehindu.com۔ اخذ شدہ بتاریخ December 14, 2018