امرؤ القیس
امرؤ القیس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 501ء نجد |
وفات | سنہ 544ء (42–43 سال) انقرہ |
وجہ وفات | چیچک |
والد | حجر بن حارث |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، سیاست دان |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
امرؤ القیس عہد جاہلیت کا ممتاز عرب شاعر تھا۔
حالات زندگی
[ترمیم]ملک الضلیل، ذوالقروح چند بن حجر کندی۔ اس کا باپ شاہان کندہ کی نسل سے تھا اور بنو اسد کا بادشاہ تھا۔ یہ اپنے باپ کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا اور ناز و نعم میں جوان ہوا، سرداری کے ماحول میں پرورش ہوئی۔ بڑے ہوکر اس کی عادتیں خراب ہوگئیں، شراب نوشی، عشق بازی، کھیل کود اور شعر و شاعری میں لگ گیا، پھر یہ مطلق العنان اور آوارہ مزاج ہو گیا اور قابل فخر اور مجدو سروری کے برعکس دوسرے کاموں میں دل چسپی لینے لگا تو اس کے باپ نے گھر سے نکال دیا۔ یہ عرب کے اوباش اور آوارہ گردوں میں شامل ہو گیا، جو باغات اور چشموں کی تلاش میں رہتے۔ جہاں وہ کہیں پانی کا تالاب دیکھتے تو وہاں خیمہ زن ہوجاتے۔ وہ وہاں کھیل کود کرتے، شراب نوشی کرتے، حتیٰ کہ جب پانی خشک ہوجاتا، گھاس ختم ہوجاتی تو وہ وہاں سے کسی اور علاقہ کا رخ کرتے۔ اس طرح آوارہ کردی کرتے ہوئے یمن کی سرزمین ’’دمون‘‘ میں پہنچا۔ اسے وہاں اپنے باپ کے مرنے کی اطلاع ملی۔ جسے بنو اسد نے اس کے ظالمانہ سلوک سے تنگ آکر قتل کر دیا۔ امرؤا القیس کہنے لگا باپ نے گھر سے نکال دیا اب میرے ذمہ خونی انتقام لگادیا، آج شراب اور کل معاملہ کی بات پھر اس نے قسم کھائی کہ جب تک میں بنو اسد کے سو سے زیادہ افراد کو قتل نہ کرلوں اور سو کے سر مونڈ کو ان کو ذلیل نہ کرؤں، نہ گوشت کھاؤں گا، نہ شراب پیوں گا اور نہ سر پر تیل لگاؤں گا۔ جب رات کی تاریکی چمکی تو اس دور کہیں بجلی کو چمکتے دیکھا تو کہنے لگا
- میں اس بجلی کے جاگتا رہا جو رات کو چمکتی اور جس کی روشنی پہاڑکی چوٹی کو روشن کر رہی ہے۔
- مجھے ایک ایسی خبر پہنچی ہے کہ اس سے پہاڑ کی چوٹیاں لرز جائیں لیکن میں نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
- وہ خبر یہ ہے کہ بنو اسد نے اپنے سردار کو قتل کر دیا ہے اب اس کے بعد ہر خبر حقیر اور معمولی لگتی ہے۔
دوسرے دن وہ بنو اسد کے خلاف مدد حاصل کرنے کے لیے اپنے ننھال بنو بکر اور بنو تغلب کے پاس گیا۔ وہ اس کے بعد چل پڑے تو اس نے ان کے ساتھ مل کر بنو بکر اور تغلب کے پاس پر حملہ کر دیا تو بنو اسد نے اس کو پیشکش کی کے وہ بنو اسد کے سو آدمی بطور فدیہ لے لے۔ لیکن اس نے انکار کر دیا تو بنو بکر اور بنو تغلب اس سے ناراض ہو کر اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ادھر منذر بن السماء اس کی کوئی چپقلش تھی۔ امرؤا القیس ان کا پیچھا کیا تو کسریٰ نوشیروان نے منذر کی مدد کی تو امرؤا القیس کے حامی منذر کے ڈر سے منتشر ہو گئے تو وہ پھر قبیلہ قبیلہ میں جاکر مدد مانگنے لگا۔ لیکن اسے کہیں مدد مل نہیں سکی۔ پھر اس نے سموئل بن عادیا یہودی کے ہاں پناہ لی اور اس کے پاس اپنی ز رہیں بطور امانت رکھیں اور اس سے حارث بن شمر غسانی کے نام شفارشی خط لکھوایا کہ وہ اسے قیصر روم تک پہنچا دے۔ قیصر ان دنوں چستنیاں میں ٹہرا ہوا تھا۔ امرؤا القیس جس اس کے پاس پہنچا تو قیصر اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے مہمان ٹھہرایا۔ قیصر کا خیال تھا کہ وہ امرؤالقیس کی مدد سے عربوں میں اپنی طاقت بڑھا کر ایرانیوں کا زور توڑ سکے اور ایک بڑا لشکر اس کے لیے تیار کیا۔ پھر اس کے ذہن میں کوئی خیال آیا اس اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس اثناء میں امرؤا القیس پر کوئی جلدی بیماری نے حملہ کر دیا اور اس سے اس کے جسم پر زخم پڑ گئے اور اس کا گوشت گل گیا۔ پھر وہ مر گیا اور اسے جبل عسیب کے پاس 545 عیسوی میں دفن کر دیا گیا۔
مورخین کا خیال ہے کہ جب وہ لشکر لے کر گیا تو طماح اسدی نے قیصر سے امرؤالقیس کے خلاف شکایتیں کیں کے کہ یہ اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ چنانچہ قیصر نے اس کے پاس پوشاک بھیجی جس کو زہر آلودہ کیا گیا، جس کی وجہ سے یہ بیماری اسے لگی اور کا اظہار اس نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔
شاعری
[ترمیم]امرؤالقیس اگرچہ یمنی تھا مگر اس نے پرورش نجد میں پائی تھی۔ وہ بنو اسد کے خالص عربی ماحول میں پلا بڑھا۔ اس اشعار سنے اور روایت کی اسے شعرا سے مقابلہ کرنے کا بڑا شوق تھا اور اسے بچپن سے ہی اشعار کہنے کا شوق تھا اور اس کی شاعری میں پر شکوہ الفاظ، غریب الفاظ کی کثرت، عمدہ ترکیبیں، سرعت خیال، نذرت تصور اور حسن تشبیہ پائی جاتی ہے۔ مختلف سفروں خطرات اور لوگوں کے ساتھ میل جول نے اس میں نئے نئے معافی و مضامین اور جدید طرز کا ملکہ پیدا کر دیا تھا، اس کے زمانے کے بہت سے دیگر لوگوں کے اشعار بھی اس کی شاعری میں جگہ پاگئے ہیں۔ یہ اس کی شہرت، برتری اور عمدہ ذہانت کی بدولت ہوا۔
کہتے ہیں یہ پہلا شاعر ہے جس نے ٹیلوں پر کھڑے ہوتے اور کھنڈر پر رونے کی رسم ایجاد کی، عشقیہ شاعری کی اور عورتوں کو نیل گایوں اور ہرنیوں سے تشبیہ دی۔ اس نے مسلسل سواری او اکثروں پر رہنے کی وجہ سے گھوڑے اور رات کا وصف بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے، اس میں اس کی زندگی اور اس کی عادات و اطور کا کامل نمونہ ملتا ہے۔ اس میں شاہی جاہ و عزت، فقیرانہ مسکنت، قلندرانہ مستی، شیر کی سی حمیت، مصیبت زدہ کے شکوئے اور بے قدری کی ذلت ایک جگہ سب کی تصویر نظر آتی ہے۔ مندرجہ بالا وجوہ و اسباب کی بنا پر تمام روایان شعر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ امرؤا اقیس تمام جاہلی شعرا کا قائد تھا۔
اس کی شاعری کا بہترین حصہ وہ قصیدہ ہے جو لوگوں میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ اس نے اپنی چچا زاد کی کنیز کے مشہور واقعہ پر نظم کیا تھا اور اس قصیدہ میں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہو اس نے رات کا وصف میں گھوڑے کی تعریف نیز آوارگی کا ذکر کیا ہے۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور