حکیم سید شمس اللہ قادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حکیم سید شمس اللہ قادری

معلومات شخصیت
پیدائش 24 نومبر 1885ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 اکتوبر 1953ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حیدر آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حکیم شمس اللہ قادری (شمس المؤرخین) محقق اور مؤرخ کی حیثیت سے برطانوی ہند میں بلند پایہ مقام رکھتے ہیں۔ فارسی، اردو زبان و ادب، تاریخ، آثار قدیمہ اور مسکوکات ان کے خاص موضوعات تھے۔ ان موضوعات پر انھوں نے بکثرت مضامین لکھے اور مقالے تحریر کیے جن میں بیشتر کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ اردو زبان کے قدیم دور کو روشناس کرانے کے لیے انھوں نے جو خدمات انجام دیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ان کے مقالے ’اردوئے قدیم‘ کو تحقیق کا بلند کارنامہ مانا گیا۔ وہ ایک سہ ماہی رسالہ ’تاریخ‘ بھی نکالتے تھے، اس رسالے کے اکثر مضامین تاریخ پر ہوتے تھے۔ اس رسالے میں ان کے مضامین کے علاوہ دیگر مصنّفین کے مضامین بھی شائع کیے جاتے تھے۔ ان کے وسیع مطالعے اور تحقیق کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا سلیمان ندوی، مولانا عبد الحق اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی جیسی شخصیات ان سے مشورہ اور استفادہ کیا کرتی تھیں۔

ذاتی زندگی[ترمیم]

حکیم سید محمد شمس اللہ قادری، 5نومبر 1885ء کو دکن کی ریاست حیدرآباد کے شہر لال باغ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید ذو الفقار شاہ قادری تھا اور ان کی زوجہ کا نام سیدہ محبوب بیگم تھا۔ حکیم صاحب کی ایک صاحبزادی سیدہ شاہینہ بیگم اور چار بیٹے تھے جن کے نام سید احمد اللہ قادری، سید امداد اللہ قادری، سید سعد اللہ قادی، سید اسد اللہ قادری ہیں۔

علمی خدمات[ترمیم]

حکیم شمس اللہ قادری دکنیات پر پہلے محقق بھی ہیں، انھوں نے متعدد کتب تحریر کیں۔ سنہ 1913ء تک ادارہ فرانسیسی ہندی تاریخ اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ و آئرلینڈ کے اعزازی ممبر بھی رہے۔سنہ 1925ء میں اپنا سہ ماہی رسالہ تاریخ شائع کیا۔ انھوں اردوئے قدیم کے نام سے ایک تحقیقی کتاب لکھی جسے اردو زبان کی تاریخ کی ابتدائی و بنیادی کتب میں شمار کیاجاتا ہے۔ بعد ازاں انھوں نے سینکڑوں علمی، تاریخی، تحقیقی اور ادبی مقالہ جات لکھے جو مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے ہندوستان کے اسلامی ادوار پر بھی متعدد تحقیقی کتب لکھیں جن میں اس دور کے حالات و معاشرے پر روشنی پڑتی ہے۔ انھوں نے عربوں کے ہندی تعلقات کو باریک بینی سے اجاگر کیا اور ہندوستان میں اسلامی زوال کے اسباب کو واضح کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اردو زبان میں سب سے پہلے تاریخی ادوار کی عمدگی سے تشریح اور تحقیقی انداز سے پیش کرنے کی وجہ سے انھیں ’شمس المؤرخین‘ کا خطاب دیا گیا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے محقق اور محتاط تاریخ دان تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اپنے مقالات پیش کیے ہیں، جن میں عربی، ہندی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانیں شامل ہیں۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں سے ان کی دلچسپی کافی گہری تھی اور انھوں نے عرب و فارسی تاجروں کی آمد، ان کے معینہ راستوں پر گہرائی سے تحقیق کی ہے، اس کے علاوہ انھوں نے سمندری راستوں سے سری لنکا، انڈونیشیا، مالدیپ، چین اور افریقہ کے روابط پر بھی نہایت گہرائی سے تحقیق کی ہے۔

انھوں نے کئی نایاب اور فراموش شدہ کتب پر مضامین و مقالے اپنے سہ ماہی رسالے تاریخ میں لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اُس دور میں شائع ہونے والے جریدوں میں بھی ان کے مفید مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔آغاز میں انھوں نے اپنی تحریروں کو کتابی شکل میں ذاتی سرمایے سے پیش کیا بعد ازاں حکومت ریاست حیدرآباد نے سنہ 1930ء میں ان کی ادبی و علمی خدمات کے عوض انھیں خطیر رقم ادا کی اور ڈیڑھ سو روپے کا ماہانہ وظیفہ تاحیات جاری کیا۔

سنہ 1946ء میں حکیم شمس اللہ قادری نے تصنیف وتالیف سے ہاتھ اُٹھا لیا اور ریاست حیدرآباد کو لکھا کہ ان کی عمر 61 سال ہو چکی ہے اور اب وہ کسی اور تصنیف کے لیے مواد اکٹھا کرنے، اس کو ترتیب دینے اور کتاب کی صورت میں مدون کرنے کی محنت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں چونکہ ان کے نام وظیفہ تاحیات جاری ہوا ہے جسے مجبوری اور معذوری کی حالت میں تادم آخر جاری رہنا چاہیے۔ بوجہ پیرانہ سالی کام کرنے سے مجبور قرار دے کر جامعہ عثمانیہ کی نگرانی برخاست کی جائے۔ اس بارے میں آصف سابع کا جو فرمان مورخہ 13 جون 1946 ء جاری ہوا تھا اس کا متن ذیل ہے۔

’’کونسل کی رائے کے مطابق سید شمس اللہ قادری کی پیرانہ سالی کے مدنظر ان کی ماہوار پر شرط تالیف و تصنیف جو قائم ہے وہ برخاست کردی جائے‘‘۔

وفات[ترمیم]

22 اکتوبر 1953ء میں حکیم شمس اللہ قادری وفات پاگئے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان نہیں آئے تھے۔

تصانیف و تالیفات[ترمیم]

تاریخ تحفۃ المجاہدین
  • اردوئے قدیم، تاریخ زبان اُردو
  • شجریہ آصفیہ
  • شاہنامہ دیباچہ قدیم
  • تاریخ ادب
  • تاریخ مشاہیر ہند
  • النقود اسلامیہ
  • تذکرۃ شعرا و شاعرات
  • جواہر العجائب
  • تاریخ دکن
  • محبوب الآثار
  • خمس العلام
  • اصنام العرب
  • قبل اسلام
  • عمادیہ
  • تاریخ زبان اردو
  • پراچین ملیبار
  • سکہ جات اودھ
  • ظہیر فاریابی
  • مخطوطات تاریخی
  • مسکوکاتِ قدیمہ
  • ملیبار
  • مہمات اراکاڈ
  • تذکرۂ مصنفین دہلی
  • آثار الکرام
  • سلاطین معبر
  • نظام التواریخ، تاليف ناصر الدين بیضاوی
  • تحفتہ المجاہدین
  • مؤرخین ہند

حوالہ جات[ترمیم]

ماخذ[ترمیم]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔