"محمد علی محمد خان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 6: سطر 6:


== ماہر علم اور خدا ترسی ==
== ماہر علم اور خدا ترسی ==
متحدہ صوبہ (موجودہ اترپردیش) کا دار الحکومت شہر لکھنؤ کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ساتھ ساتھ لکھنؤ یونیورسٹی کے قیام میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جامعہ لکھنؤ کا خواب انہوں نے ہی دیکھا تھا اور یہ بھی کہ جامعہ لکھنؤ سے متحدہ صوبہ کی ریاعا کو افادیت ہے ظاہر کیا اور اساسی رکن بھی رہے۔ 1919ء میں جہانگیراباد کے راجا کے ساتھ مل کر اُس زمانے میں ایک ایک لاکھ روپئے عطیہ بھی دیا کہ لکھنؤ یونیورسٹی قائم ہو سکے۔ سر ہارکوٹ بٹلر جو متحدہ صوبہ کے گورنر تھے، ساتھ مل کر ایک کانفرینس کا بھی انعقاد کیا جو لکھنؤ یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیاب رہا۔<ref name=al/><ref name=l>{{cite web|title=History|url=http://www.lkouniv.ac.in/history.html|work=Lucknow University|publisher=Lucknow University|accessdate=12 مارچ 2014|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226053046/http://www.lkouniv.ac.in/history.html|archivedate=2018-12-26|url-status=live}}</ref>
متحدہ صوبہ (موجودہ اترپردیش) کا دار الحکومت شہر لکھنؤ کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ساتھ ساتھ لکھنؤ یونیورسٹی کے قیام میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جامعہ لکھنؤ کا خواب انہوں نے ہی دیکھا تھا اور یہ بھی کہ جامعہ لکھنؤ سے متحدہ صوبہ کی ریاعا کو افادیت ہے ظاہر کیا اور اساسی رکن بھی رہے۔ 1919ء میں جہانگیراباد کے راجا کے ساتھ مل کر اُس زمانے میں ایک ایک لاکھ روپئے عطیہ بھی دیا کہ لکھنؤ یونیورسٹی قائم ہو سکے۔ سر ہارکوٹ بٹلر جو متحدہ صوبہ کے گورنر تھے، ساتھ مل کر ایک کانفرینس کا بھی انعقاد کیا جو لکھنؤ یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیاب رہا۔<ref name=al/><ref name=l>{{cite web|title=History|url=http://www.lkouniv.ac.in/history.html|work=Lucknow University|publisher=Lucknow University|accessdate=12 مارچ 2014|archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226053046/http://www.lkouniv.ac.in/history.html|archivedate=2018-12-26|url-status=dead}}</ref>


1906ء میں انہوں نے [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] کو عطیہ دیا، جس کا مقصد سائنسی اور تکنیکی علوم پر خرچ کریں۔ یہ مسلم یونیورسٹی کے حامی بھی تھے۔ یہ [[علی گڑھ]] مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بھی منتخب ہوئے۔ 17 دسمبر 1920 سے 28 فروری 1923 تک وائس چانسلر رہے۔<ref name=al>[http://aligarhmovement.com/karwaan_e_aligarh/raja_mahmudabad – Aligarh Movement – Raja of Mahmudabad]</ref>
1906ء میں انہوں نے [[علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]] کو عطیہ دیا، جس کا مقصد سائنسی اور تکنیکی علوم پر خرچ کریں۔ یہ مسلم یونیورسٹی کے حامی بھی تھے۔ یہ [[علی گڑھ]] مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بھی منتخب ہوئے۔ 17 دسمبر 1920 سے 28 فروری 1923 تک وائس چانسلر رہے۔<ref name=al>[http://aligarhmovement.com/karwaan_e_aligarh/raja_mahmudabad – Aligarh Movement – Raja of Mahmudabad]</ref>

نسخہ بمطابق 05:58، 20 ستمبر 2020ء

محمد علی محمد خان
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 4 جون 1878ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 23 مارچ 1931ء (53 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد علی محمد خان : مہاراجا سر محمد علی محمد خان، خان بہادر، کی پیدائش 4 جون 1878 اور وفات 23 مارچ 1931 کو ہوئی۔ یہ محمودآباد (بھارت) کے راجا تھے۔ ان کا دور حکومت 28 جون 1903 سے 23 مارچ 1931 تک رہا۔ یہ ایک مشہور سیاست دان اور برطانوی راج کے دور کے زمیندار تھے۔

محمودآباد کے راجا

ان کے والد راجا سر محمد امیر حسن خان (1849–1903) تھے، جو محمود آباد، بھارت محمود آباد تعلق کے جاگیردار تھے۔ محمد علی خان کی پیدائش برطانوی راج کے اودھ کے ضلع سیتاپور گاؤں امروٹا میں ہوئی۔[1] والد کے انتقال کے بعد 1903ء میں محمود آباد کے راجا بنے۔ محمود آباد کا ایسٹیٹ، برطانوی متحدہ صوبے میں سب سے بڑا ایسٹیٹ تھا۔[1]

ماہر علم اور خدا ترسی

متحدہ صوبہ (موجودہ اترپردیش) کا دار الحکومت شہر لکھنؤ کو بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ساتھ ساتھ لکھنؤ یونیورسٹی کے قیام میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جامعہ لکھنؤ کا خواب انہوں نے ہی دیکھا تھا اور یہ بھی کہ جامعہ لکھنؤ سے متحدہ صوبہ کی ریاعا کو افادیت ہے ظاہر کیا اور اساسی رکن بھی رہے۔ 1919ء میں جہانگیراباد کے راجا کے ساتھ مل کر اُس زمانے میں ایک ایک لاکھ روپئے عطیہ بھی دیا کہ لکھنؤ یونیورسٹی قائم ہو سکے۔ سر ہارکوٹ بٹلر جو متحدہ صوبہ کے گورنر تھے، ساتھ مل کر ایک کانفرینس کا بھی انعقاد کیا جو لکھنؤ یونیورسٹی قائم کرنے میں کامیاب رہا۔[2][3]

1906ء میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو عطیہ دیا، جس کا مقصد سائنسی اور تکنیکی علوم پر خرچ کریں۔ یہ مسلم یونیورسٹی کے حامی بھی تھے۔ یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بھی منتخب ہوئے۔ 17 دسمبر 1920 سے 28 فروری 1923 تک وائس چانسلر رہے۔[2]

1904 میں Nawab Mohsinul Mulk کی قیادت میں ہوئے محمڈن ایجوکیشن کانفرنس کو مکمل مالی امداد بھی فراہم کیا۔ 1909 میں اس کے سربراہ بھی منتخب ہوئے۔[2]

انہوں نے اپنے بھائی محمد علی احمد خان کی یاد میں 1919 میں ایک مدرسہ جو اہل تشیع نظریہ کا تھا، مدرسۃالواعظین کے نام سے شہر لکھنؤ میں قائم کیا۔[4]

سیاست اور رہنمائی

1904 سے 1909 تک یونائٹیڈ پروونس لیجسلیٹیو کاؤنسل کے رکن بھی رہے۔ گورنر جنرل کونسل کے رکن کی حیثیت سے 1907 تا 1920 تک اور امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن کی حیثیت سے 1908 میں منتخب ہوئے اور 1908 تا 1912 تک اس عہدے پر رہے۔ 1927 میں بغیر انتخابات کے کاؤنسل آف سٹیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1920 تا 1926 تک صوبہ کے ہوم منسٹر بھی رہے۔ سپینسر ہارکورٹ بٹلر کے اڈمنسٹریٹیو کاؤنسل میں پہلے ہندوستانی رکن کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔[5][6][7]

آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس 1917, 1918 اور 1928 کے صدر بھی رہے [5][6] اور برطانوی ہندوستانی اسوسی ایشن (برائے اودھ تعلقدار) کے صدر برائے سال 1917–21 اور 1930–31 بھی رہے۔[8]

نان کوآپریشن موومینٹ کے دوران میں جب انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈرس جن میں موتی لال نہرو بھی تھے لکھنؤ جیل میں قید کردیے گئے تھے۔ ان کی رہائی میں محمد علی خان صاحب نے مدد کی اور آزاد کروایا۔[2]

القاب اور خطاب

ان کے خطابوں میں خان بہادر [9] اور مہاراجا بہادر وغیرہ تھے، جو ان کی انفرادی صلاحیتوں کی بنیاد پر دیے گئے تھے۔ اور انہیں K.C.I.E. 1919 میں [10] اور C.S.I. 1921 میں [10] اور K.C.S.I. 1922 میں اعلان کیا۔[11]

شاعر

محمد علی ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ بی الخصوص مرثیہ نگار۔ اپنا تخلص محب فرماتے تھے۔

وفات

ان کی وفات 1931 میں ہوئی۔ ان کے صاحبزادے محمد امیر احمد خان ہیں، ان کے ولی عہد ہیں اور وارث بھی۔[1]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ Mahmudabad
  2. ^ ا ب پ ت – Aligarh Movement – Raja of Mahmudabad
  3. "History"۔ Lucknow University۔ Lucknow University۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مارچ 2014 
  4. Vanishing culture of Lucknow by Amir Hasan, B.R. Pub. Corp.، 01-Dec-1990
  5. ^ ا ب The Indian Year-book and Annual, 1912
  6. ^ ا ب India's Partition: The Story of Imperialism in Retreat – Page 349 Devendra Panigrahi – 2004
  7. Separatism Among Indian Muslims: The Politics of the United Provinces … - Francis Robinson – Google Books
  8. British India Association – Past President
  9. The Indian Year Book 1941- Volume 23; Volumes 25-28 – Page 1078
  10. ^ ا ب The London Gazette – Page 1190
  11. The India Office and Burma Office List, 1947