مندرجات کا رخ کریں

خطاط شفیق الزمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شفیق الزمان
لقبخطاط شفیق الزمان، خطاط مسجد نبوی اور خطّاط الحرم المسجد النّبوی
ذاتی
پیدائش2 نومبر 1956ء
مذہباسلام
فرقہاہل سنت
مرتبہ
مقاممسجد نبوی، مدینہ منورہسعودی عرب کا پرچم
دورجدید دور

خطاط شفیق الزماں پاکستان کے ممتاز خطاط جو خطاط مسجد نبوی (خطّاط الحرم المسجد النّبوی ) اور استاذ الخطاط کے لقب سے مشہور ہیں۔

ولادت

[ترمیم]

شفیق الزمان کی ولادت 2-نومبر 1956ء میں چکلالہ (راولپنڈی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ولی محمد خاں جو پاکستان ایئر فورس (گراؤنڈ مینٹیننس) میں خدمات انجام دیتے رہے۔

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

استاد شفیق بچپن میں اپنے والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے کھوکھرا پار میں سکونت پزیر ہیں۔ ملیرمیں انھوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ ابتدا ہی سے انھیں خوش خطی لکھنے کا بہت شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صاف اور خوشخط لکھ کر تمام امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرتے رہے۔ اسکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور طور پر حصہ لیتے تھے۔ تصویری اور خطاطی کے مقابلوں میں کئی بار انعامات حاصل کر کے اسکول کا نام روشن کیا۔ گھر میں دینی ماحول کی وجہ سے والدین نے ہمیشہ شفیق صاحب کی لکھی ہوئی خطاطی کی حوصلہ افزائی کی اور رفتہ رفتہ خود شفیق صاحب کو فنِ خطاطی سے اس قدر لگاؤ اور رغبت میں جنون کی سی کیفیت پیدا ہو گئی کہ وہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔

عملی زندگی

[ترمیم]

شفیق الزمان نے اپنے فن کی ابتدا پینٹر کے کام سے کی اور ہر طرح کے سائن بورڈ بنانے لگے۔ ایک دفعہ وہ بندر روڈ پر کسی کمپنی کا سائن بورڈ عربی میں بنا رہے تھے کہ اتفاق سے وہاں ایک عرب کا گذر ہوا۔ وہ عرب ان کی خطاطی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شفیق الزماں کو سعودی عرب میں عربی لکھنے کے لیے ملازمت کی پیش کش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے انھوں نے مدینہ منورہ میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس طرح انھوں نے چودہ پندرہ سال سعودی عرب میں مختلف کمپنیوں کے لیے عربی خطاطی میں گزارے۔

فن خطاطی میں کمال

[ترمیم]

شفیق الزمان نے دنیا بھر کے مستند خطاطوں کے لکھے ہوئے کتبات اور ترکی، مصری، شامی کتابوں کی مدد سے عربی خطاطی سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ اب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ عربی کے تمام مروجہ خطوط بڑی آسانی سے لکھ لیتے ہیں۔ وہ رقعہ، دیوانی، کوفی، نستعلیق (ایرانی)، نسخ، اجازہ اور طغراء کے علاوہ خطوں کے بادشاہ " خط ثلث" کو بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے لکھتے ہوئے اس فن میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی دنیا میں ایسا نام پیدا کیا ہے جس کا لوگ صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے دنیائے خطاطی کے عظیم ترین استاد حامد الآمدی کے اسلوب کو اپنایا ہے اور اپنے لکھے ہوئے طغروں میں اتنی مہارت اور جاذبیت پیدا کر لی کہ دونوں کے فن پاروں میں فیصلہ کرنا ناممکن ہو گیا کہ کون سا فن پارہ استاذ حامد کا ہے اور کونسا شفیق کا۔ یہاں تک کہ استاذ حامد کے خاص ترک شاگردوں حافظ قرآن رفیعی اور مصطفے اقدمیر نے شفیق صاحب کے لکھے ہوئے طغرے کو استاذ حامد کا طغراء قرار دے دیا۔ اور اس کی ڈرائنگ کی تلاش میں شفیق صاحب تک پہنچ گئے۔ اس موقع پر شفیق صاحب نے انھیں بتایا کہ میں پاکستانی ہوں اور استاذ حامد کا روحانی طور پر شاگرد ہوں۔ متذکرہ دونوں ترک فنکار شفیق صاحب کی شخصیت اور ان کے فن سے بے انتہا متاثر ہوئے ۔

خطاطین میں مقام

[ترمیم]

شفیق الزماں نے اپنی 20 سالہ ریاضت اور دنیا کے عظیم خطاطوں کے فن پاروں کی مدد سے نسخ، نستعلیق، دیوانی، کوفی اور سب سے مشکل ترین خط ثلث میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطاطی پر جن فنکاروں کی اجارہ داری تھی وہ انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں تک کہ ترکی کے عظیم اور ماہر خطاطوں نے ان کے فن کو تسلیم کر لیا اور آج ان کے لیے شفیق الزماں صاحب کے مقام کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

مقابلہ جات

[ترمیم]

سب سے پہلے شفیق الزماں کا نام اس وقت سامنے آیا جب 1986ء میں حکومت سعودیہ عرب کی جانب سے ایک مقابلہ خطاطی منعقد ہوا۔ مقابلے کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ شریک مقابلہ کسی فن کار نے اپنے شہ پارے پر نام نہیں لکھا تھا، لٰہذا مقابلے میں کسی قسم کی سفارش یا جانبداری کا خطرہ نہیں تھا۔ اس پروگرام میں شفیق الزماں نے بھی حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے تمام فن کاروں کے مقابلے میں شفیق کے فن پارے کو سب سے بہتر قرار دے دیا گیا۔ جب نمائش کے منتظمین اور منصفین کو اس بات کا علم ہوا کہ یہ کسی پاکستانی فن کار کا کام ہے تو انھوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا اور شفیق صاحب سے دوبارہ لکھنے کی درخواست کی اور انھوں نے حاضرین کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح انھیں اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا اور دس ہزار ریال کی خطیر رقم انھیں اس اعزاز کے ساتھ پیش کی گئی کہ پورے سعودی عرب میں اس معیار کی عربی خطاطی کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ اس موقع پر سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ اور قومی اخباروں نے ان کے نام کو نمایاں طور پر اجاگر کیا۔ دوسری مرتبہ 1987ء میں ان کا نام اس وقت سامنے آیا جب ادارہ ثقافت پاکستان کی جانب سے لاہور میں قومی نمائش میں شفیق الزماں کے فن پارے کو جو خط ثلث معکوس میں تھا دوسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔

عالمی پہچان

[ترمیم]

استاذ شفیق الزمان کی شہرت کا آغاز اس وقت ہوا جب 2مارچ 1994ء کو استنبول (ترکی) میں واقع اسلامی ورثہ کے تحفظ کے کمیشن کی جانب سے منعقدہ تیسرے عالمی مقابلہ خطاطی میں ان کے ایک فن پارے کو دوسری پوزیشن کا حق دار قرار دیا گیا۔ یہ خطاطی کے کسی بھی عالمی مقابلے میں پاکستان کے لیے پہلا عالمی اعزاز تھا۔ استاذ شفیق الزمان کے جس فن پارے کو یہ اعزاز عطا ہوا تھا وہ سورہ لقمان کی آیت 27 اور 28 کی خطاطی پر مبنی تھا اور خط ثلث جلی میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس مقابلے میں دنیا بھر کے سینکڑوں خطاط نے حصہ لیا تھا اور جس جیوری نے انعام کا فیصلہ کیا تھا اس میں دنیا بھر کے خطاطی کے دس بڑے اساتذہ شامل تھے۔ استاذ شفیق الزمان اس سے قبل مسجد نبوی میں مستقل طور پر فن خطاطی کا مظاہرہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے سینکڑوں فن کاروں میں اول قرار دیے جاچکے تھے اور انھیں مسجد نبوی میں خطاطی کرنے والے پہلے پاکستانی خطاط ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

تمغا حسن کارکردگی

[ترمیم]

حکومت پاکستان نے استاذ شفیق الزمان کی خدمات کے اعتراف میں14 اگست 2013ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔

مسجد نبوی کا خطاط

[ترمیم]

شفیق صاحب مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مسجدی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فن خطاطی کے ذریعے تزئین و آرائش کے سلسلے میں فن کاروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سعودیہ عرب نے ایک مقابلہ خطاطی کا اہتمام کیا، جس میں ترکی، لبنانی، مصری، فلسطینی، سورین، یمنی، انڈین اور پاکستانی فن کاروں نے حصہ لے کر طبع آزمائی کی۔ شفیق الزماں کو سعودی عرب کے ایک مقتدر عرب دوست نے مقابلے کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس مقابلے میں چار سو کے قریب ماہر اساتذہ فن شریک تھے۔ جو فن کار مدینہ میں بالمُشافہ موجود نہیں تھے ان کا کام ان کے ملکوں سے سعودی عرب پہنچ چکا تھا اس مقابلہ خطاطی میں ترکی کے تمام ججوں اور محکمہ اوقاف کے فیصلے کے مطابق شفیق الزماں کو سب سے مستند خطاط قرار دیا تھا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی خطاط کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے شفیق صاحب کے لیے بھی باعثِ اعزاز ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے دررِ اقدس پر فن خطاطی کی اعلٰی ترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

دیگر امتیازات

[ترمیم]

شفیق الزماں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خطاطی کا کام کر ہی رہے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں کراچی ایئر پورٹ پر مسجد بخاری میں انھوں نے کافی کام کیا ہے۔ سعودی عرب کے شیخ محمد الانصاری نے شفیق الزمان کے کام سے متاثر ہوکر مسجد قبا کے قریب تعمیر ہونے والی مسجد احسان میں خطاطی کا تمام کام کرنے کی درخواست کی۔ جسے شفیق الزماں نے بڑی محنت لگن اور خوش اسلوبی سے کیا۔[1]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]