سفر نامہ
سفرنامہ ادب کی ایک صنف ہے جس میں بیرونی ادب، تلاش بینی ادب، مہم جوئیانہ ادب یا قدرتی لکھائی اور رہنما کتب اور دوسرے ملکوں کے دورے شامل ہیں۔
سفر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسافت کرنا کے ہیں۔ اس کو لکھنے کا مقصد قارئین کو اپنے تجربات و واقعات سے آگہی دینا، عام انسان کے اندر دیار غیر کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا کرنا اور سفر کی داستان سنانا۔[1]
اس صنف کی ذیلی اقسام روزنامچہ وغیرہ کی تاریخ دوسری صدی تک جاتی ہے۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ دیکھ لے ایران کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
” | سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔
اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کسی، آبیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی۔[2] |
“ |
سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بيانيہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران میں يا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کيفيات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے- اردو کے کچھ مشہور سفر نامے یہ ہیں۔ سات سمندر پار، لبیک (سفر نامہ)، نظرنامہ، کسریٰ کی ہوائیں، اندلس میں اجنبی دیگر ہیں۔ اہم سفرنامہ نگاروں میں سے مستنصر حسین تارڑ، طارق محمود مرزا،عطاء الحق قاسمی، محمود نظامی، جمال الدین عالی، بلال مختار، بیگم اختر ریاض الدین،خواجہ احمد الیاس شامل ہیں۔
اجزاء
[ترمیم]لکھنے میں سفر کی بنیادی وجوہات لکھی ہوتی ہیں جیسا کہ کسی جگہ کے رسم و رواج کا مطالعہ، زرعی دور کا مشاہدہ اور پہاڑوں پر چند تفریحی لمحات گذارنا[3] ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ سفر کے دیگر حالات بھی بالتفصیل لکھے جاتے ہیں۔
سفرنامہ نگاری کے انتقادی امکانات
[ترمیم]اس کتاب کے مصنف شبیر ناقد اردو ادب کے قدردان ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کے لیے نمایاں خدمات بھی سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس کتاب کا موضوع تنقید سفر نامہ نگاری ہے۔ کتاب میں تقریباً 24 سفر ناموں کے حوالے سے تنقیدی مضامین شامل کیے گئے ہیں، ہر سفر نامے پر حتی الامکان غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ گفتگو کی گئی ہے[4]۔
کسی سفر نامہ کے بنیادی اجزاء اور ترجیحات، افسانے اور کہانی سے یکسر مختلف ہوتے ہیں، اس کتاب کے سفر ناموں کو اسی تناظر میں پرکھا گیا ہے۔
کتاب کے ناشر اردو سخن ہیں اور اسے پنجاب کے شہر لیہ میں چھاپان گیا ہے۔ کتاب ضخیم نہیں ہے اور صفحات کی تعداد فقط 116 ہے۔ کتاب میں تعریف اور تنقید میں عمدہ میزان برقرار رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے سفرناموں پراولین تنقیدی کتاب کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔
سفرناموں میں نصیب اللہ اچکزئی، عزیز علی شیخ، پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ، ڈاکٹر احمد نصیر، ڈاکٹر آصف محمود جان، ہارون عدیم، ڈاکٹر وزیر آغا، علیم شاہد، زیب النساغر شین، ڈاکٹر سید اختر جعفری، سردار عظیم اللہ خان میو، پروفیسر سید ذو الفقار علی زلفی، ریاض احمد ریاض، ڈاکٹر محمد اقبال ہما، طاہرہ اقبال، امجد اسلام امجد، طارق محمود مرزا، شاہ محمد مری، مرزا ابو طالب اصفہانی لندنی، ڈاکٹر محمد وسیع اللہ خان، یوسف سندھی اور شاہدہ لطیف کا منظوم سفرنامہ شامل ہے۔
ظہور احمد فاتح کا تبصرہ
[ترمیم]ظہور احمد فاتح شبیر ناقد اور ان کی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’معروف شاعر و ادیب شبیر ناقد جو میدان تنقید میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں ، انھوں نے یہ ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہ سفرنامہ نگاری سے جو بے اعتنائی اصحاب تنقید نے روا رکھی ہے، اس کا ازالہ ضرور کرنا چاہیے۔ کتاب ھٰذا میں کم و بیش دو درجن سفرناموں کے حوالے سے تنقیدی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان مضامین سے قبل انھوں نے ایک جامع شذرہ لکھا ہے جس میں سفرنامے کی شناخت اور اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مختلف انتقادی امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی جانچ پرکھ کی ہے[5]۔‘‘