سید شمس الحسن
سید شمس الحسن | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1885ء بریلی |
وفات | سنہ 1981ء (95–96 سال) کراچی |
عملی زندگی | |
پیشہ | سیاست دان |
درستی - ترمیم |
سید شمس الحسن صوبہ یو پی کے ڈاکٹر امیر حسین کے بیٹے تھے۔ 1887ءمیں بریلی (یو۔پی) میں پیدا ہوئے۔ بریلی اور آگرہ میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 1909 ءمیں جب مسلم لیگ نے ادارہ روزگار ایمپلائمنٹ قائم کیا تو وہ مسلم لیگ کے سیکرٹری وزیر حسن کے دفتر سے منسلک ہو گئے۔ جولائی 1914ءمیں آفس سیکرٹری بنا دیے گئے۔ 1919ءمیں جب قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو وہ ان کے بہت قریب آگئے اور وہ اسسٹنٹ سیکرٹری کے طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر کے انچار ج بن گئے۔ انھوں نے مسلم لیگ کو زندہ رکھنے میں بڑی خدمات انجام دیں۔ انہی دنوں قائد اعظم نے فرمایا کہ ”مسلم لیگ کیا ہے؟ میں شمس الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر“ وہ 1947ءتک آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر کے انچارج کے طور پر ہی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے 21ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر سید شمس الحسن کی خدمات اور علامہ اقبال سے خط و خطابت نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ اس اجلاس کی تاریخ اور مقام طے ہونے کے بعد سید صاحب کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے نہایت تدبر اور فراست کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم لیگ کے اجلاس کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن کوشش کی ۔ سید شمس الحسن کو اپنی کارکردگی، دیانت اور افلاس کی بنا پر 1930ء کے عشرہ میں قائد اعظم سے نہایت قربت حاصل ہو گئی تھی چنانچہ جب پہلی گول میز کانفرنس کے بعد قائد اعظم نے لندن میں سکونت اختیار کر لی تو تب بھی سید شمس الحسن قائد اعظم کے دامن سے دست کش نہیں ہوئے۔ وہ بدستور خط و کتاب کے ذریعے معاملات و مسائل پر ان سے ہدایات حاصل کرتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ 1948ءمیں پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے اور اکتوبر 1958ءکے مارشل لاءکے نفاذ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جب ایوب خان نے سیاسی جماعتوں پر پابندی کردی تھی تو جنرل ایوب خان نے دیگر سیاسی جماعتوں کے ہمراہ مسلم لیگ کا ریکارڈ بھی سر بمہر کر دیا۔ سید شمس الحسن قائد اعظم کے اس قدر قریب تھے کہ قیام پاکستان سے چند روز قبل قائد اعظم نے انھیں دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر بلوایا اور اپنے ذاتی خطوط مسلم لیگ کا ریکارڈ اور دوسری دستاویزات ان کے حوالے کیں جن کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔ انھوں نے اسے نہایت سلیقے سے 98 جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ یہی جلدیں ”شمس الحسن کلیکشن“ کہلاتی ہیں۔ 1958ءکے مارشل لاءکے بعد انھوں نے کراچی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاری اور بالآخر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں7 نومبر 1981ءمیں انتقال کیا۔ اور کراچی کے قبرستان سخی حسن میں سپرد خاک کیے گئے، 2007ء میں ستارہ امتیاز سے نوازے گئے، ان کے فرزند واجد شمس الحسن صحافی اورخالد شمس الحسن بنکر رہے ہیں[1][2]