سید مبارک شاہ
سید مبارک شاہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | علی پور سادات |
مقام وفات | علی پور سادات، بھیرہ ،ضلع سرگودھا |
پیشہ | عالم دین و اہل اللہ |
درستی - ترمیم |
کام جاری
سید مبارک شاہ مازندرانی گیارھویں صدی ہجری کے ایک عالم اور اہل اللہ تھے۔
تعارف
[ترمیم]سید مبارک شاہ مازندرانی کی درست تاریخ پیدائش اور انتقال قابل تحقیق ہے ۔ سید مبارک شاہ موجود ہ علی پور سیداں،تحصیل بھیرہ ضلع سرگودھا جو پہلے علی پور سادات کے نام سے معروف تھا میں متولد ہوئے ۔ آپ کا خانوادہ مازندرانی سادات کے عنوان سے معروف ہے ۔ سید مبارک شاہ نے تعلیم کہاں حاصل کی اس کے بارے میں کوئی خاطر خواہ معلومات موجود نہیں ہیں تاہم آپ کے دادا حاجی عبد الرفیع المعروف حاجی میراں صاحب خاندانی شجرے کی روایت کے مطابق اہل علم تھے اور انھوں نے کئی حج پا پیادہ کیے۔[1]حاجی عبد الرفیع کا خاندانی شجرہ کے مطابق انتقال 1022ھ میں ہوا اور آپ علی پور سیداں میں ہی دفن ہیں ۔ سید مبارک شاہ کا تذکرہ ان کے شاگرد قاضی فتح اللہ شطاری(م 1088ھ) جو مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں میر پور کے قاضی تھے نے اپنی کتاب "خزائن فتحیہ الاسرار قلمی نسخہ 1081ھ" میں کیا ہے اس کتاب پر تحقیق مولانا علیم الدین نقشبندی نے کی اور اس پر ایک کتاب"حضرت قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار" تحریر کی۔[2] سید مبارک شاہ کی اولاد میں کئی ایک صاحبان علم و فضل شخصیات متولد ہوئیں ۔ ان کی عبادت گاہ اور مدرسہ کے آثار آج بھی علی پور سیداں تحصیل بھیرہ ضلع سرگودھا میں محفوظ ہیں۔یہ مقام متبرک مقام تصور کیا جاتا ہے اور یہاں کسی مرد کو داخلے کی اجازت نہیں کیونکہ خاندانی روایات کے مطابق اس مقام پر کچھ نیک خواتین نے بھی عبادت و ریاضت کی۔
شجرہ نسب
[ترمیم]سید مبارک شاہ بن عبد البقاء شاہ بن سید عبد الرفیع شاہ المعروف دادا حاجی بن فتح شاہ بن عبد اللہ شاہ بن مبارک شاہ بن عطا اللہ شاہ بن محمود شاہ بن قیام الدین بن محمد بن حمید بن قاسم بن سید علی بن نوح بن یونس بن اسحاق بن عالم بن جعفر بن ۔۔۔الی۔۔۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام[1]
سید مبارک کا علمی مقام
[ترمیم]علیم الدین نقشبندی اپنی کتاب "قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار" میں قاضی فتح اللہ کے استاد سید مبارک شاہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
بھیرہ ضلع سرگودھا کے نواح میں قدیم قصبہ آباد ہے جس کا نام علی پور ہے سید مبارک شاہ اس قصبے کے رہنے والے تھے[3]
علیم الدین شیخ مزید لکھتے ہیں کہ قاضی فتح اللہ شطاری رہتکی نے جن مراکز میں خوشہ چینی کی اور زانوئے تلمذ طے کیے ان میں سے ایک مرکز اور ایک استاد کے نام کے سوا باقی زمانے کی دست برد کی نذر ہو چکے ہیں ۔ علیم الدین نقشبندی کا کہنا ہے کہ قاضی فتح اللہ شطاری اپنی کتاب "خزائن فتحیہ الاسرار "میں اپنے استاد سید مبارک شاہ کے بارے لکھتے ہیں :
میں نے اکثر درسی کتب ،مراح سے لے کر جو علم صرف میں ہے مطول تک جو علم معانی میں ہے اپنے مخدوم سید مبارک سے پڑھیں ۔[4]
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب مطول ہرات 748ھ میں تحریر کی گئی جو علامہ سعد الدین تفتازانی کی تصنیف ہے، علامہ تفتازانی کے شاگردوں نے اس کتاب کو ہندوستان کے نصاب تعلیم میں رائج کیا۔علیم الدین نقشبندی کے مطابق مولوی حسنات ندوی برصغیر کے قدیم علمی مقامات کے ذیل میں لکھتے ہیں :
پہلے مختلف علوم و فنون کے لیے مقامات مخصوص تھے جہاں سے بڑھ کر ان علوم کی تعلیم کہیں بھی نہیں ہوتی تھی۔اس زمانہ میں طلبہ سفر و سیاحت کرکے مختلف علوم کی تحصیل کرتے تھے اور جو مقام جس فن کے لیے مشہور ہوتا اس کو وہیں جا کر حاصل کرتے مثلا صرف و نحو پنجاب میں ، حدیث و تفسیر دہلی میں ، منطق و حکمت رام پور میں اور فقہ و اصول فقہ لکھنؤ۔[5]
سید مبارک شاہ کامقام عرفانی
[ترمیم]علیم الدین نقشبندی مولف و محقق کتاب "قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار " سید مبارک شاہ کے مقام عرفانی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سید مبارک شاہ فقط ظاہری علوم میں ہی صاحب کمال نہ تھے بلکہ معارف باطنیہ میں بھی ید طولی رکھتے تھے ۔ سلسلہ شطاریہ میں صاحب اجازت و خلافت تھے سلوک شطاریہ کی منازل خواجہ محمد یعقوب حضرت خواجہ محمد حسن کی توجہات میں رہ کر حاصل کیں۔ آپ کو ان دونوں بزرگوں سے خلافت حاصل تھی ان کے شاگر د قاضی فتح اللہ شطاری اپنے استاد کے بارے لکھتے ہیں:
ان دونوں سالکوں( ) سے اذکار جہریہ اور خفیہ سے لے کر ارکان ثمانیہ تک سند سلوک حاصل کی۔ سید السادات ، سرچشمہ برکات ، فضلائے زمانہ کے سردار، عزلت میں اشغال الہیہ کے ساتھ مجاہدہ کرنے والے ، باوجود استطاعت کے نفسانی لذتوں سے منقطع رہنے والے ، رضائے خداوندی کے حصول کے لیے اپے حجرہ میں اعتکاف کرنے والے ، خالص اللہ کے لیے عبادت کرنے والے میرے آقا سید مبارک ساکن قصبہ علی پور جو بھیرہ میں ہے ۔[6]
"حضرت قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار‘‘ کے مصنف علیم الدین نقشبندی لکھتے ہیں کہ خزائن فتحیۃ کے اس اقتباس سے قبل کے کچھ صفحات غائب ہیں تاہم کتاب میں ایک اور مقام پر یوں درج ہے :
میرے آقا سید مبارک مرحوم نے شرف الدین محمد سے سند سلوک لی جو واصل الی اللہ تھے ۔[7]قاضی فتح اللہ شطاری اپنے استاد سید مبارک کی وجاہت روحانی کے بارے ایک خواب یوں تحریر کرتے ہیں :
پھر ایک مجلس میں میں نے ان سالکوں کو دیکھا جو رسول اللہ ؐ کے پاس بیت اللہ میں تشریف فرما ہیں اور انھوں نے ایک لباس پہن رکھا ہے جسے فارسی میں ملہ کہتے ہیں ۔ سید مبارک خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہیں ۔ میں نے اپنے مطاع محمد حسن قدس سرہ کو بتایا کہ میرے استاد سید مبارک دروازے پر ہیں تو میرے استاد اس محفل سے اٹھے اور چند قدم لیے اور پکارے سید مبارک بیت اللہ میں داخل ہو جاؤآپ کو بڑی سعادت سے نوازا گیا ہے ۔[8]
ایک اور خواب یوں تحریر کرتے ہیں:
میں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ؐ نورانی براق پر سوار ہیں اورمیرے مخدوم سید مبارک کے ہاتھ میں ایک نورانی علم ہے اور وہ آپ کے آگے آگے پیدل چل رہے ہیں ، میں گھر کے دروازے پر دربان ہوں جس میں سند اولیاء محمد یعقوب ، محمد حسن اور شرف الدین محمد ہیں۔میرے مخدوم سید مبارک نے اشارہ فرمایا کہ میں نبی لولاک کی قدم بوسی کروں اور کہا تو نے پہنچانا نہیں ہے ؟ [9]
اولاد
[ترمیم]سید مبارک شاہ بن عبد البقاء شاہ کی اولاد میں بہت سی نابغہ شخصیات نے جنم لیا ان کی اولاد سے مختلف شخصیات علی پور سیداں کے علاوہ ملک و بیرون ملک آباد ہے ۔ ان اہم شخصیات میں اگرچہ قدیم شخصیات کی دستاویزات اور مہریں میسر ہیں جو ان کے مناصب کی نشان دہی کرتی ہیں تاہم ان کے علمی آثاردستیاب نہیں ہو سکے ۔ سید مبارک شاہ کی نسل سے ایک نابغہ شخصیت حکیم سید فضل حسین شاہ ہیں جنھوں سے احمد آباد سے حکمت کی۔فضل شاہ کے فرزند عبد الخالق شاہ نے قیام پاکستان سے قبل دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کی ۔ آپ ایم اے انگریزی ، ایم اے ایجوکیشن یوکے، ایل ایل بی تھے۔ پوری زندگی شعبہ تعلیم سے متمسک رہے انھوں نے حاصل کردہ علوم کو شعری زبان میں بیان کیا اسی طرح نثر پر بھی ان کی ایک ڈائری موجود ہے۔ آپ کی نظموں پر مشتمل پانچ ڈائیریاں محتاج اشاعت ہیں ۔ سید عبد الخالق شاہ کا کتاب خانہ بلا مبالغہ ہزاروں کتابوں پر مشتمل تھا جن میں سے اسلامی کتب ان کی رحلت کے بعد مختلف مدارس کو عطیہ کی گئیں ۔ سید عبد الخالق شاہ فارسی ، عربی ، فرانسیسی اور انگریزی زبان کے ماہر تھے ان کا کلام ان تینوں زبانوں میں موجود ہے ۔
حکیم سید فضل شاہ کے دوسرے فرزند سید محمد حسنین نے ایم اے انگریزی اور ایل ایل بی علی گڑھ سے کیا اس کے بعد برطانیہ سے ویٹنری سرجن کا چھ سالہ کورس کیا ۔ ابو غریب عراق میں ویٹنری ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی اور پچاس سے ستر کی دہائی تک وہاں علاج اور تحقیق سے وابستہ رہے ۔ ستر کی دہائی میں امریکا چلے گئے وہیں انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو وادی السلام عراق میں دفن کیا گیا ۔ سید محمد حسنین کو سابق صدر پرویز مشرف کے والد سید مشرف گرو شاہ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ چونکہ آپ ستارہ شناسی میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔ سید محمد حسنین شاہ کے فرزند آل حیدر سید ین نے سائنس اور ایم بی اے کی ڈگری امریکا سے حاصل کی اور پاکستان میں ایل ایل ایم کیا پاکستان ٹیکسٹائل کارپوریشن میں لیگل ایڈوائیزر رہے
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب راجے شاہ (۱۲۸۰)۔ شجرہ ماژندرانیان۔ قلمی نسخہ
- ↑ علیم الدین نقشبندی (۱۹۹۵)۔ قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار۔ لاہور: ایم ایس اشتیاق پرنٹرز۔ صفحہ: 1–213
- ↑ علیم الدین نقشبندی (1995)۔ قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار۔ لاہور: ایم ایس اشتیاق پرنٹرز۔ صفحہ: 64
- ↑ علیم الدین نقشبندی (۱۹۹۵)۔ قاضی فتح اللہ شطاری۔ لاہور: ایم ایس اشتیاق پرنٹرز۔ صفحہ: ۶۱
- ↑ ابو الحسنات ندوی (۱۹۷۹)۔ ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں۔ لاہور: مکتبہ خاور مسلم مسجد۔ صفحہ: ۱۰۴
- ↑ علیم الدین نقشبندی (۱۹۹۵)۔ قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثٓار۔ لاہور: ایس ایم اشتیاق پرنٹرز۔ صفحہ: ۶۵
- ↑ علیم الدین نقشبندی (۱۹۹۵)۔ قاضی فتح اللہ شطاری احوال و آثار۔ لاہور: ایس ایم اشتیاق پرنٹرز۔ صفحہ: ۶۶
- ↑ قاضی فتح اللہ شطاری (۱۰۸۱ھ)۔ خزائن فتحیہ الاسرار۔ میر پور: قلمی نسخہ۔ صفحہ: ۳۰۰–۳۰۱
- ↑ قاضی فتح اللہ شطاری (۱۰۸۱ھ)۔ خزائن فتحیہ الاسرار۔ میرپور: قلمی نسخہ۔ صفحہ: ۲۹۸